مسلکی تعصبات اور اعتدالی راہ(پہلی قسط)

فرقہ وارانہ اختلاف نے میدان کارزار گرم کردیئے ہیں، اورہندوستان کی سرزمین پر اگر چہ مسلک ولی اللّٰہی سے تعلق رکھنے والے حضرات ہمیشہ مسلکی توسع اور رواداری کی ترجمانی کرتے رہے، لیکن اس کے باوجود وقتاً فوقتاًاختلافات میں کسی نہ کسی حلقے کی طرف سے شدت پیدا کردی جاتی ہے، ان حالات میں مسالک کے درمیان جمع وتطبیق کی کوشش کرنا، اورفکر ولی اللّٰہی کو اپنے لئے رہنما بنانا بہت ضروری ہے،اختلافِ رائے کے باوجود ہمارے درمیان اتحاد برقرار رہ سکتا ہے،یہ ہنر سیکھنا چاہئے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں جماعتی، تنظیمی، اداری اختلافات کی بنیاد پر ہمارے دلوں میں عداوت پیدانہیں ہونی چاہئے ۔
اختلافِ رائے اور اس کی حد
مجتہدینِ امت اور علمائے ملت فقہی اور کلامی اختلافات کو زحمت نہیں بلکہ رحمت کے طورپر پیش کرتے رہے ہیں ’’ اِخْتِلاَفُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘ والی حدیث پراگرچہ کلام ہے ، وہ فنی طور پرصحیح درجے کی حدیث نہیں ہے ،اور بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جوسند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہیں لیکن ان کا متن صحیح ہے اور دیگر روایات سے مدلل ہے، کسی بھی حدیث پر حکم لگانے کیلئے محض سند کا مطالعہ کافی نہیں ہے، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جومتن سند ضعیف کے ساتھ نقل کیاگیا ہے، اس کی تائید قرآن پاک کی آیات سے، دیگر احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، صحابۂ کرام کے تعامل سے اور مابعد کے علمائے کرام کے اتفاق سے کس درجے میں ہوتی ہے؟ بہت سے ایسے حقائق ہیں جن پر سند کی وجہ سے اشکال پیدا کردیا گیا ہے ،لیکن ان کا مضمون قرآن وحدیث اور علمائے امت کے تعامل سے ثابت ہے۔ ’’ اِخْتِلاَفُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘ والا مضمون بھی اسی نوعیت کاہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن پاک کی آیات سے ، احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کے تعامل سے تائید ہوتی ہے، اور اس کا بھرپور ثبوت ملتا ہے ۔
اختلافِ رائے کی دوقسمیں ہوتی ہیں: ایک اختلاف مذموم اورایک اختلاف محمود۔ اختلاف مذموم: وہ ہے جس کی بنیاد کتاب وسنت نہ ہو محض کسی کی رائے ہو، یا اجتہاد وقیاس میں حدود سے تجاوز کیا گیا ہو،اور بدون دلائل کے کسی مسئلہ کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہو ، ظاہر ہے کہ یہ رائے اس لئے مذموم ہے کہ کتاب وسنت کے خلاف ہے،لیکن اگر اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہو اور دلائل پیش کرنے والا وہ ہو جس کو استدلال اور استنباط کا حق حاصل ہوتو اس کی تحقیقی کوشش محمود ہے، ہاں ہر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے، جس طرح کورٹ میں وکیل کو ہی پیش ہونے کا حق ہے اور جس طرح کرسئ جج پر جج ہی بیٹھ سکتا ہے، اور جیسے بیماری میں کسی ڈاکٹر سے ہی رجوع کیا جاتا ہے، محض طبی نسخوں کی کتاب پڑھنے والے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ علاج ومعالجہ شروع کردے ،اورقانون کی کتاب کے مطالعہ سے کوئی جج نہیں بن جاتا، اس کو نہ قانو نی حق حاصل ہوتا ہے اور نہ علمی دنیا میں اس کو تسلیم کیا جاتا ہے،اسی طرح فقہی اجتہاد واستنباط کا مسئلہ ہے ۔
قرآن پاک اور حدیث کے اپنے طور پر مطالعہ سے اجتہاد کا حق حاصل نہیں ہوجاتا ہے، کسی نے قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا ہو، حدیث کی کوئی کتاب دیکھ لی ہو، مثلاً صحیح بخاری کا ترجمہ دیکھ لیا ، تو اسے یہ درجہ حاصل نہیں ہوتا ہے کہ وہ اجتہاد شروع کردے، فیصلہ صادر کرنے لگے ،اپنی رائے پیش کرنا شروع کردے ، آج کل عام طور پر طلباء اور مدرسین بھی فقہی اعتبار سے ’’عامی ‘‘کے درجے میں ہی ہیں، فقہائے کرام نے مجتہد مطلق سے لے کر عامی تک جوطبقات اور مراتب ذکر کئے ہیں، ان کے اعتبار سے مدرسین کا درجہ بھی ایک عامی سے کچھ زیادہ بلند نہیں ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کاکارنامہ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی شخصیت کاجہاں تک تعلق ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں علومِ اسلامیہ کے مجدد تھے، حضرت مجدد سرہندیؒ نے حکومتی ارتداد کا مقابلہ کیا، اور جھوٹے دین الٰہی کے مقابلہ میں اسلام کی نصرت ودفاع میں کامیابی حاصل کی، ان کی ایمانی اور روحانی توجہ ، اصلاح اور تربیت کے ذریعہ ایسی تبدیلی وجود میں آئی کہ اکبر کا ارتداد دورِ جہانگیر ی میں کمزور پڑگیا،اور دورِ شاہ جہانی میں وہ ماضی کا ایک حصہ بن گیا، اور بتدریج ہندوستان مجددی کوششوں سے گہوارۂ اسلام بن گیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ؒ چودہ سال کی عمر میں نصابیات سے فارغ ہوگئے تھے، اس کے بعد انہوں نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا، وہ دور عام طور پر ہندوستان میں سخت جمود کا تھا،مسلکی تعصب میں بڑی شدت تھی ، حنفیت اور شافعیت کی فقہی اور کتابی جنگ تو تھی ہی، اس کے علاوہ بنیادی مآخذ سے رابطہ بھی کمزور پڑگیاتھا، صورتِ حال یہ تھی کہ قرآن پاک سے یا حدیثِ نبوی سے اگر براہِ راست کوئی دلیل دی جاتی تو بعض لوگ دھڑلَّے سے کہہ دیتے کہ ہمیں تو امام ابو حنیفہ کا قول چاہئے ،ہمیں حدیث نہیں چاہئے، شاید وہ ان علماء کی ہدایت کی بنیاد پر کہتے ہوں گے جنہوں نے ان کو سمجھارکھا تھا کہ کسی کو اجتہاد کاحق حاصل نہیں ہے، اور آپ براہِ راست حدیث سے استدلال نہیں کرسکتے، علم کلام میں ما تریدی اور اشعری نقطۂ نظر کے درمیان بھی جنگ وجدل کی فضاتھی اور کوئی اصلاحی تحریک کام نہیں کررہی تھی، تصوف کے مختلف حلقوں میں بھی خلیج بڑھتی جارہی تھی، ’’وَحْدَۃُ الْوُجُوْد‘‘ اور ’’وَحْدَۃُ الشُّہُوْد‘‘ معرکۃ الاراء مسئلے بنے ہوئے تھے،ایسے ماحول میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے قلم اٹھایا اور ’’ البدورالبازغۃ‘‘ تصنیف فرمائی، جو ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کا نقشِ اول ہے، اور ’’تفہیمات‘‘ میں جوا ن کا ایک کشکول اور ان کی ایک علمی ڈائری ہے، اس صورتِ حال پر تبصرے کئے، بلکہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ، معاشرے کی نباضی کی، امراض کی نشاندہی فرمائی، اس میں انہوں نے کبھی صوفیہ کو خطاب کیا ،کبھی علماء کو،کبھی وزراء وامراء کو ،کبھی فوج کے جنرلوں کو ،کبھی فوجیوں اور سپاہیوں کو اورکبھی عوام کو، ہرطبقہ کی کمزوری کی نشاندہی فرمائی ۔ ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں ابن الجوزی نے جو طرز اختیار کیا ہے اسی سے ملتا جلتا طرز حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے’’ تفہیمات‘‘ میں اختیار کیا۔(جاری ہے)

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے