ایسے شرمناک وخونریز واقعات پر نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، پاکستان جس کو وہاں کے حکمراں اور عوام سلطنت خدا داد، سرزمین پاک، مملکت اسلامی کے نام سے پکارتے ہیں، وہاں برادر کشی کی ایسی وارداتیں حیرت ناک ہی نہیں شرمناک بھی ہیں، مسلمان اپنے بھائی مسلمان کا خون بہائے وہ بھی مذہبی تقریبات کے دوران انتہائی گھناؤنا عمل ہے ،لیکن پاکستان میں کبھی نماز کے دوران تو کبھی جلوسِ جنازہ کو نشانہ بناکر اپنے کلمہ گو بھائیوں کا خون بہایا جاتا ہے۔ ہم اپنے ملک ہندوستان میں آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کسی مسلمان کا جنازہ عام شاہراہ سے گزرتا ہے تو اہل ہنود اس کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں، یہاں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے جنازہ پر لوگ حملہ آور ہوئے ہوں، اسی طرح عام طور پر مساجد ، امام باڑوں اور خانقاہوں کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران نشانہ نہیں بنایا جاتا جبکہ ہندوستان میں فسادات عام طور پر دو مختلف فرقوں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہوتے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں مارنے اور مرنے والے دونوں کلمہ گو بھائی ہیں جن کا مسلکی اور سیاسی اختلاف انہیں ایک دوسرے کے خلاف تشدد اور خون خرابے پر ابھار دیتا ہے اور پوری دنیا کو یہ غلط پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے علمبردار تشدد کے اتنے عادی ہیں کہ جب غیر مذہب کے لوگ نہیں ملتے تو وہ باہم ایک دوسرے کے خون میں اپنے ہاتھ رنگنے لگتے ہیں۔
پاکستان کے اس گروہی تصادم کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ وہاں نہتے مصلیان کو مسجد کے اندر یا باہر نشانہ بنایا جاتارہا ہے، کئی شہروں میں ایسی وارداتیں ہوئی ہیں ، جن میں نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونے والوں کو نہیں بخشا گیا، ایسی مذموم حرکت تو دشمنانِ اسلام بھی نہیں کرتے، اب تک پاکستان کے مختلف مسلکی اور گروہی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہونچ گئی ہے۔ عراق، فلسطین، شام اور افغانستان میں مسلم خون کی ارزانی کیا کم تھی جو پاکستان کے سنی اور شیعہ ایک دوسرے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں، کیا مسلمانوں کا خون، اتنا ارزاں ہے کہ اسے کسی حیلے بہانے بہتے رہنا چاہئے، پہلے اس طرح کے تصادم ماہ محرم میں عاشورہ کے موقع پر ہوا کرتے تھے لیکن پاکستان کے شیعہ وسنیوں نے انہیں ایک مستقل مشغلہ کا درجہ دے دیا ہے، یہ اس ملک میں ہورہا ہے جسے بڑی آرزوؤں کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسے دارالامن قرار دیکر بعض ہندوستانی مسلمان وہاں منتقل ہوئے تھے، یہ مسلمان اپنے نئے ملک کیلئے اتنے جذباتی تھے کہ اکثر اس پر جان قربان کردینے کی تمنا کرتے تھے، تاکہ وہاں دوسرے کلمہ گو مسلمان بھائی سرسبز وشاداب رہیں، آج اسی ملک کے شیعہ وسنیوں یہ میں قتل وغارتگری کتنی افسوسناک ہے۔
اس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ مسلمان خود کو کتنے ہی فرقوں میں کیوں نہ تقسیم کریں حریفوں کی نظر میں وہ مسلمان ہی رہتے ہیں، شیعہ وسنی ، بریلوی و دیوبندی اور مقلد وغیر مقلد سب دیگر قوموں میں مسلمان اور صرف مسلمان کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اگر ان کی شناخت ناقابل تقسیم ہے تو ان میں باہم اتحاد بھی ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی مخالفت کے طوفان کا سیسہ پلائی دیوار کی طرح مقابلہ کرسکیں، اس کے برخلاف باہم رسہ کشی، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے کی جانوں کو خود پر حلال کرلینا وہ عمل ہے جو دوسروں کے سامنے مسلمانوں کی ہوا خیزی کا باعث بن رہا ہے اور کہنے والے تو یہاں تک کہنے سے نہیں چوکتے کہ مسلمانوں میں دیگر قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
یہ وہ بدترین صورت حال ہے جس کی فکر ہر مسلمان کو ہونا چاہئے ، خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے پاس اگر کچھ ضمیر باقی ہے تو انہیں اس وحشیانہ عمل کو بند کردینا چاہئے، برادر کشی کے اس کاروبار میں مارنے اور مرنے والے دونوں کے لئے کوئی راہ نجات نہیں ہے، اس طرح کے واقعات سے دنیا کو یہی پیغام جاتا ہے کہ اسلام میں تشدد اور خون خرابہ کی پوری آزادی ہے، حالانکہ اسلام بنیادی طور پر امن، عافیت اور خیرسگالی کی تعلیم دیتا ہے، مسلمان وہ ہے جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور اسلام کی تعلیمات پر ہر حال میں عمل پیرا رہے، اس طرح کے واقعات سے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی عبرت حاصل کرکے اپنے احوال کو درست کرلینا چاہئے اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم ان نام نہاد مسلمانوں میں شامل نہیں جو برادر کشی کو اپنا مذہب سمجھ کر پوری مسلم قوم کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
جواب دیں