جوحیرت ناک بھی تھا اورغیرمتوقع بھی۔یوں تواس الیکشن میں پوری دہلی کے بیشترعوام نے’آپ‘کوسپورٹ کیااوراسے ہرطبقے کا ووٹ دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ ہی حاصل ہوا،مثلاًجہاں غریبوں اورجھگی جھونپڑیوں میں رہنے والوں کا۶۶؍فیصدووٹ عام آدمی پارٹی کوحاصل ہوا،وہیں لورکلاس کا۵۷؍فیصد،مڈل کلاس کا۵۱؍فیصد اور اعلیٰ طبقات کے ۴۷؍ فیصد ووٹس ’آپ‘کوملے ،جبکہ بی جے پی اعلیٰ طبقات کا۴۳؍فیصد،مڈل کلاس کا ۳۵؍فیصد،لورکلاس کا۲۹؍فیصدجھگی والوں کا۲۲؍فیصدووٹ حاصل کرسکی اور کانگریس کوتوکسی بھی طبقے میں پسندنہیں کیا گیااوراس کوحاصل ہونے والے ووٹوں کی مجموعی شرح آخری حد تک کم ہوگئی۔ البتہ مجموعی طورپر دیکھاجائے ،تو اقلیتوں کے ووٹوں نے عام آدمی پارٹی کی کامیابی میں زیادہ اہم رول اداکیا،خاص طورسے سکھ اور مسلم ووٹ نے۔ سکھ دہلی کی کل آبادی کا ۴؍فیصد ہیں اورعام آدمی پارٹی کواس بارسکھوں کے۵۷؍فیصدووٹ حاصل ہوئے،جو۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۳۰؍فیصدزیادہ تھے اور اسی وجہ سے ’آپ‘نے دہلی کی پانچوں سکھ آبادی والی سیٹوں(تلک نگر،ہری نگر،راجوری گارڈن،شاہدرہ اورکالکاجی)پرکامیابی حاصل کی؛حالاں کہ مودی حکومت نے دہلی الیکشن سے کچھ ہی دن قبل۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے متاثرین اور ان کے ورثاکو پانچ پانچ لاکھ کے معاوضے کے ذریعے لبھانے اور سکھ ووٹ بینک کواپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی تھی،مگراسے کامیابی نہیں ملی اورعملی طورپردہلی کی سکھ آبادی نے یہ ثابت کردیاکہ مودی حکومت کی یہ ’کرم فرمائی‘دراصل ایک سیاسی چال ہے اور وہ اس میں آنے والی نہیں ہے۔
اسی طرح دہلی میں مسلم آبادی کل آبادی کا ۱۲؍ فیصد ہے اور حسبِ روایت یہ ہمیشہ سے کانگریس کو ووٹ کرتی آرہی تھی اور گزشتہ سال تو اس کا واضح ثبوت بھی تب ملا تھا،جب کانگریس کے کل آٹھ ایم ایل ایزمیں سے چارمسلمان تھے،جومسلم اکثریتی علاقوں سے منتخب ہوئے تھے اور ایسا اس لیے ہوا تھا کہ مسلمانوں کو اُس وقت بھی ایسی اُمید تھی یا ان کے مذہبی رہنماؤں اوراُن کی پشتینی کانگریسی لیڈرشپ نے ان کے ذہن میں یہ بٹھادیاتھا کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود صرف کانگریس کے ذریعے ممکن ہے اور بی جے پی جیسی قومی پارٹی سے دوبدوہونے کا یارا’آپ‘جیسی نومولود پارٹی میں نہیں ہے،مگرجوکانگریس خودتنظیمی بحران سے گزررہی تھی اور اس کا تقریباًہر لیڈراوروزیردس سال کی تخت نشینی کے دوران بدعنوانی کے گندے کھیل میں ملوث پایاگیاتھا،وہ ان کی امیدوں پرکھرااترناتودرکنار،خوداپنے آپ کوبھی سنبھال پانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔اسی درمیان اپریل،مئی ۲۰۱۴ء میں لوک سبھا الیکشن بھی آدھمکا،تواس وقت دہلی کے مسلمانوں نے اپنا موڈبدلا اوراِدھراُدھرسے کانگریس کے حق میں (اورکہیں کہیں سے بی جے پی کے حق میں بھی)بلندہونے والی بے شمار کرایے کی آوازوں کے باوجودان کا ۵۶؍فیصد ووٹ ’آپ‘کوملا،جبکہ ۳۹؍فیصدکانگریس کے حصے میں چلاگیا،پھرووٹوں کے انتشارکی یہی صورت یوپی،بہارجیسی ریاستوں میں بھی پیش آئی اور اِس طرح مسلمان دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں سمیت پورے ملک میں کہیں بھی فیصلہ کن کردار ادانہ کرسکے اور صرف ۲۹؍ فیصدووٹ حاصل کرکے بی جے پی بھرپوراکثریت کے ساتھ مرکزمیں برسرِ اقتدارآگئی۔پھرحسبِ توقع مسلمانوں نے حکومت میں آنے کے بعد بی جے پی کے زہر ناک منصوبوں کودیکھا،اس کے لیڈروں کی بدزبانی و بے لگامی دیکھی ، دائیں بازوکی انتہاپسند تنظیموں کے’گھرواپسی‘کے پروگراموں کو دیکھا،لوجہادکا پروپیگنڈہ اوربی جے پی کے بعض ناہنجارممبرانِ پارلیمنٹ کی فحش گوئی وعریاں گفتاری دیکھی اوران سب واقعات پروزیراعظم مودی کی ’خطرناک خاموشی‘بھی دیکھی،توانھیںیقین ہوگیاکہ لوک سبھا الیکشن میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جو وعدہ کیاگیاتھا اورجس کی اب بھی تکرارکی جاری ہے،وہ فریبِ محض ہے،اس پارٹی کی نیت اور نیتی میں کوئی بدلاؤنہ آیاہے اورنہ مستقبل میں اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔دوسری جانب چوں کہ مسلسل شکست خوردگیوں کی وجہ سے کا نگریس اس پوزیشن میں نہیں کہ اسے پھرسے سپورٹ کرنے کی غلطی باربارکی جائے ، سومسلمانوں نے دہلی انتخابات میں چندایک مذہبی رہنماؤں کی روایتی اپیلوں اور پیغامات کو ناقابلِ اعتباروتوجہ سمجھتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی شکل میں ایک تیسرے آپشن کو چننے کا انتہائی دانش مندانہ فیصلہ کیا،دہلی کے مسلمانوں نے ’آپ‘کو ریکارڈتوڑانداز میں سپورٹ کیا،اسے مسلمانوں کے کل۷۷؍فیصدووٹس حاصل ہوئے اور دہلی کی ۳۰؍فیصدیااس سے زائد مسلم آبادی والی دس سیٹوں میں سے ۹؍پرعام آدمی پارٹی کے امیدواروں کوکامیابی حاصل ہوئی۔جن میں سے اہم ترین اوکھلا کی سیٹ ثابت ہوئی،جہاں سے عام آدمی پارٹی کے امیدوارامانت اللہ خان نے بی جے پی امیدوارکے خلاف تقریباً۶۵؍ہزارووٹ کے ریکارڈفرق سے جیت حاصل کی،صرف مصطفی آباد کی سیٹ ایسی رہی،جہاں کانگریس حسبِ سابق مسلمانوں کے ووٹوں میں سیندھ ماری میں کامیاب رہی اورنتیجتاًوہاں سے بی جے پی کا امیدوارکامیاب ہوگیا۔
اس الیکشن کے نتائج سے دو باتیں نکھرکرسامنے آتی ہیں،ایک تویہ کہ مسلمان اب بھی’کنگ میکر‘ہیں اورلوک سبھا الیکشن کے نتائج کے بعد وشو ہندو پریشد کے رہنمااشوک سنگھل نے مسلمانوں کاووٹ بکھرجانے کی وجہ سے ان پر پر طنزکرتے ہوئے جویہ کہاتھاکہ مسلم ووٹ بینک کاکوئی وجودنہیں ہے،وہ سراسرغلط ہے اوراس حوالے سے ان کوبھی اور ان جیسے سارے ہندوتواکے ٹھیکے داروں کوبھی دہلی میں بی جے پی کی شرمناک شکست کو یادرکھناچاہیے،یہ توبی جے پی کی خوش نصیبی اور مودی کی طوفانی تشہیری مہم کا نتیجہ تھاکہ انھوں نے لوک سبھا الیکشن میں ہندوووٹ کواپنے حق میں متحد کرلیااورسیکولرووٹ جمہوریت نوازی کے دعوے کرنے والی دسیوں قومی و علاقائی پارٹیوں کے چکرویومیں الجھ کر رہ گیااوربالآخربی جے پی (اور دراصل آرایس ایس) کواقتدارتک پہنچنے اورپھراسے کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔حالیہ نتائج سے جودوسری چیزسامنے آئی ہے،وہ یہ کہ مسلمان اب اپنی سیاسی ترجیحات بدلنا چاہتے ہیں،چوں کہ دہلی میں ملک بھرکے مختلف صوبوں کے،متعددشعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بستے ہیں؛اس لیے یہ کہنا بے جانہیں ہوگاکہ یہ ذہنیت اب سارے ملک کے مسلمانوں کی بن رہی ہے ،ان کے اندرون میں ایک قسم کی بے چینی پائی جارہی ہے اوراسی کااظہارانھوں نے حالیہ دہلی الیکشن میں کیاہے،بطورِخاص مسلمانوں کی نئی نسل میں روایت سے ہٹ کرایک الگ قسم کاسیاسی شعورپیدا ہورہاہے اوروہ اُدھرچلنے لیے ہرگزبھی تیارنہیں ہوگی،جدھراس کے رہنماچلانا چاہتے ہیں؛ کیوں کہ یہ نسل حالات کو دیکھنے اور پرکھنے کے ساتھ اپنے رہنماؤں کے قول و عمل کے تضادسے بھی بخوبی واقف ہوچکی ہے ،وہ ذہنی و فکری طورپراپاہج نہیں ہے اوراس کے اندر اپنے قائدین کی پرستش کی بجاے پُرسش کا رجحان پیدا ہورہاہے۔حادثات اور سانحات اس نسل کوبذاتِ خودسوچنے اورغوروفکرکرنے پر ابھاررہے اورحقیقت میں اُنھوں نے ایسا کرنا شروع بھی کردیاہے،سوپولنگ سے ٹھیک دودن یاایک دن پہلے کی جانے اخباری اپیلوں والی سیاست اِس نسل کے ذہن و دماغ و دل کو ہرگزبھی نہیں اپیل کرسکتی،جس کی ایک مثال ابھی دہلی میں دیکھی گئی اورمزید مثالیں آنے والے انتخابات میں بھی دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں۔
جواب دیں