مودی صاحب نے انتخابی مہم کے دوران کیجریوال کو کیا کچھ نہیں کہا؟ ان کے الفاظ کو دوہرانا بھی غیر شریفانہ ہے۔ لیکن پارٹی کی لٹیا ڈوبتے ہی وہ کیجریوال کو گلے لگانے کیلئے بیتاب نظرآئے۔ حالانکہ انتخابی جلسوں میں وہ خود اوران کے پیدل کیجریوال پر کیچڑ اچھالتے رہے اورنتائج کے اعلان تک اپنی فتح مبین کے امکانات گنواتے رہے تھے۔ اس پرایک صاحب نے کہا:
ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی
مختارعباس نقوی نے شعر پڑھا:
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
یہ شہسواری تو بھاجپا کو ہی مبارک ہو اور آئندہ بھی ان کو یہ شعردوہرانے کاموقع رائے دہندگان دیتے رہیں، تاہم ایک صاحب نے اس صورتحال پر یہ قطعہ ارسال فرمایا:
دیکھو تو ایک پہاڑ سے ریزہ الجھ گیا
جوش جنون میں شیر سے مچھر الجھ گیا
ہمت تو دیکھو آپ کی اس انتخاب میں
لاکھوں کے سوٹ بوٹ سے مفلر الجھ گیا
کانگریس کے ترجمان میم افضل نے کانگریس کی تاریخی شکست پر ملال جتایا مگر ساتھ ہی بھاجپا کی شکست فاش پر چٹکی بھی لی۔ جس طرح اس نے جارحانہ انداز میں چناؤ لڑااورانتخابی مہم میں اسٹار پرچارک مودی سمیت بھاجپا لیڈروں نے شائستہ کلامی کو تیاگ دیا ، رام زادوں اورحرام زادوں کا نعرہ لگایا،لووجہاد کا فساد کھڑا کیا، گھرواپسی کی پکار لگائی، فرقہ ورانہ فساد کرائے، عیسائی عبادت گاہوں پر حملے کرائے، دوسروں پر کیچڑ اچھالی، وعدوں کا وہی مایا جال بچھایا جو لوک سبھا چناؤ میں آزمایا تھا، مگر کچھ بھی کام نہ آیا۔ رام رحیم کا ساتھ بھی راس نہیں آیا۔ یہاں تک کہ امریکا کے دورے اور صدراوبامہ کی آمد کو ووٹوں میں بھنانا چاہا۔ حیف ہرحربہ رائیگاں گیا۔ بقول میر:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
امت شاہ نے ہندستان بھر سے بھاجپا لیڈروں کوبلاکر چناؤمہم میں اتارا۔ ہرسیٹ پر ایک وزیر اور کئی ایم پی لگائے گئے تھے۔آرایس ایس نے بھی اپنے پرچارک اتارے۔ مقامی کارکن پس پردہ چلے گئے اور اجنبی گلی کوچوں میں بھٹکتے رہے۔مہم کی کمان ارن جیٹلی کو سونپی گئی جو خود مودی لہر کے باوجود اپنا لوک سبھا چناؤ ہارگئے تھے ۔ ان کے ہی مشورے پر کرن بیدی کولایا گیا۔ وہ پارٹی کی نیا تو کیا پارلگاتیں، خود بھی ہار گئیں اور اس سیٹ پر ہاریں جس پر 20برس سے بھاجپا کا قبضہ تھا۔ شاید اس لئے کہ ان کا تعلق اقلیتی فرقہ سے ہے، وہ صاف گوبھی ہیں۔ان کی ہار کاافسوس ہمیں بھی ہوا۔اس صورت حال پر ایک صاحب نے تبصرہ کیا:’ تقدیر بلوان، تدبیر ناکام‘۔ مگرشاید ایسا نہیں۔ تدبیر ہی غلط تھی۔ جو پودھا کل لگایا تھا اس پر آج پھل کہاں سے لگ جاتا؟
لیکن ان سب کے درمیان اہم سوال یہ ہے ستر رکنی اسمبلی میں ایسی اکثریت کہ اپوزیشن کا وجود ہی عملاً ختم ہوجائے، کیا جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے؟عام آدمی پارٹی کے67 کے مقابلے اپوزیشن کے 3ممبرکیا صحت مند جمہوریت کی علامت ہے؟ ہرگز نہیں۔( جمہوریت کے لئے check and balancesکا نظام ضروری ہوتا ، جس کا مطلب یہ ہے اقتداراوراختیار پر نظررکھی جائے اور غلط اقدام سے روکا جائے۔) جس طرح کے نتائج لوک سبھا میں مودی کے حق میںآئے تھے، اب اسی طرح کے دہلی اسمبلی میں کیجریوال کے حق میں آگئے۔ باخبرلوگ جانتے ہیں کہ لوک سبھا میں ان نتائج کا حکمرانی پر کیا اثرپڑرہا ہے اور کس طرح ایک فرد کی من مانی چل رہی ہے کابینہ وزیر بھی کلرک بن گئے ہیں۔ ان کا کام بتائی ہوئی جگہ پر دستخط کرنا رہ گیا ہے۔ اعلا ترین عہدوں پر فائز افسران کوتحقیر امیز طریقے سے برطرف کیا جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ دہلی سرکار اسمبلی میں موثراپوزیشن کے بغیر کس طرح کام کرتی ہے؟
یہ شکست کرن بیدی کی قیادت کی ہے یا یہ مودی لہر کا خاتمہ ہے یا امت شاہ کی تدبیروں کی ناکامی ہے یا پھرپوری پارٹی کی ہے؟ یہ سوال غیر اہم ہوجاتے ہیں جب ہم اس پہلو پر غورکرتے ہیں کہ ایک نئی پارٹی اور ناتجربہ کار لیڈر کے ہاتھوں میں اقتدارو اختیار کا ایسا ارتکازہوگیا ہے جو جمہوری نظام کے لئے کی روح کو متاثرکرسکتا ہے اور جس کے بطن سے آمریت کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، تو اسمبلی میں بھاجپا کی شکست اور آپ کی فتح اورلوک سبھا میں بھاجپا کی فتح اورکانگریس کی شکست کے معنے بدل جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسی بے تحاشا اکثریت کا تجربے پہلے بھی ہوئے اور ہمیشہ تلخ ہی ر ہے۔
ایک دوسرا پہلو بھی غورطلب ہے۔ پارلیمانی چناؤ میں بھاجپا کو 28.2فیصد ووٹ ملے لیکن 541کے ایوان میں اس کو 281سیٹیں مل گئیں۔ 72 فیصدرائے دہندگان کی آواز کیا ہوئی؟ان کے حصے میں آدھے سے بھی کم صرف 260سیٹ آئیں۔اب دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کو 54فیصد ووٹ ملا۔ مگر سیٹیں 70 میں سے 67آگئیں۔باقی 46فیصد کو صرف 3 سیٹ ملیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نومنتخب اسمبلی دہلی کے عوام کی نمائندہ اسمبلی ہے اوراس کی رائے کی عکاس ہوگی؟ یہی صورتحال لوک سبھا کا بھی ہے۔ منتخب ایوان عوام کی رائے کے عکاس اسی صورت ہوسکتے ہیں جب موجودہ انتخابی نظام کی جگہ متناسب نمائندگی کا نظام قائم ہو جو کئی ممالک میں رائج ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو دہلی میں 46.4فیصد ووٹ ملے تھے اور ساتوں سیٹیں ایک لاکھ سے زیادہ مارجن سے جیت لیں۔ باقی 53.6کو کوئی نمائندگی نہیں ملی۔ اس اسمبلی الیکشن میں اس کا ووٹ فیصد تقریباً 33 فیصد ہے۔ مگر اسمبلی کی کل تین سیٹیں ملی ہیں۔
کانگریس کوگزشتہ اسمبلی چناؤ میں 16فیصد ووٹ کے ساتھ 8سیٹیں ملیں۔ اس بار اس کاووٹ 8فیصد سے کچھ زیادہ ہے ،مگرایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ کانگریس سے عوام کی یہ بے رخی اس لئے نہیں اس کے دور میں دہلی میں کچھ ترقیاتی کام کچھ ہوئے ۔ جس پارٹی نے 15 سال سرکار چلائی اور دہلی کا رنگ روپ بدلا اس کی یہ بے قدری بیشک غیر منصفانہ ہی نہیں بڑی بے رحمانہ ہے۔ کانگریس سے پہلے دہلی میں آٹھ ، دس گھنٹے بجلی کاگل رہنا، وولٹیج کم زیادہ ہوتے رہنا، بسوں میں سفر کا انتہائی تکلیف دہ ہونا عام تھا۔ آج اس کونے سے اس سرے تک میٹرو دوڑتی ہے ۔ اے سی بسیں چلتی ہیں۔ عام آدمی آرام سے بسوں اورمیٹرو میں سفرکرتا ہے۔سڑکیں کشادہ ہوگئی ہیں۔ اتنے فلائی اوور بنے ہیں ریڈ لائن کم رہ گئی ہیں۔اس کے باوجودعوام کانگریس سے خفا ہوگئے اوراس ہوا میں بہہ گئے جو آرایس ایس کی شہ پر انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف لوک پال بل کے لئے بہائی تھی۔جس طرح عوام لوک سبھا چناؤ میں مودی کے سنہرے سپنوں کے ساتھ بہہ گئے تھے اسی طرح بہترمستقل کی آس میں اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہولئے ہیں۔ حتٰی کہ وہ امیدوار بھی ہارگئے جنہوں نے اپنے حلقوں میں خوب کام کرائے۔ عوام کا ہوا کے رخ پر یوں بہہ جانا اور حقائق کو نظرانداز کردینا ایسا واقعہ ہے جو عوامی نفسیات،سماجیات اور سیاسیات کے طلبا کو دعوت مطالعہ دیتا ہے۔ بیشک دہلی میں پانی کا مسئلہ ہے۔غیر مجاز کالونیوں کے قانونی حق کا مسئلہ ہے۔ جن کو حل کرنے میں سابقہ حکومتوں نے مجرمانہ تاخیر کی۔ بجلی کی شرحوں میں اضافہ سے عوام نالاں ہیں۔ لیکن یہ تو سب کو ہی تسلیم ہے کہ شیلا دیکشت کے دورحکومت میں چوطرفہ ریکارڈ ڈولپمنٹ ہوا۔ اس کے باوجود رائے دہندگان کی یہ بے رخی کیا کہتی ہے؟اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیجریوال کی سرکاران مسائل کو کس حد تک پورا کرپائے گی۔
عام آدمی پارٹی کی طرف عوام کا یہ غیرمعمولی رجحان بیشک طمانچہ ہے فرقہ ورانہ سیاست کرنے والوں کے رخ سیاہ پر۔ یہ جواب ہے ان بیہودگیوں کا جو بھاجپا کے لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران کیں۔ یہ جواب ہے اس منفی سیاست کا جس سے کانگریس بھی محفوظ نہیں رہی۔ لوک سبھا نتائج کے بعد کٹرفرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوئے۔ ان کو کہیں لوو جہاد نظرآتا ہے،ایک کے بدلے سولڑکیوں کو بھگالیجانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، کبھی ملک کی ترقی دیش کے ہندوکرن میں نظر آتی ہے اور کہیں 5-5 لاکھ میں لوگوں کا ایمان خریدنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ عوام نے اس طرح کی سیاست کو مسترد کردیا ہے۔ بیشک یہ خوش آئند پہلو ہے ۔لیکن کسی پارٹی کے طرف بے تحاشا رجحان ایک اورخطرے سے بھی خبرداری چاہتا ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جو حدامکان سے زیادہ توقعات باندھ لینے سے پیدا ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے اس کا دوبارہ مشاہدہ کیا ہے۔ اس سے قبل مودی کے غیر حقیقی وعدوں پر عوام نے بے تحاشا توقعات باندھ لیں۔ مگر ان کا سحر چند ماہ میں ہی ٹوٹنا شروع ہوگیا ۔ اب دہلی کے عوام نے عام آدمی پارٹی سے اس سے بھی بڑھ کر توقعات باندھ لی ہیں۔ اگررائے دہندگان نے حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا توقعات پوری نہ ہونے پر بددلی پیدا ہوگی ، غم اور غصہ پیدا ہوگا اور یہ کیفیت فرد اور معاشرہ دونوں کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔ صبر تحمل سے کام لیجئے اورنئی سرکار کو کام کرنے کا چند سال کا موقع دیجئے۔ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ مرکز اور ریاست کے درمیان وہ سرد جنگ نہ چھڑ جائے جس کا عندیہ بھاجپا لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران کھل کر دیا تھا۔ مودی صاحب نے اپنی تمام ترتلخ کلامیوں کے باوجود نتائج کا اندازہ ہوتے ہی، صبح سویرے اروند کیجریوال کو فون پر مبارکباد دی ۔ دہلی کے مسائل حل کرنے میں ہرطرح کے تعاون کا بھی یقین دلایا ہے اور چائے پر بھی بلایا ہے۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ مگر اس بات کو کیسے بھول جائیں کہ اپنی رسم حلف برداری میں انہوں نے نوازشریف کو بھی بلایا تھا اور بہت گرم جوشی دکھائی تھی۔دنیا نے اس کی تعریف بھی کی مگر بعد میں جو کچھ ہوا اس پر : ’اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان کی نیت ٹھیک نہیں‘ کا مکھڑا صادق آتا ہے ۔ ساتھ ہی خدا کی یہ قدرت بھی دیکھئے کہ مودی سرکار نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں ارون کیجریوال کو دعوت نامہ نہیں بھجوایا تھا جب کہ کرن بیدی کو اگلی صف میں بٹھایا تھا۔ حالانکہ سابق وزیراعلا کا یہ حق تھا کہ ان کو مدعو کیا جاتا۔ اب قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ کرن بیدی گھر بیٹھیں گی اوراروند کیجریوال وزیراعلا کی کرسی پر ۔ ذکر راہل بھیا بھی ہونا چاہئے۔چند روڈ شوانہوں نے بھی کئے۔ مگرانہوں نے اوران کی پارٹی نے زیادہ مشقت نہیں کی۔ عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم نے یہ صاف کردیا ہے کہ اب ڈرائنگ روم کی سیاست کے دن لد گئے۔ اب سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ ان نتائج کے بعد بیشک راہل آرام سے یوروپ اورامریکا سیرسپاٹے کو جاسکتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کے حق میں مہم چلاسکتے ہیں، جن سے ان کو بڑی ہمدردی ہے۔کاش ان کو ہندستانی معاشرے کی اوراس کی اقدار کی بھی تھوڑی بہت سمجھ ہوتی۔
جواب دیں