ان کی فلم کو جب سے فلم سنسر بورڈ کی طرف سے ہری جھنڈی کی دی گئی ہے تب سے ایک ہنگامہ سا بپا ہے اورمیڈیا سے عوام تک طرح طرح کے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ فلم ’’میسنجر آف گاڈ‘‘ (MSG)کا پروڈکشن ڈیرا سچا سودا نے کیا ہے اور اس میں اداکاری ڈیرا کے چیف گرمیت سنگھ نے کی ہے۔ان کی شناخت پہلے ہی سے ایک راک اسٹار بابا کی ہے کیونکہ ان کے جتنے بھی روحانی پروگرام ہوتے ہیں ،ان میں بھجن بھی راک اسٹائل میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ بھجن وہ خود گاتے ہیں اور ان پر ڈانس بھی بابایوروپی ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ شاید وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ نئی نسل کو خود سے قریب کریں جو مذہب اور روحانیت سے دور ہوتی جارہی ہے۔ بابا کے ہاؤ بھاؤ اور لباس وغیرہ تمام کسی راک اسٹار کی طرح ہوتے ہیں،جنھیں وہ خود ڈیزائن کرتے ہیں مگر وہ خود کو ایک مذہبی رہنما بتاتے ہیں
اور اپنے ماننے والوں کو روحانیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی زندگی اور ان سے جڑے ہوئے تنازعات اس قسم کے ہیں کہ کسی ممبیا مسالہ فلم کے لئے بہترین مسالہ فراہم کرسکتے ہیں مگر اپنی آنے والی فلم میں انھوں نے خود کو ایک ایسے سپرمین کے طور پر پیش کیا ہے جو لوگوں کے مسائل کو چٹکیوں میں حل کردیتا ہے اور ان کی مدد کے لئے پہنچتا ہے۔ مافوق الفطرت باتیں کسی زمانے میں کہانیوں کا حصہ ہوا کرتی تھیں مگر آج کے سائنسی دور میں اس قسم کی کہانیوں پر اعتبار کرنے والے کم ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بابا جس طرح کے سپر مین کے کردار میں لوگوں کی مدد کرتے پھرتے ہیں، انھیں اپنی مدد کرتے ہوئے کیا دیر سگ سکتی تھی لہٰذا سنسر بورڈ نے اگر ان کی فلم کو سرٹیفیکٹ نہیں دیا تو انھوں نے خود حاصل کرلیا۔ اب اس پر تو تنازعہ ہونا ہی تھا۔ دوسری طرف سکھوں میں اس فلم اور بابا دونوں کے خلاف زبردست غصہ دیکھا جا رہا ہے جو گرمیت سنگھ کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ معاملہ اگر سیاسی رخ اختیار کرلے تو حیرت نہیں ہونا چاہئے۔
تنازعوں کے ’’راک اسٹار‘‘
۴۷ سالہ گرمیت سنگھ رام رحیم بھی ان باباؤں کی صف میں شامل ہیں، جن کا تنازعوں کے ساتھ چولی دامن کا رشتہ ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان پر قتل اور ریپ جیسے مقدمات ہیں مگر باوجود اس کے ان کا گریبان پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔الٹا سرکار انھیں زیڈ پلس سیکورٹی دیتی ہے اور حکومت میں بیٹھے ہوئے بااثر لوگوں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ انھوں نے کانگریس اور بی جے پی دونوں کے اعلیٰ لیڈروں کے ساتھ اچھے رشتے بنا رکھے ہیں اور سرکار کسی کی بھی ہو بابا کی جے جے رہتی ہے۔ انھوں نے گزشتہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور یہ سب سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے کیا تھا۔ ایسے ہی ایک بابا رام دیو بھی بے جے پی کے ساتھ ہیں جن پر کئی سنگین الزامات ہیں ۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو لگتا ہے ککہ اگر وہ سرکار کے ساتھ ہونگے تو محفوظ رہیں گے ۔ ایک کودساختہ سنت، آسا رام کے حشر سے ان لوگوں نے سبق سیکھا ہے اور خود کو بچانے کے لئے سرکار اور اقتدار کے ساتھ جانے میں ہی بھلائی جانتے ہیں۔ گرمیت سنگھ نے ۲۰۰۷ء میں کانگریس کا ساتھ دیا تھا اور پنجاب اسمبلی الیکشن میں کانگریس کو ووٹ دینے کی اپنے پیروکاروں سے اپیل کی تھی۔ گرمیت سنگھ نے اپنے بیٹے کی شادی پنجاب کانگریس کے لیڈر جسوندر سنگھ جسی کی بیٹی سے کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تنظیم ڈیرا سچا سودا کے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند ہیں۔ اس کا قیام ۱۹۴۸ء میں ہوا تھا اور اس کے بانی دیوانہ بلوچستانی تھے، جن کے چار کروڑ شردھالو تھے۔
کیا گرمیت سنگھ قاتل اور زانی ہیں؟
گرمیت سنگھ پر ۲۰۰۲ء میں قتل کا الزام لگا تھا۔ الزام ہے کہ انھوں نے ڈیرا کے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر رنجیت سنگھ نامی ایک شخص کا قتل کیا تھا جو ڈیرا کا حامی تھا مگر گرمیت سنگھ کا حامی نہیں تھا۔ اس کیس میں ڈیرا چیف کے ساتھ ساتھ کرشن لعل، جسبیر، اندرسین، اوتار اور سبدل کا نام ہے۔ یہ معاملہ جولائی ۲۰۰۲ء کا ہے مگر اسی سال ۲۳ اکتوبر کو ایک جرنلسٹ رام چندر چھترپتی کا قتل ہوگیا اور اس میں بھی گرمیت سنگھ کے اوپر ہی قتل کا الزام لگا۔ یہیں تک بس نہیں ہے بلکہ گرمیت سنگھ کے اوپر ریپ کا کیس بھی ہے جس میں انھیں کے ڈیرا کی دوسادھویوں کا نام مددگار کے طور پر آیا تھا۔ یہ تمام معاملات سنگین ہیں اور کسی دوسرے شخص پر لگتے تو اب تک وہ جیل میں ہوتا مگر ڈیرا چیف
کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں ہوئی کہ اس وقت کانگریس کی سرکار تھی اور انھوں نے کانگریس لیڈران سے دوستی گانٹھ رکھی تھیاور سرکار نے انھیں زیڈ پلس سیکورٹی دے رکھی تھی۔ ان تمام معاملوں کے بعد میڈیا میں خبر آئی کہ انھوں نے کچھ نوجوان سادھووں کو ہجڑا بنا دیا ہے اور ان سب لوگوں کا کام ہوگا ان کے محل سرا کی حفاظت کرنا۔ غورطلب ہے کہ عہد وسطیٰ میں بادشاہوں کی محل سرا کے لئے جو محافظ اور خادم رکھے جاتے تھے انھیں بھی خصی کردیا جاتا تھا تاکہ وہ محل کی کسی خاتون کی عصمت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ عہد وسطیٰ کے اسی رواج کو تازہ کیا ہے باباگرمیت سنگھ نے۔ اس معاملے کی ہریانہ و پنجاب ہائی کورٹ کے حکم پر تفتیش چل رہی ہے مگر اس قدر سنگین معاملات میں بھی آج تک ان کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ ان کے خلاف سی بی آئی کی انکوائری کر رہی ہے۔ گرمیت سنگھ کے مخالفین الزام لگاتے رہے ہیں کہ پہلے وہ کانگفریس سرکار کی مدد سے بچتے تھے اور اب بی جے پی حکومت کی مدد سے بچ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے ٹی وی انٹرویوزمیں لگاتار کہتے رہے ہیں کہ یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں اور ان کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔انھوں نے خود کو ایک سماجی مصلح اور خدمت گار کے طور پر بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے ڈیرا کی طرف سے جہاں بچاس آشرم چلتے ہیں وہیں اسکول بھی چلتے ہیں اور بلڈ ڈونیشن کیمپ وغیرہ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ڈیرا کی ویب سائٹس پر بہت سے سماجی کاموں کا ذکر ہے۔
فلم پر ہنگامہ؟
۲۰۰۷ء میں گرمیت سنگھ نے سکھوں کے دسویں گرو ، گورگوند سنگھ جی کے بارے میں کچھ باتیں کہی تھیں جن سے سکھوں میں ناراضگی پھیل گئی تھی اور بڑے پیمانے پر ان کی مخالفت ہوئی تھی مگر اس کے علاوہ بھی اکثر سکھ تنظیمیں اور اکالی لیڈران ان کے خلاف رہی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ڈیراچیف نے فلم بنانے کا فیصلہ لیا ہے اس کے پیچھے اصل مقصد ہے اپنی بگڑتی ہوئی تصویر کو ٹھیک کرنا۔ قتل، ریپ اور دوسرے قسم کے الزامات سے گھرے ہوئے بابا کو اپنی تصویر سدھارنے کا یہی طریقہ سوجھا ہے۔ اس سے پہلے ان کے گانوں کے دس البم ریلیز ہوچکے ہیں اور کئی ٹی وی چینل صبح کے وقت ان کے پروگراموں کی رکارڈنگ دکھاتے ہیں۔ وہ اب تک سو سے زیادہ کنسرٹ کرچکے ہیں جو ’’روبرو‘‘ کے نام سے آرگنائز کئے جاتے ہیں۔ اس وقت ان کا چرچاکسی کنسرٹ یا البم کے لئے نہیں بلکہ ان کی فلم کی ریلیز کے سبب ہے۔ اس فلم کے بارے میں خبر آئی تھی کہ سنسر بورڈ کے ممبران کی مرضی کے خلاف مرکزی سرکار کی مداخلت کے سبب اسے ہری جھنڈی دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ بورڈ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے اور اس کے ممبران ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کونسی فلم ریلیز ہوگی اور کس شکل میں ریلیز ہوگی۔ یہ ادارہ وزارت اعلاعات ونشریات کے ماتحت کام کرتا ہے اور اگر سرکار نے اس معاملے میں کوئی دخل اندازی کی ہے تو یہ بات قابل اعتراض ہے اور اس پر وایلا مچنا بھی فطری ہے۔ اپوزیشن کو موقع مل گیا ہے سرکار کو گھیرنے کا اور اسے سکھ مخالف ہونے کا الزام بھی سہنا پڑرہا ہے۔فلم کی رلیز کو لے کر سنسر بورڈ کی چیئرپرسن لیلاسیمسن کے استعفیٰ کی پہلے خبر آئی اور اس کے بعد دوسرے ممبران نے بھی استععفے پیش کردیئے اور ان وجوہات سے سرکار اپنے مخالفین کے نشانے پر آگئی ہے۔ دوسری طرف فلم کے پریمئر شو کا ڈیرا کی جانب سے ایک بڑے میدان میں خاص اہتمام کیا گیا ہے اور بڑے بڑے پردے لگائے گئے ہیں اس لئے لگتا ہے کہ فلم پر ٹکراؤ ہونا لازمی ہے۔ پنجاب سرکار فلم کی نمائش پر پابندی لگا چکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ فلم اور فلمی بابا کے خلاف ہنگامہ کا مرکز ہریانہ اور گجرات بن جائیں جہاں اگر ڈیرا کے حامی بڑیتعداد میں ہیں تو مخالفین بھی کم نہیں ہیں۔ یونہی جس طرح سے گرمیت سنگھ یہاں طاقت حاصل کر رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ بھی حکومت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں اور خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھنے لگیں۔
جواب دیں