تاریخ کے پس منظر میں جائزہ لیا جائے تو صلیب وہلال یا دوسرے الفاظ میں مغرب اور اسلام کی یہ کشمکش کافی پرانی ہے۔ عروج اسلام کے بعد سے عیسائی دنیا نے مسلمانوں پر کروسیڈ کے نام ایک دو نہیں سات صلیبی جنگیں مسلط کیں، جو بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی، کی فتح پر انجام کو پہونچیں، اس وقت شاہ لوئی نہم نے مسلمانوں سے رہائی حاصل کرنے کے بعد اہل مغرب کونصیحت کی کہ ’’اگر تم مسلمانوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو تو فوج کشی کے بجائے ان کے عقید ہ پر ضرب لگاؤ تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں پکے ہوئے پھل کی طرح تمہاری جھولی میں گرجائیں، شاہ فرانس کی اس نصیحت پر یوروپ کے حکمرانوں سے زیادہ مستشرقین اور عیسائی مبلغین نے توجہ دی، پاپائے روم کی اسلام او رپیغمبر اسلام ﷺ پر گزشتہ دنوں کی گئی تنقید اسی سلسلہ کی کڑی ہے، بالخصوص ان کا یہ یہ الزام کہ ’’اسلام دنیا میں تلوار کے زور پر پھیلا‘‘ اس مہم کا ایک حصہ ہے جو مغرب نے اسلام کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اور جس کا مقصد فکری وعملی سطح پر اسلام کے مقابلہ میں پسپائی کے بعد دنیا کو اس کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔ اس طرح کے الزامات کا ماضی میں مسلم علماء مدلل جواب دے چکے ہیں، ہندوستان میں علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی لکھ کر پیغمبر اسلام ﷺ کے اعلیٰ انسانی خصائل اور فکر کی بلندی کو ثابت کیا تھا، سرسید علیہ الرحمہ بھی بدنام زمانہ وسیم میور سیرت النبی پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دے چکے ہیں، دوسرے مفکرین نے بھی اسلام کے اوپر عائد اس اتہام کا کہ ’’یہ مذہب تلوار کی زور پر پھیلا ہے‘‘ مسکت جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ اپنے ظہور کے پہلے دن سے اسلام سلامتی کا مذہب رہا ہے، دنیا جانتی ہے کہ مکہ مکرمہ جہاں سے اسلام کا آفتاب طلوع ہوا ، وہاں تلوار حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ میں نہیں، ان کے نہ ماننے والوں کے قبضہ میں تھی۔
نبی پاک ﷺ پر جو حلقے جنگ باز ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں ، وہ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ۵۳برس کی عمر تک لڑنا تو کجا، کبھی ہتھیار بھی ہاتھ میں نہیں، حالانکہ اس وقت عرب معاشرہ لڑائی جھگڑا عام تھا، ہر شخص کم عمری سے فن سپہ گری میں طاقت ہوجاتا تھا، زندگی کے آخری ایام میں مدینہ کے قیام کے دوران آپ ﷺ کو جن خونریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا ان کے محرک آپ کے حریف تھے، حضور ﷺ کے میدان میں تشریف لائے تو آپ نے جنگ کو بھی عبادت بنادیا، حکم صادر ہوا کہ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور عبادت گاہوں میں کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، فرمان الٰہی تھا کہ صرف ان سے لڑو جو تم سے لڑنے پر کمربستہ ہوں، تاکید فرمائی کہ دوسرا حریف صلح کرنا چاہئے تو اس کی پیش کش کو قبول کرلو، نئی رحمت ﷺ تشریح فرماتے رہے کہ جنگ کا مقصد سمجھ لو، یہ نہ مال غنیمت کیلئے ہے اور نہ اقتدار کے حصول کیلئے، قرآن میں مقصد جہاد کی وضاحت یوں کی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ ایک کے ذریعہ دوسرے کی مدافعت نہ کرتا تو راہبوں کی خانقاہیں، یہود ونصاریٰ کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مساجد جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھا دیئے جاتے، اسی لئے دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے جہاں بھی تلوار اٹھائی، اس کا مقصد اپنا اور مظلوموں کا دفاع کرنا تھا، غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا ہرگز نہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جس میں تمام مذاہب کی آزادی برقرار ہے اور ان کے ماننے والے کسی پابندی کے بغیر اپنے مذہبی فرائض ادا کرسکیں، رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی دنیا کے سامنے ہے جس سے ایک مثال بھی ایسی نہیں دی جاسکتی کہ کسی شخص کو ایمان لانے پر مجبور کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے مسلمانوں کے بہت سے قریبی اعزاء کی موت کفر کی حالت میں ہوئی، کفار مکہ ہوں یا یہودی قبائل، انہوں نے اسلام جیسے امن واخوت کے مذہب اور اس کے علمبرداروں کی مخالفت ، اس لئے کی کہ وہ سمجھتے تھے کہ مساواتِ انسانی کی یہ تحریک ان کے صدیوں سے چلے آرہے استبدادی معاشرہ کو مٹادے گی لہذا مدینہ منورہ میں جن اعلیٰ اصولوں پر اسلامی ریاست کا قیام ہورہاہے، اس کو مستحکم ہونے سے پہلے ختم کردیا جائے، اسی مقصد سے جنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ، انگریز مصنف لارڈ ایڈلے نے مذکورہ جنگوں کا تجزیہ کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے کہ ان میں جارح کون اور جارحیت کا مقابلہ کون کررہا تھا، جنگوں کے جائے وقوع سے بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے، پہلی ’’جنگ بدر‘‘ اس میدان میں لڑی گئی جو مدینہ سے تیس میل کے فاصلہ پر ہے، مدینہ سے طویل مسافت طے کرکے کفار مکہ وہاں پہونچے تھے، دوسری جنگ احد میں ہوئی جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ہے، اس جنگ میں بھی آور اہل مکہ تھے، تیسری جنگ ’’غزوہ احزاب‘‘ ہے، جس میں عرب تمام دشمنان اسلام بشمول یہود نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا، ان تینوں جنگوں سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حملہ آور مسلمان نہیں، ان کے حریف تھے اور دفاع کی ذمہ داری مسلمان نبھا رہے تھے، یہ بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں نے طاقت حاصل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ جنگ کیلئینہیں حج کا فریضہ ادا کرنے کیلئے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا تو اس امر کے باوجود کہ وہ اپنی قوت کے بل پر بآسانی وہاں پہونچ سکتے تھے، اہل مکہ نے انہیں فوراً داخلہ کی اجازت نہیں دی بلکہ ایک سال بعد کی شرط عائد کردی، آنحضرت ﷺ محض امن کو قائم رکھنے کیلئے ان کی جملہ شرائط کو قبول کرلیا، حضور اکرم ﷺ کی امن پسندی کا اس سے بڑا شاہکار وہ مرحلہ ہے جب آپؐ مسلمانوں کے لشکر عظیم کے ہمراہ فاتح کی حیثیت سے اپنے قدیم وطن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو جنہوں نے آپ کو اس شہر سے نکالا تھا انہیں پناہ دیدی، جنگ وخونریزی تو درکنار کسی دشمنِ اسلام کو ایک خراش تک نہیں لگی، ان کی جانیں اور املاک محفوظ رہیں، اس سے بڑھ کر اسلام کی امن پسندی اور پیغمبر اسلام ﷺ کی انسانیت نوازی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟
موجودہ عالم اسلام کے نقشہ پر بھی اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کبھی مسلمانوں نے لشکر کشی نہیں کی، انڈونیشیا، ملیشیا، مالدیپ اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں عرب تاجر اور علماء کرام کے ذریعہ اسلام کی روشنی پہونچی، ہندوستان سمیت بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں سب سے پہلے صوفیائے کرام نے اپنے خیمے ڈالے اور اخلاق کی تلوار سے لوگوں کے دل مسخر کرلئے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور مولانا سید کرامت علی جونپوری کے ہاتھوں لاکھوں اشخاص مشرف بہ اسلام ہوئے، یہ دلوں کو فتح کرنے والے اور محبت کی تلوار سے دشمنوں کو گرویدہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ آج امریکہ ویوروپ میں ا سلام قبول کرنے کے جولہر چل رہی ہے اس کی وجہ کونسی طاقت یا جبر ہے، اسلام کی سادگی اور فکری قوت کا ہی یہ کرشمہ ہے کہ وہاں اس مذہب کے تئیں لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ افسوس کہ تعصب وتنگ نظری کے شکار مغرب کے دانشور ان حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
جواب دیں