ناتواں کمزور گائے ملک کے جمہوری نظام پر بھاری؟

ابھی حال میں ہی نندوربار میں کرکٹ میچ کے دوران جو فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا تھااس میں بھی فسادات کلچر کی روایات کے ہی بموجب وہ برق گرتی ہے تو صرف مسلمانوں پر کی تفسیر ثابت ہونے پر ہم اس پر کسی قسم کا تبصرہ سے گریزکرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر با تدبیر شری گریش مہاجن کا حوالہ دینگے جنہوں نے نہایت چابکدستی کے مظاہرے کے ذریعہ اس فساد کی ماحول سازی کے اصل ذمہ دار وشو ہندو‘ بجرنگ دل و دیگر ہندتوا تنظیموں کی مہم جوئی کو حق بجانب قرارا دیتے ہوئے اس فساد کو بر وقت کنٹرول نہ کرنے کے لئے کچھ حد تک پولیس انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیا۔ وشو ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل ذبیحہ گاؤاور کھلے عام گوشت کی کی فروختگی پر معترض تھیں۔وہاں کے اس کشیدہ حالات کے دوران کرکٹ میچ نے گرگٹ میچ کا کام کیا۔
عرصہ درازسے وشو ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل اور اس قبیل کی دیگر تنظیمیں ہر سال بقر عید سے کچھ دن قبل Animal husbandry Actکا سہارا لے کر گائے اور بیل کے تحفظ کے نام پر جو سرگرمیاں انجام دیتی آرہی ہیں ان کے اس فعل سے انتظامیہ وحکومت بخوبی واقف ہونے کے با وجود ہر دو کے دلوں میں ان نام نہاد گؤ بھکتوں کے تئیں نرم گوشہ اور مسلمانوں کے تعلق سے نفرت و کدورت کا مظاہرہ ایک عام سی بات ہے۔کچھ ماہ قبل اورنگ آباد ممبئی روڈ پر واقع ویجا پور کے موضع شیور کے قریب الانا کمپنی کی جانب سے اکسپورٹ کئے جانے والے گوشت سے بھرے ٹرک اور شکر کی پالش کے لئے استعمال کی جانے والی ہڈیوں کے ٹرکس کو اطراف کے دیہاتیوں نے نذر آتش کردیا تھا۔یہاں یہ نکتہ تحقیق طلب ہے کہ ان سادہ لوح دیہاتیوں کو اس اقدام کے لئے کسی نہ کسی نے ضروران احتجاجیوں کی ذہن سازی کی ہوگی۔جس کے نتیجہ میں وہاں اتنے لوگوں کا اکٹھا ہو کر ٹرک ڈرائیور کو ذد و کوب کرنے کے بعد اس ٹرک کو نذر آتش کرنے کے سلسلے میں پولیس اگر سنجیدگی سے کوشش کرتی تب ان دیہاتیوں کو اکسانے والوں کا اسے پتہ چلانا اتنا مشکل کام نہ تھا؟
حالیہ کچھ عرصہ سے علاقہ مرہٹواڑہ کے اضلاع اورنگ آباد جالنہ ۔بیڑ میں جانوروں کے لئے مخصوص بازاروں سے کچھ فاصلے پراطراف کے دیہاتی جانوروں کے ٹرکس روک کر ان ٹرکس میں سواربیوپاریوں کو بے تحاشہ زد و کوب کرنے کے بعد ان ٹرکوں میں سوار جانوروں کو ہتھیا کرکچھ دن بعد انہیں پھر اسی بازار میں فروخت کرنے کے واقعات کا مسلسل اعادہ ‘ قریش برادری کی پولیں اور انتظامیہ میں شکایت ‘ جانوروں کی خرید کے داخلوں کا حوالہ دینے کے باوجود پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے چشم پوشی کے مظاہرہ اور عدم کارکردگی پر ریاست بھر میں جمیعتہ القریش کے ذمہ داروں نے آپسی مشاورت کے بعد ریاست بھر میں جانوروں کی خریداری اور گوشت کی فروخت پرغیر معینہ ہڑتال کا فیصلہ تنگ آمد بجنگ آمد کی تصویر کہلائیگی۔قریش برادری ہڑتال کے سلسلے میں ثابت قدم رہنے پر اس کا منفی رد عمل دوا ساز کمپنیوں‘ جوتے اور شکر کی صنعت اور ان مویشیوں کے مالکین کو جس انداز میں بھگتنا پڑے گا اور وہ خود ان گؤ بھکتوں کے حق میں جو بددعائیں دیں گے وہ بڑا دلچسپ مرحلہ ثابت ہوگا۔
حسن اتفاق سے گوشت کے کاروبار انجام دینے والی قریش برادری کی قومی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک تنظیمی نیٹ ورک موجود رہنے کے باوجود اس نیٹ ورک کی جانب سے اگرباضابطگی سے اپنے تشنہ مسائل اور درپیش مشکلات سے انتظامیہ اور حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے ایک مخصوص مدت تک ان مسائل کی عدم یکسوئی کی صورت میں ہڑتال شروع کرنے کا جواز مناسب رہتا ۔اطلاعات کے بموجب جمیعت القریش ممبئی کے بعض عہدیداروں نے ہنگامی طورپر رات دو بجے آپسی مشاورت کے بعد ہڑتال کو جو فیصلہ کیا تھا۔حکومت کو اس سے واقف کروانا انہوں نے کیوں ضروری نہیں سمجھا؟اس کے بعد مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں ان کے اپنے اپنے دائرہ کا ر میں منعقدہ میٹنگوں میں عدم تحفظ کے مسئلہ پرجانوروں کی خریداری بند کرنے اور اس مسئلہ پر پولس اور انتظامیہ کی جانب سے غیر واضح اقدامات کی مذمت میں ہڑتال کے یک طرفہ فیصلہ کی اطلاعات ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ قریش برادری کے بعض پرجوش و عجلت پسند حضرات اس ہڑتال کی برخواستگی اور پھر سے کاروبار شروع کرنے کے موڈ میں ہیں جو ان کے لیے فائدہ بخش ہوگا کہ نہ ان کے گاہکوں کے لیے یہ امر اطمینان بخش ثابت ہو پائے گا۔واضح ہوکہ ۱۹۹۵ء ؁ تا ۲۰۰۴ء ؁ کے درمیان جب مہاراشٹر میں شیو سینا بی جے پی کی اتحادی حکومت تشکیل دی گئی تھی اس وقت امتناعی گؤ کشی کی قرار داد اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منظور کروانے کے بعد اس حکومت نے قرار دادکی منظوری کے لیے اسے صدر جمہوریہ کے پاس بھجوایا تھا۔فی الحال مہاراشٹر لیجسلیٹیو کونسل میں حلقہ ٹیچرس کی نمائندگی کرنے والے کپل پاٹل ایم ایل سی اس زمانے میں جنتا دل سے وابستہ تھے۔انہوں نے منترالیہ میں اقلیتی ملازمین کی تنظیم کی جنرل سیکریٹری تھانے والا و جمیعت القریش ممبئی کے عہدیداروں کے ہمراہ راست صدر جمہوریہ سے نمائندگی کے ذریعہ ا سمبلی میں منظور شدہ اس قرار داد کو کالعدم قرار دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں آر ایس ایس ‘ وشو ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل اور اس قبیل کی دیگر تنظیموں نے اس کی ہم خیال بھارتیہ جنتا پارٹی کی امکانی کامیابی کے لئے جس سرگرمی سے ماحول سازی کی تھی انہیں بی جے پی کے روپ میں جو بھاری کامیابی ملی اس سے ان تنظیموں کے حوصلوں اور عزائم میں اضافہ فطری کہلانے کا مستحق ہے۔ نریندر مودی کی سربراہی میں عالم وجود میں آنے والی حکومت کے ذمہ داروں نے ملک کے آئین کے بنیادی تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی جس طرح ہمت افزائی کی اسمیں ذبیحہ گاؤ پر امتناع کا موضوع بھی شامل ہے جو رام مندر کی تعمیر کے بعد ان کا یہ چیلینج بھرایہ دوسرا سلگتا موضوع ثابت ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی حکومت اپنے نظریہ ساز آر ایس ایس کے پر جوش ورکرس کو پر سکون کرنے کے لیے کون سے اقدامات کر سکتی ہے۔
وشو ہندو پریشد کی ترغیب پر ذبیحہ گاؤ کے امتناع کے پس منظر میں جھانک کر دیکھیں تب مہاراشٹر‘ گجرات‘ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ ‘گوا‘ راجھستان ‘ ہریانہ‘ جھارکھنڈ کے علاوہ خود مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے با وجودمرکزی حکومت یا کسی بھی ریاست نے گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ کی مخالفت نہیں کی۔اطلاعات کے بموجب گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ کا کاروبار کا سالانہ اوسط دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے جس سے مرکزی حکومت کو سترہ ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں مرکزی وزارت تجارت اور وزارت ٹرانسپورٹ کی جانب سے مذکورہ گوشت اکسپورٹرس سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کی گئی ہے۔
