شدت پسند ہندووں کا ہیرو بننے کو بے چین پروین توگڑیا

اور لاکھوں کی جائیداد کو نقصان پہنچاجب کہ اس سے قبل اترپردیش کے بریلی میں بھی اس کی مٹینگ کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے اور حالات پر قابو پانے کے لئے دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کرنا پڑا تھا۔ اتفاق سے کرناٹک اور اترپردیش دونوں ایسی ریاستیں ہیں جہاں غیر بی جے پی پارٹیوں کی سرکاریں ہیں مگر حیرت انگیز طور پر انھوں نے نفرت کے اس بیوپاری کو جلسے کی اجازی دی اور تشدد کی وارداتیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ماضی میں بار بار اس کی نفرت انگیز باتوں سے آگ لگ چکی ہے اور لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں تو پھر اسے اجازت کیوں دی جاتی ہے؟بنگلو رمیں ’’وراٹ ہندو ہردے سنگم‘‘ میں اس نے کہا کہ ہندووں کو ’’لوجہاد‘‘کامن سول کوڈ اور دو بچوں کے ایشو پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ اس نے اعلان کیا کہ گھرچار لاکھ کشمیریوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے گا اور جلد ہی اس سلسلے میں تحریک چھیڑی جائیگی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندو اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام اور عیسائیت قبول کر
رہے ہیں اسی لئے ہندووں کی آبادی میں کمی آرہی ہے۔ اس مسئلے پر انھیں خاموش نہیں رہنا چاہئے۔اس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنائے یا ہمیں ’’گھرواپسی‘‘ کی اجازدت دے۔ اس قسم کی باتیں سنگھ پریوار کے لوگ کرتے رہے ہیں اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے مگر وشو ہندو پریشد کے انٹرنیشنل صدر پروین توگڑیا کی حالیہ سرگرمیاں جس طرح سے سامنے آئی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ہندو ہردے سمراٹ بننے کی کوشش میں ہے۔ جو جگہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد خالی ہوئی ہے وہ اب توگڑیا لینا چاہتا ہے۔ نریندر مودی جب تک گجرات میں رہے تب تک پورے ملک میں کٹرہندتو وادی لیڈر کی پہچان ان کی رہی۔ وانھیں اپنی اس تصویر پر اس قدر اصرار تھا کہ انھوں نے مسلم ٹوپی سر پر رکھنے سے بھی انکارکردیا تھا۔ مودی نے کبھی کسی ہندتواوادی لیدڑ کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا اور سنگھ پریوار کے تمام ایسے نیتاؤں کو انھوں نے ان کی ماند میں بند کررکھا تھا۔ گجرات میں وشو ہندو ہندو پریشد کی سرگرمیاں محدود ہوگئی تھیں اور پروین توگڑیا کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ یہاں کوئی جلسہ کر سکے مگر اب وزیر اعظم کی مجبوری ہے کہ وہ خود کو سیکولر ظاہر کریں اور ہر طبقے کے ساتھ میل جول رکھیں۔ اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں جہاں مختلف طبقے کے لوگ رہتے سہتے ہیں۔ ایسے میں توگڑیا کی امیدوں کو پر لگ گئے ہیں اور وہ پورے ملک کے دورے کرکے شدت پسندوں کو سندیس دے رہا ہے کہ اب ہندو ہردے سمراٹ مودی نہیں رہے بلکہ وہ خود ہے۔ اس وقت وشو ہندو پریشد کے قیام کو پچاس سال ہوچکے ہیں اور وہ پورے ملک میں اپنی سالگرہ پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں بریلی اور بنگلو ر میں بھی اس کے جلسے ہوئے جہاں اس کی نفرت انگیز تقریروں کے سبب فساد پھوٹ پڑا۔ اب ایک بڑا پروگرام عنقریب راجدھانی دلی میں ہونے والا ہے جس میں ایک لاکھ ہندووں کو جمع کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ وشو ہندوپریشد کے نفرت انگیز پروگراموں کو جس طرح سے ریاستی سرکاریں اجازت دے رہی ہیں ، اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے اور مستقبل میں بھی فسادات پھوٹ سکتے ہیں۔ 
ہندووں کے لئے ،توگڑیا کے دس پیغام
پروین توگڑیا نے تمام ہندووں کو متحد کرنے کے لئے انھیں دس پیغام دیئے ہیں اور کہا ہے کہ ہندو ان پر عمل پیرا ہوں۔ ان پیغاموں میں کہا گیا ہے کہ ہر ہندو خاندان کو چاہئے کہ وہ ایک شڈول کاسٹ فیملی سے دوستی رکھے۔ شاید یہ پیغام اس لئے دیا گیا ہے تاکہ ہندووں کے اندر سے ذات پات کا بھید بھاؤ کم کیا جاسکے۔اصل میں یہ بھارت میں چار ہزار سال سے رائج ہے اور اس سسٹم کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ ہندو دھرم کی بنیاد ہی ذات پات پر رکھی گئی ہے اور اس اونچ نیچ وچھوت چھات کے سبب ہی بڑے پیمانے پر پست ذاتوں کے لوگوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر دوسرے مذاہب میں پناہ لیا تھا۔ اس سچائی کو تاریخ داں قبول کرتے ہیں۔ حالانکہ اصل سوال یہ ہے کہ سوسائٹی سے ان چیزوں کو ختم کرنے کے لئے ان مذہبی کتابوں کا کیا کیا جائےء گا جن میں ورن آشرم کا ذکر ہے اور ہندووں کو چار طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگر سنگھ پریوار اسے ختم کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے ان کتابوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جن ذات پات کا تذکرہ ہے۔ پروین توگڑیا نے ہندووں کو نصیحت کی ہے کہ وہ چھوت چھات کے خلاف کھڑے ہوں اور ایس سی ایس ٹی کے ساتھ وابستگی اختیار کریں۔ اس کی نصیحت ہے کہ تمام شڈول کاسٹ کے لوگوں کے لئے وہی پیمانہ اختیار کیا جائے جو اونچی ذات کے لوگوں کے لئے ہے۔ توگڑیا کا کہنا ہے کہ ہر
ہندو کو چاہئے کہ وہ غریب ہندووں کو ہر روز تھوڑی سی خواراک عطیہ کرے۔ ہر ہندو خاندان روزانہ کسی گائے کو کھانا کھلائے اور گؤ سیوا کرے۔ ہر مالدار ہندو کسی غریب ہندو طالب علم کی ٹیوشن فیس کی ماہانہ ادائیگی کرے۔ ہر ہندو داکٹر کسی غریب ہندو مریض کا علاج بغیرفیس کرے۔ ہر ہندو بزنس مین کسی بے روزگار ہندو نوجوان کو روزگار سے لگائے۔ ہندو بچوں کو اان کے مذہب کے بارے میں جانکاری فراہم کریں اور انھیں مذہبی تعلیم سے آراستہ کریں۔ ایک ایس اقانون بنایا جائے جس کے تحت سبھی جوڑوں کو دو بچوں تک محدود کردیا جائے۔ 
اوپر مذکور دس پیغامات کے ذریعے پروین توگڑیا نے ہندووں کو متحد کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس کی کہی ہوئی باتیں خود کئی سوال پیدا کرتی ہیں۔ جس ذات پات کے سسٹم کی وجہ سے ہزاروں سال تک ہندووں کے اکثریتی طبقے کو غلام بنائے رکھا گیا وہ ہندووں کی مذہبی تعلیم کا حصہ ہیں اور ان کتابوں میں مذکور ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے اور جنھیں ’’قومی کتاب ‘‘کا درجہ دینے کی مانگ کی جاتی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ سبھی ہندووں کو ایک مان لیا جائے۔ خود جو پسماندہ طبقے کے ہندو پرھ لکھ لیتے ہیں ان کے اندر اعلیٰ ذات والوں کے خلاف نفرت جاگ اٹھتی ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ انھیں کے آباء واجداد نے ہم پر ہزاروں سال تک ظلم ڈھایا ہے۔ جہاں تک غریبوں کی مدد کی بات ہے، انھیں کھانا کھلانے، تعلیم دینے اور روزگار سے لگانے کی بات ہے، ضرور ہونی چاہئے مگر اس میں کسی قسم کا مذہبی بھیدبھاؤ پیدا کرنا اتنا ہی برا ہے جس قدر کہ ذات پات کے نام پر چھوت چھات غلط ہے۔ کمزور طبقے کی مدد انسانیت کی بنیاد پر ہونی چاہئے اس کے مذہب، ذات اور رنگ ونسل کے سبب نہیں۔ قس قسم کی باتیں سماج سے اونچ نیچ کو ختم نہیں کرسکتیں بلکہ بڑھانے والی ہونگی۔سوال یہ ہے کہ آخر ہندو کی مدد ہندو ہی کیوں کرے، مسلمان اور عیسائی کیوں نہیں کرسکتے؟ اور جس کی مدد کی جائے کیا اس کا مذہب پوچھا جانا چاہئے، اس کے بعد مدد کرنی چاہئے؟ کیا راہ چلتے کسی مسافر کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو اس کو اسپتال لے جانے سے پہلے اس کا مذہب اور ذات پوچھنا انسانیت کی بات ہے؟ توگڑیا بتائیں کہ وہ جس قسم کے مشورے دے رہے ہیں وہ ہندو دھرم تو کیا انسانیت کے دائرے میں بھی آتے ہیں؟ ایسی تعلیم سے وہ ہندو آگے بڑھائینگے یا عہد وسطیٰ میں لے جائینگے؟
ہندو ہردے سمراٹ بننے کی راہ پر
پروین توگڑیا اور اس جیسے بہت سے سنگھ لیڈران کی جمع پونجی نفرت کا بیوپار ہی ہے۔ وہ نفرت انگیز باتوں سے لوگوں کے دلوں کو گندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا سیاسی فائدہ نقصان دیکھتے ہیں۔ آج وشو ہندو پریشد کی عمر پچاس سال ہوچکی ہے مگر اس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ نفرت، فتنہ وفساد اورخون خرابہ ہی اس کی کمائی ہیں۔ رام مندر تحریک کے نام پر اس نے جو کچھ پورے ملک میں کیا تھا ابھی اسے زیادہ دن نہیں بیتے ہیں۔ تب اشوک سنگھل وہی زبان بولا کرتے تھے جو آج پروین توگڑیا بول رہا ہے۔ اس تنظیم کے کسی بھی لیڈٖر کی زبان سے کبھی کوئی میٹھی بات نہیں سنی گئی جس نے بھی منہ کھولا اس نے زہر اگلا۔ اسی کی تحریک کے نتیجے میں بابری مسجد شہید ہوئی اور ہزاروں چھوٹے بڑے فسادات ہوئے جن میں اب تک ان گنت معصوم لوگ مارے جاچکے ہیں۔ کارسیوا کے نام پر ہندتو کی جو تصویر اس نے پیش کی وہ کوئی پر کشش نہیں تھی۔ بھارت کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں ایسی کسی تنظیم کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا مگر ہمارے ملک
میں سب چلتا ہے۔ آج وشو ہندو پریشد کا چہرہ ہے پروین توگڑیا جو خود کو ہندووں کا سب سے بڑا رہنما ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور انھیں ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے جو ماضی میں اس تنظیم کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ آج توگڑیا کو لگتا ہے کہ اس کا راستہ صاف ہے اور وہ ہندو ہردے سمراٹ کا وہ مقام حاصل کرسکتا ہے جو مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے خالی پڑا ہوا ہے مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ نفرت کے اس کھیل میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا جارہا ہے۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے