اگر چہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی روادری کی ایک لمبی تاریخ ہے اور یکا دکا وارداتیں اس تاریخ کو کہیں ختم نہیں کردیتی ہیں، لیکن یہ سوال بہر حال باقی رہتا ہے کہ کسی جمہوری ملک میں چین کی زندگی گذارنے کے آئینی حق سے انسانوں کے کسی گروپ کو کیسے محروم کر سکتے ہیں۔ اوبامانے ہندوستان کے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ابتلاء کو اپنی زبان دی ہے۔ اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ اوباما ایک ترقی پسند لیڈر ہیں اور ان کی سوچ سابق صدر بش کے مقابلے میں زیادہ صاف ستھری ہے۔ چھوٹے بش نے تہذیبوں کے ٹکراؤ کی جو اصطلاح استعمال کی تھی اس میں عیسائیت اور اسلام ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ وہ امریکہ کی صورتحال تھی، ہندوستان میں عیسائیت اور اسلام دونوں بلا شبہ ایک زیادہ ترقی پسند اور روادار ہندو سماج کے کٹر پنتھیوں کی زد میں ہے۔ یہ کہ کر نکل جانا بہت آسان ہے کہ انحرافات سے تاریخ نہیں بدلتی، لیکن خود جیٹلی کو سوچنا چاہئے کہ جب سے نریندر مودی سرکار آئی ہے حکومت کی پالیسیاں ایک جارحانہ روش سے آگے بڑھ رہی ہیں جن میں ہندوستان کے بنیادی کردار کی جڑوں پر وار کیا جارہا ہے۔ دہلی میں چرچوں پر حملے اپنے آپ میں ایک دوسرے واقعات سے الگ نہیں ہیں۔ چرچوں پر کھلے حملے اورمسجدوں میں کہیں حرام جانور کاٹ کر پھینکنے کی واردات، محرم کے جلوس کو روکنے کی کوششی یا ترلوک پوری جیسی وارداتیں بہت بڑے پیمانے پر ہندوستان کا مزاج اس کا رویہ اور اس کے جینے ڈھب بدلنے کی کوششوں کی علامت ہیں۔ گجرات 2002ایک ایسا انحراف ہے جس نے 2014 میں پہلی ہندو سرکار بنائی۔ لیکن کیا صرف نریندر مودی کی سرکار کو ہی پہلے ہم ہندو سرکار کہیں گے۔ 1984 میں کانگریس نے لوک سبھا میں 415سیٹیں جس لہر میں جیتی تھیں وہ لہر سکھوں کے خلاف بھیانک فسادات سے اٹھی تھی۔ خون میں نہائی ہوئی وہ سرکار سکھوں کے خون میں نہائی تھی اور ہندو سرکار بھی۔ ہندو سرکار 1972میں بھی بنی تھی۔ اندرا گاندھی کی وہ ہندو سرکار جنگ آزادی بنگلہ دیش کے لہو میں اشنان کرکے آئی تھی۔ لیکن سابقہ دونوں موقعوں پر صرف ہندو اتحاد کا صرف سیاسی فائدہ اٹھایا گیا اور چونکہ ان لہروں کی بنیاد عارضی ابال پر تھی اس لئے 1972کے بعد 1975ہوا۔ اور 1984کے بعد 1989ہوگیا۔ یہ دو مثالیں سامنے رکھیں تو نریندر مودی سرکار کو عارضی فائدے سے مستقل فائدے کی طرف چھلانگ لگانے کاجواز ملتا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں کمزور پڑی ہوئی قوم پرست اورسوشلسٹ اورسیکولر طاقتیں اس نئی افتاد سے دنگ اور گنگ ہیں۔ نریندر مودی سرکار آتے ہی نہرو دور کے اداروں، افراد ، افکار اور اطوار کو بدلنے کی کوشش شروع ہوئی۔ جیسے جیسے سرکاری رجحان پرانی پہچان سے الگ ہو کر نئی پہچان بنانے کا ہوا ویسے ویسے ہندوتوا تنظیمیں ، ان کے ادارے اور افراد زیادہ جارحانہ روش اختیار کرتے گئے۔ نو مہینے میں صورتحال ایسی بن گئی کہ نریندر مودی کی مستقل خاموشی کے چاروں طرف ہندوتوا کا شور بڑھتا گیا۔ اصطلاحیں بنا کر، وقت مقرر کرکے اور تنظیمی جارحیت کے ساتھ کچھ کام ایسے کئے گئے جن سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتا تھا اور ہوا بھی مگر پوری دنیا اس پر نگاہیں گاڑی ہوئی تھی کہ ہندوستا ن میں کیا ہورہا ہے۔ سنگھی تنظیموں نے واضح اکثریت کے ساتھ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سماج میں اپنی جگہ تلاش کرنے کا کام شروع کیا۔ چھوٹی موٹی وارداتوں سے آغاز کرکے یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ مرکزی حکومت کس حد تک معاون یامخالف ہے ۔ اس کے بعد حوصلے بڑے ہوئے۔ لوجہاد کا نعرہ آیا، گھر واپسی کا نعرہ آیا، جبری تبدیل مذہب کے بڑے بڑے کیمپ لگائے گئے۔ بی جے پی کے سادھو سنت سماج کے ممبران پارلیمنٹ منہ کھول کر آئین کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہوئے۔ یہ سب کچھ جس طرح ہندوستان کا قوم پرست، سیکولر سوشلسٹ طبقہ دیکھ رہا تھا اسی طرح پوری دنیا ہندوستان پر نگاہ رکھ رہی تھی کیونکہ نریندر مودی نے سرکار میں آنے کے بعد یہ پیغام بھی دیا کہ وہ ایک نئے ہندوستان کی مارکیٹنگ کررہے ہیں جس میں سرمایہ کاری کے بہت امکانات ہیں اور دنیا ہندوستان کے امکانات، اس کے مزدوروں کی ہنر مندی، محنت اور لگن ، سستی مزدوری اور قدرتی وسائل کے ساتھ انسانی وسائل کا استعمال کرکے ہندوستان کو ترقیاتی کاموں کا مرکز بنا سکتی ہے۔ سرمایہ کاری جن چیزوں پر سب سے پہلے نگاہ ڈالتی ہے ان میں ایک چیز صنعتی امن ہے ۔ صنعتی امن فرقہ وارانہ امن وہم آہنگی سے بھی مشروط ہے، لیکن گوڈسے کے گجرات کے ہاتھ میں مرکوز جماعتی اور حکومتی قیادت کو گاندھی کی طرف راغب کرنے کا کام اوباما کو اس لئے شروع کرنا پڑا کہ ہندوستان میں ضمیر کی آواز خاموش پڑ گئی ہے۔ ارون جیٹلی نے اپنے بیان سے حکومت کا جواب پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں عقل کم علامت زیادہ ہے۔ جیٹلی نے کہا کہ مذہبی رواداری کا سب سے بڑا ثبوت خود اوباما کے برابر دلائی لامہ کی صورت میں موجود تھا جنہوں نے ہندوستان کواپنا گھر بنانے میں عافیت محسوس کی ہے۔ جیٹلی نے مثال بودھزم سے دی ۔ اوباما نے بودھوں کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ اوباما نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے جبری تبدیل مذہب کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ اگر گاندھی زندہ ہوتے تو آج کے ہندوستان میں مذہبی رواداری کے فقدان سے انہیں صدمہ پہنچتا۔ یہاں ضروری یہ ہے کہ اب نریندر مودی پارلیمنٹ میں کھل کر بیان دیں کہ مذہی رواداری پر جو سوالیہ نشان اوباما نے قائم کیاہے اس کا جواب وہ کن لفظوں میں دینا چاہتے ہیں؟۔
جواب دیں