وشو ہندو پریشد و دیگر تنظینوں کے جارحانہ تیور کے پس منظر میں مودی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تب یہ ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کے مقابلے میں گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ میں اس حکومت کے دور میں دگنا اضافہ ہوا ہے ۔2013-14کے درمیان 27163.1کروڑ روپیوں کا ایکسپورٹ عمل میں آیا تھا ۔جبکہ مودی بر سر اقتدار آنے کے بعد اپریل تا ستمبر کے چھ ماہ کے دوران 13945-34کروڑ روپیوں کا کاروبار انجام دیا گیا۔مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے اپنے حلقہ انتخاب ناگپور میں جمیعتہ القریش کے پروگرام میں بحیثیت مہمانانِ خصوصی گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ کی راہ میں آنے والی دشواریوں پر قابو پانے نیز قریش برادری کو ان کے آبائی کاروبار میں ہر قسم کے تعاون کی بھی طمانیت دی تھی؟
گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ کی اجازت اور دیگر مرحلوں کی راست ذمہ داری مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں رہنے کے تناظر میں وزیر اعلیٰ مہاراشٹر دیوندر فر نویس نے حال ہی میں اپنے دورہ کولہا پور کے موقعہ پر ایک گؤشالہ میں جاکر گائے کی پوجا کرتے ہوئے اس کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی تھی۔مہاراشٹر کے وزیر اقلیتی امور و محصول شری ایکناتھ کھڑسے نے ایک پروگرام کے دوران اس بات کا تیقن دیا کہ سلاٹر ہاؤس جانے والے مویشیوں کے تحفظ کے لیے ’’گوکل دھام‘‘ قائم کیے جائیں گے ۔ہر گائے کے ماہانہ اخراجات کا جائزہ لے کران گؤ شالاؤں کو مرکز اور ریاست کی جانب سے امداد کے علاوہ گؤ شالہ قائم کرنے کے خواہش مند اداروں کو اس کے لیے ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے جگہ فراہم بھی کئے جانے کا کھڑسے نے ذکر کرتے ہوئے اجتماعی طور پر جانوروں کو سلاٹر ہاؤس روانہ کرنے سے قبل حیوانات کے ڈاکٹر سے سرٹیفکیٹ کے لزوم کو انہوں نے ضروری قرار دیا تھا۔
وشو ہند پریشد ‘بجرنگ دل جیسی تنظیمیں گاؤ کشی پر پابندی کے لیے بضد ہیں ۔پارلیمنٹ میں بی جے پی کو جس طرح واضح اکثریت حاصل ہے ۔اس مسئلہ پر فیصلہ کی گیند اب بی جے پی کے پالے میں ہے ۔اس سلسلہ میں وزیر اعظم کو بارک اوباما کی رضامندی کی ضرورت نہیں ۔اس مسئلہ پر وزیر اعظم ڈاکٹر موہن بھاگوت کی آراء جان سکتے ہیں پلاننگ کمیشن کے نام کرن کے بعد اسے نیتی آیوگ کردیا گیا ہے۔حال ہی میں وزیر اعظم نے اس کی میٹنگ لی تھی۔نیتی آیوگ کے اراکین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم کو صحیح فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ کیا ملک کو سالانہ دو لاکھ کڑوڑ کا ٹرن اوور کی قربانی دے کر ملک بھر کے چٹکی بھر حضرات کی ’’آستھا ‘‘کا احترام کیا جائے ؟گر پارلیمنٹ میں امتناع گؤ کشی کا بل منظور ہوتا ہے تب ہم اس فیصلہ کا خیر مقدم اور احترام کریں گے ۔اب رہا بقر عید کے موقع پر انجام دینے والی قربانی کا تب اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت نہیں قربانی انجام دینے والے کی نیت عزیز ہوتی ہے ۔مسلمانوں کی یہ مجبوری ہے کہ یہ گوشت سستا ہونے کی وجہ سے وہ اسے ترجیح دیتا ہے ۔اس گوشت کا استعمال ’’گھر واپسی ‘‘ کے ٹارگیٹ کے دوسرے فرقوں میں بھی مقبول ہے۔اس فیصلہ سے ترکاری والوں کے بھاؤ ضرور اثر انداز ہوں گے۔گرانی پر روک یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ہندوستان کا ہر شہری حکومت کی مہربانیوں کے طفیل گرانی بھگتنے کا عادی سا ہوچکا ہے۔سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔۔۔مگر یار کو اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا کہ اندھا اپنے آدمیوں کو ریوڑیاں بانٹنے کا معاملہ کبھی نہ کبھی تو آنکھ والوں کی نظروں کے سامنے ایک نہ ایک دن ضرور آنے پر اندھے کو جو شرمندگی ہوگی اس کا کیا؟۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے