لڑکیوں کو بنادیا تحفہ!
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں واقع ایک مشہور کلب میں کام کرنے والی سابق جسم فروش خاتون کارولا کاسنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ وی آئی پی شخصیات کو گفٹ پیش کیے جاتے ہیںجبکہ یہ تحائف عام طورپر خوبصورت لڑکیوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔گذشتہ روز فرانس میں آئی ایم ایف کے سابق سربراہ سٹراو س کاہن اور دیگر تیرہ افراد کے خلاف ایک ہائی پروفائل مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا ہے۔ ان کیخلاف الزام عائد ہے کہ وہ ایک ایسے جسم فروشی کے بڑے گروہ کا حصہ تھے، جسے مقامی بزنس مین اور پولیس حکام بھی استعمال کرتے تھے۔
افسوسناک کاروبار ڈیل :
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کارولا کا شرمناک انکشاف منظرعام پر آیاہے کہ کمپنیاں، بعض اوقات یہ انٹرنیشنل کمپنیاں بھی ہوتی ہیں، ہمارے پاس ایسی لڑکیوں کے بارے میں پوچھنے کیلئے آتی تھیں، جنہیں وہ تحفہ کے طور پر پیش کر سکتے ہوں۔ وہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک کار کمپنی ایک مقامی تاجر کو ٹرک فروخت کرنا چاہتی تھی۔ مجھے اس ڈیل پر دستخط کروانے کیلئے وہ سب کچھ کرنا پڑا، جو میں کر سکتی تھی۔
عرب اور ایشائیوں پر ٹھیکرا:
جسم فروشی سے متعلق مقدمات میںماہر وکیل ایرک ڈوپونڈ موریتی بھی تائید کرتے ہیں کہ 70 سے80 فیصد ہائی پروفائل کال گرلز کا استعمال بزنس ڈیلز کیلئے کیا جاتا ہے۔عصمت فروشی کے شعبہ کے ایک ماہر ڑان سیباستیان مالیٹ نے اس کا ٹھیکراعرب اور ایشیا کے باشندوں پر پھوڑا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسا عموما ان شعبوں میں کیا جاتا ہے، جہاں کرپشن اور رشوت عام ہیں مثلا کنسٹرکشن، امپورٹ، ایکسپورٹ اور انرجی سیکٹر وغیرہ میںجبکہ یوروپ کے ساتھ ساتھ کچھ عرب اور ایشائی ملکوں میں تاجروں کو نوجوان لڑکیاں مہیا نہ کی جائیں تو وہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
دباو قائم کرنے کا ہتھیار:
تاہم سیکس کو دباو قائم کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کارولا کے بقول اکثر ہوٹلوں میں کاروباری شخصیات کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے لڑکیاں بھیج دی جاتی ہیں تاکہ مطلوبہ شخصیت کو بلیک میل کرنے کی راہ ہموارکی جا سکے۔ دوسری جانب ایسے معاملات میں پیش کی جانے والی لڑکیاں بھی عام پس منظر کی حامل نہیں ہوتیں۔ جسم فروشی کے خلاف کام کرنے والی ایک تحریک اسکیلز کے سربراہ ایوس چارپ نیل کے بقول یہ ہر گز رومانیہ کی غریب لڑکیاں نہیں ہوتیں بلکہ امیر یوروپی ممالک کی ایسی لڑکیاں جونہ صرف تربیت یافتہ ہوتی ہیں بلکہ بڑے بڑے نیٹ ورکس کیلئے کام بھی کر رہی ہوتی ہیںجبکہ اس کام کیلئے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔
مرض ہے پرانا:
تاہم گذشتہ سے شروع ہونے والا مقدمہ جسم فروشی سے متعلق کوئی پہلا ہائی پروفائل مقدمہ نہیں ہے بلکہ 1995کے دوران بھی مشہور اطالوی ڈیزائنر فرانسیسو سمالتو کو گیبون کے صدر عمر بونگو کے ہوٹل میں کال گرلز کے ایک گروپ کو بھیجنے پر سزا سنائی گئی تھی۔ دوسری جانب ایسے مقدمے چلانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے، ایسی جسم فروش خواتین کم ہی ہوتی ہیں جو عدالت میں گواہ کے طور پر پیش ہونے کیلئے تیار ہوں۔
آئی ایم ایف سربراہ کے کرتوت:
یوں تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈعرف آئی ایم ایف کو پہلے ہی ترچھی نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے ۔سودی نظام کے اس ادارہ کے سابق سربراہ ڈومینیک سٹراو 191س کاہن کے خلاف فرانس کے شہر لیل میں منظم جسم فروشی کے اہتمام کی حدوں کو چھونے والی جنسی پارٹیوں کے انعقاد کے الزامات کے تحت گذشتہ روز مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی Lille سے موصولہ رپورٹیں شاہد ہیں کہ شمالی فرانس کے اس شہر کی ایک عدالت میں 2 فروری سے جس مقدمے کی سماعت ہوئی، اس کے ملزمان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے سابق سربراہ ڈومینیک سٹراو س کاہن کے علاوہ13 دیگر افرادبھی شامل ہیں۔
عیاشی تیرا ہی آسرا!
ڈومینیک سٹراوس کاہن، جو فرانسیسی عوام اور میڈیا میں زیادہ تر اپنے نام کے ابتدائی حروف DSK کے طور پر جانے جاتے ہیں، ماضی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہ تھے جس کے صدر دفاتر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہیں۔ اس دور میں انہیں فرانس میں ملکی صدر کے عہدے کیلئے ایک مضبوط ممکنہ امیدوار بھی قرار دیا جاتا تھا لیکن اسی دوران انہیں ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات کے باعث آئی ایم ایف کی سربراہی سے مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ ڈومینیک سٹراو 191س کاہن اور دیگر ملزمان کو اب لِیل کی ایک عدالت میں اپنے خلاف جن الزامات کا سامنا ہے، وہ ایسی سیکس پارٹیوں سے متعلق ہیں، جن کیلئے پیشہ ور جسم فروش خواتین کو باقاعدہ مدعو کیا جاتا تھا۔ فرانسیسی میڈیا میں اس مقدمے کے سلسلے میں کارلٹن افیئر کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔
منظم دلالی کا پھوٹا بھانڈا:
استغاثہ کے مطابق واضح الفاظ میں کہا جائے تو اس مقدمے میں DSK اور دیگر ملزمان کو اپنے خلاف جسم فروشی کے حوالے سے منظم دلالیکے الزامات کا سامنا ہے۔ فرانسیسی قوانین کی رو سے کوئی بھی شخص اس وقت منظم جنسی دلالی کا مرتکب ہوتا ہے جب وہ سیکس پارٹیوں کا اہتمام کرے یا کسی تیسرے فریق کے طور پر جنسی کاروبار کیلئے ادائیگیاں کرے۔اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت سے قبل ہی ڈومینیک سٹراو س کاہن نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ وہ ماضی میں جسمانی اور جنسی عیش و عشرت کا سامان مہیا کرنے والی ایسی فراخدلانہ پارٹیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں، جن کا اہتمام زیادہ تر واشنگٹن، پیرس اور لِیل میں کیا جاتا تھا۔ تاہم ساتھ ہی سٹراوس کاہن کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہیں ایسی پارٹیوں میں موجود جنسی خدمات فراہم کرنے والی خواتین کو کی جانے والی مالی ادائیگیوں کا کبھی کوئی علم نہیں رہا اور نہ ہی انہوں نے خود کبھی ایسی کوئی ادائیگی کی۔
تفتیشی ماہرین کی تائید:
اگر آئی ایم ایف کے سابق سربراہ کا یہ دعویٰ عدالت میں سچ ثابت ہو گیا تو اس وقت 65 سالہ سٹراوس کاہن سزا سے بچ جائیں گے۔ اس سلسلہ میں سٹراو س کاہن کے وکیل صفائی نے بھی لِیل کی عدالت میں مقدمے کی باقاعدہ سماعت سے پہلے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر ایسی جنسی پارٹیوں میں پیشہ ور جسم فروش خواتین کو بلایا بھی گیا تھا تو ان کی پروفیشنل سیکس ورکرز کے طور پر شناخت کا ممکنہ طور پتہ لگانا انتہائی مشکل یا تقریبا ناممکن رہا ہو گا۔عجیب بات یہ ہے کہ اس کے برعکس اس مقدمہ میں فرانسیسی محکمہ انصاف کے تفتیشی ماہرین کا اصرار ہے کہ ایسی پارٹیوں کے حوالہ سے IMF کے سابق سربراہ DSK کو یقینی طور پر علم تھا کہ وہاں بلائی جانے والی خواتین پیشہ ور جسم فروش ہوتی تھیں۔
ایک تھیلی کے چٹے بٹے:
اس مقدمے کے سلسلے میں کارلٹن افیئر کی اصطلاح اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ کل چودہ ملزمان میں لِیل میں کارلٹن نامی ایک لگڑری ہوٹل کے تین ینیجرز بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے کی وجہ بننے والی سیکس پارٹیوں میں سے لِیل میں اہتمام کردہ ایسے نام نہاد نجی ہائی سوسائٹی اجتماعات کا انعقاد اسی کارلٹن ہوٹل میں کیا جاتا تھا۔مقدمے کی سماعت کے پہلے روز عدالت نے کئی سابقہ جسم فروش خواتین کی یہ درخواست مسترد کر دی کہ یہ سماعت بند کمرے میں مکمل کی جائے اور عوام الناس کو اس مقدمے کی عدالتی تفصیلات سے دور رکھا جائے۔اس مقدمے میں ڈومینیک سٹراو س کاہن کا عدالتی بیان اگلے ہفتے متوقع ہے۔یہ الگ بات ہے کہ2 فروری کی ابتدائی کارروائی کے بعد اس مقدمہ کی مزید سماعت 20 فروری تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
منافع بخش کاروبار:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر یوروپ میں یہ خطرناک رجحان کیوں پنپ رہا ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ جرمنی میںتو جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر دفتروں کی طرح جسم فروشی کے اڈوں پر بھی کام کیا جا سکتا ہے اور خواتین اسے پیسے کمانے کا تیز ترین طریقہ خیال کرتی ہیں۔2002کے دوران جرمن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق ایک نیا ایکٹ نافذ کیا تھا اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔جبکہ اس وقت تک جسم فروشی کرنے والی خاتون اور کسی سیکس سینٹر کے مالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غیر اخلاقی تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ قحبہ خانہ چلانے والے کے خلاف جسم فروشی کو فروغ دینے کے الزام کے تحت ا س پر مقدمہ بھی چلایا جا سکتا تھا۔ اب قحبہ خانہ چلانے والوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
جسم فروشی پر ٹیکس؟
جسم فروش خواتین کو ٹیکس پہلے بھی ادا کرنا پڑتا تھا لیکن اب ایسی خواتین ہیلتھ اور سماجی انشورنس بھی کروا سکتی ہیں۔ جسم فروش خواتین مستقل بنیادوں پر بھی کام کر سکتی ہیں جبکہ جسم فروش خواتین کا استحصال اب بھی جرم ہے۔جرمنی میں جسم فروشی کا قانون دنیا بھر کے لبرل قوانین میں سے ایک ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں جسم فروشی غیرقانونی کام ہے۔ اسی طرح سویڈن اور فرانس میں بھی پیسے لے کر جنسی تعلق قائم کرنا ممنوع ہے لیکن ان ملکوں میں بھی جسم فروشی کا کاروبار ہوتا ہے اور پولیس اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ اگر کسی ایسے جوڑے کو پکڑ بھی لیا جائے تو وہ خود کو ایک دوسرے کے دوست قرار دے دیتے ہیں۔
لوٹ فطرت کی طرف:
لیکن غنیمت یہ ہے کہ اب جرمنی میں بھی انسداد عصمت فروشی کی ایک تحریک جسم فروشی کو غیرقانونی قرار دینے کے مطالبہ کر رہی ہے۔ اس تحریک میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کو قانونی تحفظ دینے سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بہت سی لڑکیوں کو دباو کے تحت یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب ماہر سماجیات باربرا کیومان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا جسم فروشی کے قانون سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ کی بنیادی وجہ یوروپی یونین کی پھیلتی ہوئی سرحدیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دو ہزار چار کے بعد مشرقی یوروپ کے تیرہ ملکوں کو یوروپی یونین میں شامل کیا گیا ہے۔ ان نسبتاغریب ممالک کی خواتین قانونی طور پر جرمنی میں آ سکتی ہیں اور قیام بھی کر سکتی ہیں۔
کم سن لڑکیوں کااستحصال:
برلن کی ایک تنظیم ہائیڈرا شاہد ہے کہ جرمنی میں جسم فروش خواتین کی تعداد تقریباً 4 لاکھ ہے۔ تاہم اس حوالہ سے بھی معلومات بہت محدود ہیںجبکہ کام ڈھونڈنے کی نیت سے آنے والی ہر گیارہویں لڑکی نابالغ ہوتی ہے۔دوسری جانب جرمنی میں بچوں سے بھی جسم فروشی کروانے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ قانونی طور پر بچوں سے جسم فروشی کرانا ایک جرم ہے جو اب ایک منافع بخش کاروبار بھی بن چکا ہے۔ بچوں سے جسم فروشی کا کام انتہائی خفیہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ نائٹ کلبوں، بازار ح سن اور اسی طرح کے دیگر اڈوں پر کم سن بچے دکھائی نہیں دیتے۔ جرمنی میں بچوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے سے منسلک میشتِھلڈ ماورر کہتی ہیں کہ اس حوالے سے باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
کیا کہتے ہیں ماہرین؟
تجزیہ کاروں کے مطابق اس کاروبار سے بہت سے ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی وابستہ ہیں، جو اسکول بھی جاتے ہیں اور بعد دوپہر جسم فروشی کرتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی کسی اجنبی کے کہنے پر جسم فروشی پر رضامند ہو جائے۔ اس جانب دلچسپی پیدا کرنے میں دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھروسہ ہے۔ جسم فروشی کے کاروبار سے متاثر ہونے والوں سے رابطہ قائم کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ متاثرہ افراد میں سے شاذ و نادر ہی کوئی کسی امدادی تنظیم کے پاس مدد کیلئے جاتا ہے۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی متعدد وجوہات ہیں، جن کے باعث جسم فروشی کے جال سے رہائی ایک بہت ہی مشکل اور طویل مرحلہ ہے۔
جواب دیں