انسانیت کا لباس: شرم و حیا

محسن انسانیت ﷺنے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم وحیا‘‘ہے ۔ایک بار محسن انسانیت ﷺ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتارہ‘‘۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جوواحد سبب ہے وہ شرم و حیاہے اور جب کسی میں شرم کافقدان ہو جائے اور حیاباقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتاہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے ،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ’’ جب اﷲتعالی کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے‘‘۔
ایک طویل حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعودؓروایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ اﷲ تعالی سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے،لوگوں نے عرض کیاکہ الحمدﷲہم اﷲتعالی سے حیاکرتے ہیں،محسن انسانیت ﷺنے فرمایا نہیں،حیاکامفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اﷲتعالی سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سراورسر میں جو افکاروخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے اس سب کی نگرانی کرو،اور موت کواورموت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اﷲتعالی سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا‘‘۔اس حدیث مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام امور میں حیاکادرس دیا گیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ حیاکی سب سے زیادہ حق دار اﷲ تعالی کی ذات ہے ،اور چونکہ اﷲ تعالی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اﷲ تعالی سے حیاکی جائے اور اﷲتعالی سے حیاکا مطلب اﷲ تعالی کاتقوی اختیارکیاجائے اور جلوت ہو یا خلوت برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقوی ہے۔حضرت ابن حیدہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو)سوائے اپنی بیوی اور باندی کے ،میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺکیا تنہائی میں بھی؟؟(شرم گاہ نہ کھولی جائے)محسن انسانیت ﷺنے جواباََارشاد فرمایا اﷲ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔
حضرت ابو سعید خذریؓ بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔اسی لیے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیاکرتے تھے،برائی کابدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ ﷺکوبرہنہ نہ دیکھاتھا۔محسن انسانیت ﷺکے بچپن کے اوائل عمری میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑاسا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش گئے تب پانی کے چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا۔چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی)ستر میں شامل ہے‘‘۔حضرت علی کرم اﷲوجہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’اے علی اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یامردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو‘‘۔حضرت ابوسعید خزری فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکاارشاد مبارک ہے کہ ’’مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نگاہ نہ کرے‘‘۔ عبداﷲبن عمر سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی)برہنگی سے پرہیز کرو(یعنی ستر نہ کھولو)کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے لہذاان کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو‘‘۔چنانچہ فقہا لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفہ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگاہو کر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے پس دوران غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکاہونا ضروری ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’عورت گویا ستر (چھپی ہوئی)ہے ،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں‘‘۔حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول ﷺ پہنچاہے کہ ’’اﷲ تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھاجائے‘‘۔چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیاگیاتومحسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’ادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو‘‘۔حضرت بریدہؓفرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے حضرت علی کرم اﷲ وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یا’’اے علیؓ؛(اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو)دوبارہ نظر نہ کرو،تمہارے لیے(بلاارادہ) پہلی نظر توجائز ہے مگردوسری نظر جائز نہیں‘‘ ۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچانک نظر کی گنجائش ہے لیکن’’ نظارہ ‘‘کی کوئی گنجائش نہیں۔حضرت ابو امامہؓ نے رویات کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اﷲ تعالی اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی‘‘۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم )آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو‘‘۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’تم (نامحرم)عورتوں کے پاس جانے سے بچو(اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)‘‘۔حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ’’تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فریا’’آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف)دیکھنا ہے،کانوں کا زنا (حرام آوازکا)سنناہے،زبان کا زنا(ناجائز)کلام کرنا ہے ،ہاتھ کا زنا (ناجائز)پکڑنا ہے اور پیرکا زنا(حرام کی طرف)چل کرجانا ہے اور دل خواہش کرتاہے اور آرزوکرتاہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے‘‘۔حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسن انسانیت ﷺکے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ’’تم (دونوں)ان سے پردہ کرو‘‘،ہم نے عرض کی یارسول اﷲﷺکیا وہ تو نابینا نہیں ہیں؟؟پس محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’کیا تم (دونوں)بھی نابینا ہو؟؟کیا تم (دونوں)انہیں نہیں دیکھتیں؟؟‘‘۔حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے فریایاکہ محسن انسانیت ﷺنے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے،اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہؓ نے بھی یوں بیان کیا کہ ’’محسن انسانیت ﷺنے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کاسا ؛باس پہنتاہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کاسا لباس پہنتی ہے۔
گزشتہ اقوام کی تبای ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔اﷲتعالی کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں،ان کی حرکات و سکنات ،اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے ،تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹہرے۔آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے توتباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوس نفس کی ماری پر کشش اورفریب زدہ سیکولرتہذیب میں داخل ہو گاوہ ان الانسان لفی خسر کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قوم لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاََابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں،اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء علیھم السلام کا طریقہ حیات موجود ہے جسے بسہولت حیات حیاداری کا نام دیا جاسکتاہے،کہ اس دنیامیں انسانوں سے حیا اور روز محشراﷲ تعالی بزرگ و برترکے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے