میں نے کہا کہ میں ۴۱فروری کو دہلی جارہاہوں واپسی کا ٹکٹ ۸۱فروری کا بنواکے جمعرات کی صبح آپ کے دردولت پر حاضر ہوتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے میں ہزاری باغ اور دھنباد جارہاہوں میں بھی جمعرات کی صبح آجاوں گا۔ان کے خادم سے اتنا معلوم ہوا کہ ابھی دھنباد نہیں جاسکے تھے ہزاری باغ ہی میں طبیعت خراب ہوئی اور انتقال فرماگئے۔اﷲ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔
ڈاکٹر صاحب کے تعارف میں استاذمحترم حضرت مولانااعجازاحمد صاحب اعظمی نے ان شخصیت کی مکمل عکاسی کی ہے:
ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب اس دور میں متاعِ درد وغم ، سرو رعشق ومحبت ، جذبہ خلوص وبے نفسی اور انسانیت وشرافت کی ایک روشن علامت ہیں ۔ بہار کا یہ مظلوم انسان جس نے ابتداءجوانی میں فسادیوں ، رہزنوں اور قاتلوں کے ہاتھوں اپنے پورے خاندان ، اپنی پوری بستی بلکہ ایک خطے کے خطے کو برباد ہوتے دیکھا ۔ درد وغم کی اَنی دل میں اتری اور ٹوٹ کر رہ گئی ، اس درد کی کسک کو انھوں نے شعر وادب کا پیکر عطا کرکے دنیا والوں کے سامنے تحفہ کے طور پر پیش کیا ، خاموش مگر نہایت گہری سوچ والے ، یکسو مگر کام کی ہر چیز پر وسیع نگاہ رکھنے والے ، ان کی کتاب جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی سے تعارف ہوا، وہی ذریعہ ملاقات بنی ، ان کی غزلوں کے مجموعہ وہ جو شاعری کا سبب ہوا نے ان کے دل کی ترجمانی کی ،بس وہ اپنے اس شعر کے ہوبہو مصداق ہیں
کیسے کیسے دکھ نہیں جھیلے ، کیا کیا چوٹ نہ کھائے
پھر بھی پیار نہ چھوٹا ہم سے عادت بری بلائے
دنیا کا اپنے انداز کا نرالاالبیلا انسان، نہایت دیندار، بہت ہی پُرسوز ، ان کا البیلاپن ، ان کا جذبہ بیداری اور ان کا سوزِ دروں ،جب الفاظ کے پیکر میں جلوہ گر ہوتا ہے تو ادب وانشاءکا ایک نیا اُسلوب جنت نگاہ بنتا ہے۔
حضرت مولانا ایک خط میں لکھتے ہیں:
میرے سامنے ایک شخصیت ہے ، بچپن اس کا محبت کی معصوم فضاو ں میں گذرا ۔ جوانی آئی تو گردشِ زمانہ نے سخت ٹھوکر لگائی ، مگر سنبھالنے والا اسے سنبھالے رہا ۔ اب اس کا بڑھاپاہے ، آفتابِ عمر لب بام آگیا ہے ، اب کوئی دم ہے کہ کانوں میں یَا ا یَّتُھَا النَّف سُ ال مُط مَئِنَّةُ ر جِعِی لیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّةً (اے نفس مطمئنہ! اب اپنے رب کے حضور لوٹ چل ، اس حال میں لوٹ چل کہ تو بھی راضی اور وہ بھی راضی ) کی صدائے دلنواز گونجنے والی ہے ، اور وہ فَاد خُلِی فِی عِبَادِی (میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا )کی رہنمائی میں انھیں لوگوں کے جھرمٹ میں جاپہونچے گی ، جس کی یاد میں اس نے آنسو دریا دریا بہائے ہیں ، زندگی تڑپ تڑپ کر بسر کی ہے ، اور سب کے ساتھ مل کر وَاد خُلِی جَنَّتِی (میری جنت داخل ہوجا ) کا روح پرور نغمہ سنتے ہوئے جنت میں جاداخل ہوگی ، جہاں ناقدری کی شکایت نہ ہوگی ! ایسی شخصیت کو بھلا یہاں کے ناقدروں سے کیا شکوہ؟اس نے سب کے ساتھ پیار کیا ہے اور کئے جارہا ہے ، اس نے دشمن کو گلے لگایا ہے ، اس نے کانٹوں کو پھول سمجھ کر اٹھایا ہے ، اس نے زخموں سے بھی پیار کیا ہے ، اور زخم دینے والے ہاتھوں کوبھی بوسہ دیا ہے ،
حضرت مولانا کی وساطت سے ان سے خط وکتابت شروع ہوئی ،اور آج سے ۲۲سال پہلے۳۹۹۱ءمیںان کی محبت مجھے کھینچ کر ان کے آستانے پر پٹنہ لے گئی،یہ اس وقت کی بات ہے جب میں درجہ فارسی میں پڑھ رہا تھااور ان کی خود نواشت سوانح جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی اور ان کا سفرنامہ حج یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ پڑھ چکا تھا۔اور ان سے حددرجہ ان کی نثر اور اشعار دونوں نے مجھے اپنا بنارکھاتھا۔ کسی شاعر کا کلام اور نثری تحریریں جتنی میں کلیم عاجز صاحب کی پڑھی ہیں کسی کی نہیں پڑھی ہیں ، پہلی ملاقات کے بعد یہ محبت نہایت تعلقات میں بدل گئی ، پھر تو نہ جانے کتنی بار محض ان سے ملنے پٹنہ گیا ، ان کی شرافت وانسانیت، محبت ومروت ، تواضع وخاکساری ،اعلیٰ درجہ کا اخلاق ان سب چیزوں نے مجھے ہمیشہ ان کا اسیر بنائے رکھا اور میں نے ان کا پیغام محبت عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کی ذرہ نوازی اور قدرافزائی کا حال یہ تھا کہ میں نے ایک مرتبہ جب وہ دہلی سے پٹنہ واپس آرہے تھے، تو درخواست کی کہ آپ میرے وطن خیرآباد اور ہمارے مدرسہ شیخوپور آئیے۔ انھوں نے بغیر کسی تامل کے یہ درخواست منظورکی، اور دونوں جگہوں پر تشریف لائے اور دونوں جگہ ان کے پروگرام ہوئے، پھر میں ان کو رخصت کرنے ان کے گھرپٹنہ تک ساتھ گیا۔اب تو ہرسال یہ معمول بن گیا تھا کہ ایک دوبار ملاقات کے لئے پٹنہ پہونچ جاتاتھا ،اسی سلسلے کی ایک کڑی بدھ کا سفرپٹنہ تھا، لیکن افسوس کہ اب وہ نہ مل سکیں گے تو چل کر قبر پر حاضری دے لیں ان کی یاد میں کچھ آنسو بہالیں ، ان کے لئے دعائے مغفرت کا سلسلہ تو انشاءاﷲ تاحیات جاری رہے گا۔ ان کی یادیں تو مسلسل درِ دل پر دستک دیتی رہیں گی اور ان کی غیر معمولی شفقت ومحبت اور قدرافزائی خون کے آنسو رلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب اکتوبر ۵۲۹۱ءمیں عظیم آباد(پٹنہ) کے ایک دیہات تیلہاڑہ میں پیدا ہوئے، ابتداءہی میں مطالعہ کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ دس سال کی عمر میں فسانہ عجائب طلسم ہوش ربا اور نہ جانے کون کون سی ادبی کتابیں اور رسالے پڑھے ہی نہیں بلکہ چاٹ ڈالے، اسی زمانے میں کچھ اشعار بھی کہے ، ہائی اسکول انھوں نے امتیازی شان کے ساتھ پاس کیا ، لیکن اسی دوران کچھ خانگی پریشانیاں والد کا انتقال اور پھر ۶۴۹۱ءکے فسادکا دلسوزوالمناک سانحہ جس نے ان کو زیروزبر کرڈالا ، ۶۴۹۱ءمیں عین بقرعید کے دن ان کی ماں اور بہن سمیت خاندان کے ۲۲افراداور گاوں کے تقریباً ۰۰۸افراد فسادیوں درندوں اور جنونیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے، اس حادثے نے ان پر کیا کیفیت پیدا کی اسے ان کی خودنوشت سوانح 148جہاں خوشبوہی خوشبوتھی میں پڑھئے ۔اس غم والم کو انھوں نے شعر وادب کا پیکر عطا کیا،وہ کہتے:
غم نے گانابجانا سکھایا جان دیدیں گے گاتے بجاتے
اس سانحے کے کئی سال کے بعد انھوں نے تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا ، اور ایم اے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسرہوئے اور اخیر میںشعبہ اردو کے صدر شعبہ کی حیثیت سے ۴۸۹۱ءسے سبکدوش ہوئے۔اس کے بعد انھوں نے بقیہ زندگی دین کی اشاعت اور پیغام محبت وانسانیت کو عام کرنے میں بتادی، وہ بہار تبلیغی جماعت کے گزشتہ کئی دہائیوں سے امیررہے۔ مرکز کے تمام اکابرین سے ان کے نہایت گہرے مراسم رہے ، امیرجماعت تبلیغ مولانا انعام الحسن صاحب پر ان کا مرثیہ جواردو ادب کاشاہکارہے ان کی نظموں کے مجموعہ کوچہ جاناں جاناں میں ہے ۔ ان کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
۱۔ وہ جو شاعری کا سبب ہوا(پہلا مجموعہ کلام)
۲۔جب فصل بہاراں آئی تھی(دوسرا مجموعہ کلام)
۳۔پھر ایسانظارہ نہیں ہوگا(مجموعہ کلام)
۴۔جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی (خود نوشت سوانح)
۵۔ابھی سن لو مجھ سے(خود نوشت سوانح)
۶۔کوچہ 191 جاناں جاناں!(نظموں اور نعتوں کا مجموعہ)
۷۔مجلس ادب( شعری نشستوں کی ایک روداد)
۸۔دیوانے دو(خطوط کا مجموعہ)
۹۔میری زبان میرا قلم(مجموعہ مضامین دوجلد میں)
۰۱۔دفتر گم گشتہ (پی ایچ ڈی کا مقالہ)
۱۱۔یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ (سفرنامہ حج)
۲۱۔ ایک دیس اک بدیسی (سفرنامہ امریکہ)
اس کے علاوہ ان کی بھانجی نے ان کے نام خطوط کا مجموعہ اکٹھاکیا جسے خدا بخش لائبریری نے شائع کیا ہے، نام ذہن میں نہیں آرہا ہے، سفر کی حالت میں بالکل قلم برداشتہ یہ چند سطریں لکھ دی ہیں انشاءاﷲ اطمینان سے تفصیلی مضمون لکھوں گا۔
جواب دیں