لیکن شہرت ایک حسی اور معنوی طور پر بے سود چیز ہے جیسے انسان کسی روگ کو محسوس کرتا ہے حالاں کہ وہ بظاہر غیر مفید شیء معلوم ہوتی ہے۔یہاں پر شرعی رو سے شہرت اور روگ میں بنیادی فرق ہے۔ شہرت ظاہری فائدہ اور معنی گناہ کے ساتھ نیکی کا خسارہ۔ اس کے برعکس روگ ظاہرمیں نقصان اور باطن میں اللہ سے اجر وثواب میں زیادتی اور گناہوں کے کفارے کا فائدہ۔
شاید یہ بات تھوڑی سمجھ میں نہ آئے۔
دیکھئے!شہرت معنی غیر مفید اس لئے کہ ظاہرا اس سے ملنے والی خوشی اور اس کی کیفیت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔لیکن شہرت کا معنوی پہلو جس پر نگاہ نہیں جاتی وہ ہے غیر منافع بخش یعنی گھاٹے کا سودا۔اب سودا کیوں؟وجہ صاف ہے کہ ایک انسان شہرت کی چاہ میں اپنی گاڑھی کمائی بھی بے دریغ لٹا دیتاہے اور بطور منفعت ہاتھ میں کھوٹا سکہ بھی نہیں۔بلکہ اللہ کے یہاں مجرمیں کہ صفوں میں شمار کیا جائے گا۔والعیاذباللہ!
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں اگر کسی بات کے تعلق سے سب سے زیادہ ڈر تھا تو وہ ہے دکھلاوا،ریا،نمو اور شہرت۔چناں چہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تم لوگوں کے بارے میں جس تعلق سے سب سے زیادہ خائف ہوں وہ ہے چھوٹا شرک”ریا”۔
اس لئے کہ ریا کو بطور ترکہ ورثے میں ملنے والے جو اوصاف ہیں وہ سب انسان کو ذلت وخواری کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیتے۔اور وہ شخص کبروغرور کا شکار ہوکر اپنی حیثیت تمام کربیٹھتا ہے۔اب نہ لٹانے کو کچھ رہا اور نہ بچانے کو کچھ۔
اور رہی بات دولت اور اس کی بھوک تو یہ دونوں باتیں معتوب اور مطعون نہیں ہیں۔بلکہ ایک مطلوب ہے اور دوسرا اس کے حصول میں جد وجہد ہے۔
لیکن یہ بات ضرور غلط ہے کہ ایک انسان سب کچھ پیسہ کو ہی سمجھ لے اور اس کے لئے وہ عزت وشرافت اور خودداری جیسی صفات کو پامال کردے۔ اس لئے کہ جو مال اس راہ آئے وہ نہ تو سکون قلب کا باعث ہے اور نہ ہی شرف ومروت کی بات ہے۔بلکہ یہ حرام اور خبیث مال ہے جو اللہ رب العزت کی پاک اور حلال پسند کے منافی ہے۔
اللہ تعالی فرماتاہے:ائے ایمان والوں پاک اور حلال چیزوں میں سے کھا”
اور رسولوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”ائے رسولوں پاک چیزوں میں سے کھا اور عمل صالح کرو۔
آیت کا پہلا ٹکڑا جس میں رسولوں کو حلال رزق کے اختیار کی تلقین کی جارہی ہے ۔دوسرے قطعہ میں نیک کاموں کا حکم دیا جارہاہے۔یعنی عبادات کے قبول کی شرط میں سے ہے کہ رزق حلال اور پاکیزہ اپنایا جائے۔جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم کہ روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ دونوں آیات کے بیان کے بعد ایک ایسے شخص کا ذکر کرتے ہیں جو لمبا سفر طے کرکے آیا ہو اس کے بال پراگندہ ہوں غبارآلود ہوں۔ اور وہ اپنے دونوں ہاتھ آسماں کی جانب اٹھائے ہو۔ اور ائے میرے رب!ائے میرے رب!کی پکار لگارہاہو۔حالاں کہ اس کا کھانا حرام کا ہے،پانی حرام کاہے۔اس کے بدن پر پوشاک حرام کمائی کا ہے۔اس کی پرورش حرام طریقے پر ہوئی ہے۔ایسی صورت میں اس کی دعا قبول ہوگی؟!!!
یہ بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے۔اللہ ہمیں کسب حلال کی توفیق دے اور اس کی راہ آسان کرے۔
اب اگراصول اور شرعی حدود وقیود کی بندش سے آزاد نہ ہوکر دولت کمائی جائے اور اس کی بھوک ہو تو کوئی بات نہیں۔ بلکہ یہ مستحسن امر ہے۔
اللہ تعالی تجارت میں وقت کی پابندی کو متعین کرتے ہوئے فرماتا ہے:ائے ایمان والوں جب جمعہ کی نماز کے لئے آذان پکاری جائے تو اللہ کے ذکر (نماز)کے لئے جلدی کرو اور اپنی تجارت کو چھوڑ دو۔اس میں تمہارے لئے خیروبھلائی (پوشیدہ)ہے اگر تم جان لیتے۔اور جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جا اور اللہ کے فضل(رزق)کو تلاش کرو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو شاید کے تم کامیاب ہوجا۔
دولت اور شہرت پر گفتگو کے بعد ایک بات آئینے کی طرح بالکل صاف ہوگئی کہ دولت کی بھوک اگر غیر مشروع طور پر مٹانے کی کوشش کی جائے تو اس کا انجام شہرت کے روگ کے انجام کے مماثل ہوگا۔یعنی دونوں کا طالب عنداللہ معتوب ہے۔لیکن اگر حلال طریقے سے مال کمایا جائے تو یہ مطلوب اور مستحسن امر ہے۔معلوم ہوا کہ دولت کی بھوک جائز طریقے سے مٹائی جاسکتی ہے لیکن شہرت کا روگ تو کسی طور پر بھی سود مند نہیں بلکہ اس میں مال،عزت اور سکون سب کا خسارہ ہے۔یعنی شہرت کسی بھی زاویے سے یا اس کا کوئی بھی پہلو قصیدہ خوانی کا مستحق نہیں۔البتہ اس کے طالب کا جنونی پہلو ستائش کا مستحق ہے اور کاش وہ اپنے اس جنون کا فائدہ اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر میں لگاتے۔
جواب دیں