داعش کی درندگی پر شدید ردّ عمل

سفاکیت ، بے رحمی، ظلم و زیادتی، زندہ جلانا، خودکش حملے یہ سب مغائر اسلام ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی عظمتِ رفتہ کو نقصان پہنچانے والے خود نیست و نابود گئے ۔ اسلام کے نام پر غیر اسلامی افعال کے مرتکبین چاہیں وہ نام نہادمسلمان ہوں یا اسلام دشمن عناصر کسی بھی صورت میں ان کی بے رحمانہ، ظالمانہ سرگرمیوں کو معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ اور لوگ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر دہشت گردی کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر شہرت پارہے ہیں ان کی حقیقت ایک نہ ایک دن منظر عام پر آکر رہے گی۔داعش نے اردنی پائلٹ معاذ الکسبا کو زندہ جلاکر اسلامی تشخص کو فراموش کردیا اور اپنی ظالمانہ کارروائی کے ذریعہ عالمی سطح پر یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ مخالفین کو کسی بھی قسم کی وحشیانہ اذیتیں دے کر ہلاک کرسکتے ہیں۔ اردن کے پائلٹ کو پنجرہ میں قید کرکے جس طرح جلانے کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سفاک اور بے رحم داعش کے دہشت گرداپنی مجرمانہ سرگرمیوں میں کس حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر یہ داعش کا تعلق واقعی اسلام اور مسلمانوں سے ہے تو پھر اس کے خلیفہ اور جنگجو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔ پیارے نبی کریم ﷺ نے جس طرح فاتح مکہ کی حیثیت سے حق و انصاف کے اعلیٰ و ارفع ترین مرتبہ کی تعلیم دی ہے شاید یہ دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے خلیفہ ابو بکر بغدادی اور وحشیانہ کاررائیاں انجام دینے والے دہشت گرد نہیں جانتے۔ بے شک عراق، افغانستان، پاکستان میں اسلام دشمن حکمرانوں نے ایک طویل جنگ کے ذریعہ اسلام کی عظمت کو پامال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس میں انہیں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ 
عراق پر امریکہ نے جس طرح جھوٹے الزامات کے تحت حملے کرکے تباہ و بربادی پھیلائی اور ہزاروں مسلمانوں کو ناجائز طریقہ سے ہلاک کیااسے کوئی عالمی طاقت دہشت گردی قرار نہیں دیتی۔ عراق پر امریکی اور اسکے اتحادیوں کا حملہ اصل میں عالمِ اسلام پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے گرفت کو مضبوط کرنا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کے لئے جس سیڑھی کا انتخاب کیا گیا اُسے حاصل کرنے کی کوشش اس طرح انجام دی گئی کہعالم اسلام کے حکمراں سمجھنے کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر رہے۔ عراق اور مشرقِ وسطی میں داخلہ کے لئے افغانستان اور پاکستان کا انتخاب عمل میں لایا گیاورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے ذمہ دار اسامہ بن لا دین کو گردانا گیا اور ان کی میزبانی کرنے والے افغانی طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو افواج نے خطرناک کارروائی کرتے ہوئے ملامحمد عمر کی طالبانی حکومت کا خاتمہ کردیا اور پھر یہیں سے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی کامیابیوں کا جشن مناتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ مسلم حکمراں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اپنی بقاء اور مفاد کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جی حضور ی میں پیش پیش رہے جس کی وجہ سے آج مشرقِ وسطی ٰ کی صورتحال اتنی دھماکو بن چکی ہے کہ خود سوپر پاور امریکہ کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ دولت اسلامیہ عراق و شام کاخاتمہ اتنی آسانی سے نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لئے کافی طویل عرصہ درکار ہے۔ دولت اسلامیہ عراق و شام کے تعلق سے عالمی سطح پر یہ خبریں بھی عام کی گئیں ہے کہ یہ تنظیم معاشی اور طاقت کے اعتبار سے عالمی سطح پر سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ داعش کا وجود کیوں کر عمل میں آیا یہ بات سب ہی جانتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان سے ہٹ کر داعش اپنی صفوں میں ایسے جنگجوؤں کو بھرتی کررہی ہے جو شدت پسند مسلمان ہیں۔ امریکہ اور مغربی و یوروپی ممالک کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان، عراق، پاکستان پر ڈرون حملے جاری ہے اور بتایا یہ جاتا ہے کہ طالبان کو ہلاک کرنے کے لئے یہ سب کچھ کئے جارہے ہیں جبکہ ان حملوں میں کئی بے گناہ معصوم افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف عالمی سطح پر بعض مسلم نوجوانو ں کے دلوں میں نفرت اور غصہ پایا جاتا ہے جس کا فائدہ اٹھاکر طالبان، القاعدہ ، داعش جیسی تنظیمیں مسلمانوں کو مجتمع کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ ان شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونے والے بے شک ہزاروں مسلم نوجوان ہونگے جن کے دلوں میں اپنے شہداء مسلم بھائیوں ، بہنوں اور ماؤں اور بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انکی ہلاکتوں کا غم ہے اور وہ اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان، داعش اور دوسری بعض جہادی تنظیمیں جس طرح آپس میں مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اس کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کی رائے بھی ان نام نہاد جہادی تنظیموں و جماعتوں کے خلاف ہورہی ہے۔ پشاور آرمی پبلک اسکول کا سانحہ کے بعد پاکستانی طالبان کے خلاف ہر سطح سے غصہ کا اظہار کیا گیا۔ ایک طرف امریکہ، مغربی و یوروپی طاقتوں کی جانب سے مسلم ممالک پر وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعہ دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب طالبان، القاعدہ، داعش وغیرہ کی جانب سے جہاد کے نام پر اسلام مخالف کاررائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ان کاررائیوں کی وجہ بھی امریکہ اور مغربی و یوروپی طاقتوں کی مکارانہ چال ہے جو اپنے مفاد اور اپنی اجارہ داری و مضبوط گرفت کے لئے مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔ 
عراق، افغانستان اورپاکستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اپنی فوج اور فضائی حملوں کے ذریعہ بے انتہاء ظالمانہ اور بے رحمانہ کارروائیاں انجام دیں ہیں اور مستقبل میں بھی اسی طرح عرصہ دراز تک جاری رہنے کے امکانات ہے۔ ایک طرف القاعدہ، طالبان کو ختم کرنے کا بہانا بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب ہر روزعام مسلمانوں کی نسل کشی کیجارہی ہے۔مسلمانوں کی معیشت کو اس قدر شدید ضرب لگائی گئی کہ آج بھی عراق سنبھلنے نہ پایا۔ پڑوسی ملک شام میں بھی صدر بشارالاسد کی فوج اور اپوزیشن کے درمیان جنگ کے باعث کم و بیش تین لاکھ مسلمان بشمول معصوم بچے، خواتین و ضعیف حضرات بے قصور ہلاک کئے گئے۔ عراق اور افغانستان میں آج بھی خودکش حملے، فائرنگ، بم دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کے بعد شام میں النصرہ اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی کہ درمیان میں ایک اسلامی اسٹیٹ کے قیام کا اعلان کرنے والی دولت اسلامیہ عراق و شام جسے عالمی سطح پر منظم، معاشی اعتبار سے مستحکم اور طاقتور کے طور پر پیش کیا گیا۔یہی نہیں بلکہ ہر روز اس کی ظالمانہ سرگرمیوں کو منظرِ عام پر لاکرعالمی سطح پر خوف و ہراس بٹھایا جارہا ہے۔ اس کے خلاف لڑنے کی ہمت کرنے والوں کاک عبرتناک انجام بتایا جارہا ہے۔ داعش کا خلیفہ ابو بکر البغدادی ہے جس نے شام اور عراق کے سرحدی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد خلافتِ اسلامیہ کا اعلان کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند افراد کو خطرناک سزائیں دے کر بین الاقوامی سطح پر شہرت پالی۔ داعش کیا بتانا چاہتی ہے اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کی مختلف رائے ہے۔ کسی کا کہنا ہیکہ داعش حقیقت میں اسلامی گروپ ہے جو کسی صورت اسلام دشمن عناصر کو معاف کرنا نہیں چاہتی اور جو اس کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں انکے ذہنوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے ایسی خوفناک سزائیں دے کر ویڈیو جاری کررہی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ داعش اسلامی گروپ ہے لیکن اسے امریکہ اور دیگر مغربی ویوروپی ممالک کی تائید و حمایت اندرونی طور پر حاصل ہے اور وہ ایسی سرگرمیاں انجام دے کر ان ممالک کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ داعش اسلام دشمن عناصر پر مشتمل تنظیم ہے جو اسلام اور مسلمانو ں کو بدنام کرنے کے لئے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھی ہوئی ہیں۔ایک طرف داعش چند غیر ملکی افراد کو ذبح کرنے کی ویڈیو جاری کی ہے اور اردن کے پائلٹ کو زندہ جلایا ہے تو وہیں اس نے عقیدہ کی بنیاد پر ہزاروں مسلمانوں کو بھی ہلاک کرچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ داعش کا اصل سرغنہ کوئی اور ہو جس کے مقاصد بھی اسلام کی وحدانیت اور صداقت نہ ہوں لیکن مسلم نوجوانوں کو جن کے دلوں میں اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف لڑنے اور مرنے کا جذبہ ہو انہیں جمع کرکے دو طرفہ نسل کشی کی جارہی ہو۔ اور ایسا ممکن ہے اس لئے عالمِ اسلام خصوصاً سعودی عرب کے نئے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز جنہوں نے مملکت کے حکمراں بننے کے بعد اپنے پہلے کابینی اجلاس میں اسلام کی خدمت کرتے رہنے کا عہد کیا ہے اور اسلامی مسائل کے حل، بین الاقوامی امن کے قیام اور عالمی ترقی کے لئے کوششیں کرنے کا اعلان کیا ہے ان سے بھی مسلمانانِ عالم توقع کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں جتنا جلد ممکن ہوسکے قیام امن کے لئے پہل کرینگے۔ اردن کے پائلٹ کا زندہ جلایا جانا کسی بھی حیثیت سے قابل قبول نہیں ہے اور عالمی سطح پر مسلمان اس واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف کئی ممالک میں احتجاج بھی کیا گیا۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے