برائے فروخت

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی بڑے پیمانے پر یورپی یونین کے ممبر ملک مالٹا نے پھر اشتہار دیا کہ صرف چھ لاکھ پچاس ہزار یورو کے عوض نان یورپی ممالک کے باشندے مالٹا کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں اس بھونڈے انداز میں اشتہار بازی پر یورپی یونین نے مالٹا پر شدید تنقید کی اور مذمت کرتے ہوئے کہا اس قسم کی اشتہار بازی اور دیگر معاملات کی جانچ پڑتال کیلئے سٹراس برگ میں ایک کمیشن تیار کیا جائے گا جو یہ پتہ لگائے کہ مالٹا کے اس منصوبے سے یورپی یونین کے معاہدوں کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔شہریت سے متعلق مالٹا کے نئے قانون کے تحت نان یورپی باشندے چھ لاکھ پچاس ہزار یورو میں مالٹا جیسے چھوٹے ملک کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں مالٹا اس اقدام سے ملکی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے،یورپی پارلیمنٹ کے اہم ممبران کا کہنا ہے کہ شہریت سٹورز پر بکنے والی شے نہیں جسے کوئی جب چاہے محض چند یورو کے عوض خرید سکے۔
مالٹا یورپی یونین کا واحد ملک نہیں جو پیسوں کے عوض شہریت فروخت کرتا ہے دیگر یورپی ممالک میں بھی شہریت فروخت کی جاتی ہے، بلغاریہ میں لائسنس یافتہ بنکوں میں پانچ لاکھ یورو جمع کروانے سے رہائشی اجازت نامہ مل جاتا ہے اور ایک میلین یورو کی سرمایہ کاری کرنے پر شہریت حاصل کی جا سکتی ہے ،ہنگری میں غیر ملکی ڈھائی لاکھ یورو کے سرکاری بانڈز خریدنے کے بعد پانچ سال کیلئے رہائشی اجازت نامہ حاصل کر سکتے ہیں، قبرص میں کم سے کم پانچ سال تک تین میلین یورو بینک میں جمع رہیں اور پانچ میلین یورو کی سرمایہ کاری کی جائے یا کسی ایسے بزنس میں انویسٹ منٹ ہو جہاں کم سے کم دس قبرصی باشندے آپ کی فرم یا بزنس میں بر سرِ روزگار ہوں تو شہریت حاصل کی جا سکتی ہے علاوہ ازیں کم سے کم تین لاکھ یورو یا زائد کی جائداد کا مالک رہائشی اجازت نامے کا حق دار ہے،اس طرح کے دیگر قوانین یونان ،پرتگال اور آئر لینڈ میں بھی موجود ہیں،فرانس میں ایک ’’ غیر معمولی اقتصادی شراکت ‘‘ کے عوض رہائشی اجازت نامہ حاصل کیا جا سکتا ہے فرنچ قانون کے مطابق کم سے کم پچاس ملازمتیں اور زیادہ سے زیادہ دس میلین یورو کی سرمایہ کاری لازمی ہے جبکہ جرمنی میں شہریت برائے فروخت نہیں شہریت حاصل کرنے کیلئے بر سرِ روزگار ہونا ، وظیفہ نہ لینا ،جرمن زبان پر مکمل عبور اور کم سے کم آٹھ سال تک قانونی رہائش لازمی قرار دی گئی ہے۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے