انفرادی عمل صالح کو’’اسلام‘‘کہاجاتاہے جس کا لفظی مطلب اپنی مرضی سے دستبردارہو کر صرف اﷲتعالی اور اسکے آخری نبیﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیارکرناہے۔اگرچہ بادی النظرمیں ’’اسلام‘‘ کی یہی اصطلاح وحی کی تعلیمات اور اجتماعی عمل صالح کے لیے بھی بولی جاتی ہے لیکن ایک فردکامزکورہ تین حقوق کو توازن کی شرط کے ساتھ اداکرنا اس نظام کی اولین و انفرادی بنیادہے۔
حقوق اﷲسے مراد فرائض کی ادائگی اور حدوداﷲکاقیام ہے۔فرائض پانچ ہیں،نماز،روزہ،حج،زکوۃ اور قتال فی سبیل اﷲ۔ان فرائض کی ادائگی کے اجتماعی انتظام کے قیام تک ممکنہ حدودمیں انفرادی طورپراداکرتے رہناہرہرمسلمان فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے۔جب اجتماعیت ان فرائض کی ادائگی سے عہدہ براہوچکے توحدوداﷲکاقیام ریاست کی اگلی ذمہ داری ہے۔حقوق العبادسے مراد کل مخلوقات کے حقوق ہیں۔انسانوں میں سے سب زیادہ حقوق والدین کے ہیں،پھربہن بھائیوں کے،پھر والدین کے بہن بھائیوں کے علی ھذالقیاس۔حقوق العبادمیں رشتہ داروں کے بعداگلا درجہ پڑوسی کااور پھر معاشرے کے پسماندہ طبقات کا ہے۔جانوروں اور پرندوں سمیت کل مخلوقات ارضی ان حقوق العباد میں داخل ہیں،محسن انسانیتﷺنے حکم دیاہے کہ اونٹنی دوہتے ہوئے اپنے ناخن کاٹ لیاکرو مباداوہ ناخن اونٹنی کوچھبیں اور اسے تکلیف ہو۔حتی کہ محسن انسانیت ﷺنے ذبح کرتے ہوئے جانور کو بھی تیزچھری سے ذبح کرنے کاحکم دیاہے تاکہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی اسے کم سے کم تکلیف ہو۔محسن انسانیت ﷺنے پودوں کے بارے میں بھی ارشادفرمایاکہ رات کے وقت پودوں کی کانٹ چھانٹ مت کیاکروکہ یہ ان کے آرام کاوقت ہوتاہے۔حقوق النفس ،انسان کے اپنے حقوق ہیں جوہر مسلمان نے اپنے نفس کی آسودگی کے لیے اداکرنے ہیں۔آرام و طعام،وسائل کے مطابق مناسب لباس،حلال لذت کے لیے نکاح اورسیروسیاحت وغیرہ کاتعلق حقوق النفس سے ہے۔
حقوق اﷲ،حقوق العباداور حقوق النفس کے معاملے میں دیگر کل مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں،اور کسی ایک سمت میں اس قدر جھک گئے ہیں کہ دوسرے پہلو تشنگی کا شکارہوگئے۔مذہب عیسائیت کلی طورپر حقوق اﷲکی ادائگی کی طرف مائل ہے اور اس حد تک کہ دیگر دونوں حقوق کی ادائگی مذہبی طبقات کے لیے گناہ کادرجہ رکھتے ہیں۔اس صلیبی رویے کو راہبانیت کانام دیاگیاہے،جہاں غسل کرنے اور نکاح کرنے تک کی اجازت ناپیدہے۔سیکولرازم کے فکری انتشارنے ’’انسانیت کی عظمت‘‘کانعرہ لگاکرصرف حقوق العباد کی ادائگی کو ہی مقصدحیات گردانا ہے۔بلاشبہ یورپ کے عوام اورمقتدرطبقہ اپنے وطن سے ہزاروں میل دوردرازجزیروں میں،وادیوں میں اورجنگلوں و صحراؤں میں سسکتی انسانیت کے لیے دوائیں،کمبل اور خوراک وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں،اپنے وطن کی آسودہ اور پرآسائش زندگی چھوڑ کرتلخ وسخت کوش سفراختیارکرتے ہوئے حقوق العبادکی فکر کرتے ہیں لیکن افسوس کہ اپنے خالق و مالک سے پہچان سے کوسوں دورہیں اور فکرآخرت سے کلیۃ غافل ہیں۔یہودکاگروہ بڑی چابک دستی سے صرف حقوق النفس کا ہی پجاری ہے،ساری انسانیت بھاڑ میں جائے بس اس نسل بنی اسرائیل کے پیٹ کادوزخ ہر حال میں بھرارہناچاہیے،کل نسل آدم ازشرق تاغرب اپنے خون پسینے سے صہیونیت کے بنکوں کاسوداداکرنے کی فکرمیں صباح و مساء مصروف کارہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ سرمایادارانہ سودی معیشیت کے خراج کی ادائگی میں چوبیس گھنٹے اور ساراسال چلنے والے کارخانوں نے کرہ ارض کی فضامیں آلودگی کے باعث انسانوں کے لیے سانس لیناتک محال کردیاہے۔ہندومت، بدھ مت،کنفیوسش اورجین مت ،سکھ مت وزرتشت سمیت عالم انسانیت کے کل مذاہب ونظام ہائے معیشیت و سیاست ،سیکولرازم،سوشل ازم،فاش ازم وغیرہ اول تو کسی جامع طرزحیات کے تصورسے ہی خالی اور چندپندونصائح تک محدودومقید ہیں یا پھر اتنی غیرمتوازن تعلیمات ہیں کہ انسان کی عملی زندگی پر محیط ان حقوق ثلاثہ کااحاطہ نہیں کر پاتے۔
ان سب کے مقابلے میں اسلام نے کل انبیاء علیھم السلام کے تصور حیات کو بڑی جامعیت کے ساتھ ان حقوق ثلاثہ میں توازن کے ادائگی سے مشروط کرکے انسانی فطرت سے گندھاہواانفرادی عملی نظام پیش کیاہے:
۱۔اگر حقوق اﷲاور حقوق العباد میں ٹکراؤ کی صورت پیداہوجائے اور ایک وقت میں ایک حق کی ہی ادائگی ممکن ہوتو اسلام کی تعلیمات انسان کی راہنمائی کرتے ہوئے حکم دیتی ہیں کہ حقوق اﷲکو موخرکردیاجائے اور حقوق العباد اداکیے جائیں۔مثلاََنمازپڑھتے ہوئے اگرایسے بچے کی طرف نظر پڑے جوبجلی کی ننگی تاروں کی طرف بڑھ رہاہوتو حکم ہے کہ نماز توڑ دی جائے یعنی حقوق اﷲ کی بجائے حقوق العباداداکیے جائیں اوراس بچے کی جان بچانے کی فکر کی جائے۔
۲۔اگرحقوق اﷲاور حقوق النفس میں ٹکراؤ کی صورتحال پیداہو اور ایک وقت میں ایک ہی حق کی ادائگی ممکن ہو سکے تو تب بھی حقوق اﷲکو موخرکردینے کا حکم ہے اور حقوق النفس کی ادائگی لازمی قراردی گئی ہے۔مثلاََرمضان میں روزوں کی ادائگی حقوق اﷲمیں سے ہے اور اگر سفردرپیش ہویا بیماری لاحق ہو جائے تو حقوق النفس کا تقاضاہے کہ روزہ موخر کر دیاجائے ۔پس اس صورت حال میں حقوق النفس کی ادائگی کو مقدم رکھاگیاہے اور قرآن نے حکم دیاہے کہ روزوں کو بعد کے دنوں میں قضاپر اٹھادیاجائے۔قرآن مجید میں ہی ایک اور جگہ یوں فرمایاگیا کہ ’’فاذافرغت فانصبOوالی ربک فارغب‘‘ترجمہ:پس جب (اپنے کاموں سے )فارغ ہوجاؤ تو اپنے رب کی (عبادت کی) طرف راغب ہو جایاکرو‘‘۔
۳۔تیسری اور آخری صورتحال میں حقوق العباد اور حقوق النفس آپس میں ٹکراتے ہیں اور کسی ایک کی ادائگی ہی ممکن ہو پاتی ہے۔تب خالق کائنات اﷲ تعالی کی سنت ہے کہ اپنے حقوق سے دستبردارہوجایاجائے اوربہرطور خدمت خلق کاحسین فریضہ سرانجام دیاجائے۔سورۃ بقرہ میں اﷲتعالی نے کہا کہ ’’صبغۃ اﷲومن احسن من اﷲصبغہ‘‘ترجمہ:اﷲتعالی کارنگ اختیارکرواوراﷲ تعالی کے رنگ سے اور کس کارنگ بہتر(ہوسکتا)ہے؟؟‘‘،اسی طرح حدیث نبویﷺ میں بھی کہاگیا کہ ’’تخلقواباخلاق اﷲ‘‘ترجمہ’’اﷲ تعالی کے اخلاق اپناؤ‘‘۔مسلمانوں کی تاریخ اس عمل کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جب مہمان نبوی کی خدمت گزاری میں خود کواور اہل خانہ کو خالی پیٹ سلا دیااور موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی پانی کا مشکیزہ ساتھ والے زخمی کی طرف بڑھادیا۔اس طرح کے عظیم کرداروں کو قرآن مجید نے یوں یادکیاہے کہ ’’ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصہ‘‘ترجمہ اوراپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘۔
یہ رویے انسانی فطرت سے قریب تر ہونے کے باعث انفرادی زندگی میں ایک حسین تربیب حیات کاباعث بنتے ہیں اور نظم زندگی کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ چمکتے ہوئے سچے موتیوں سے بنی ہوئی مالا بناکر خالق کائنات کا ذکرکرتی ہوئی تسبیح کی شکل دے دیتے ہیں۔
تین افراد خدمت اقدسﷺ میں حاضرہوئے،لیکن ذات نبوی کو نہ پاکراصحاب رسول سے معمولات نبویﷺ کے بارے میں استفسارکیا۔جواب سن کر تشفی نہ توتینوں میں سے ایک نے کہا اب میں ساری رات جاگوں گااور بسترپر اپنی پشت نہیں لگاؤں گا،دوسرے نے کہاکہ اب میں ساراسال روزے سے رہوں گااور کوئی دن قضانہ کروں گاجبکہ تیسرے نے کہا اب میں کبھی اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا۔یہ کہ کرتینوں عازم سفرہوئے۔جب محسن انسانیت تشریف لائے تو انہیں ان تین افرادکا حال بتایاگیاتو آپﷺسخت برہم ہوئے اور فرمایا’’میں تم سب سے زیادہ خوف خدارکھنے والا ہوں،میں رات کوسوتابھی ہوں اورعبادت بھی کرتاہوں،روزہ رکھتاہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتااور اپنی بیویوں کے پاس بھی جاتاہوں‘‘۔پس ان حقوق ثلاثہ کے درمیان توازن اختیارکرنا اور اپنے اپنے وقت پر شرعی ترجیحات کے مطابق ان حقوق کو اداکرنا کل تعلیمات اسلام کا اور کل انبیاء کی حیات مقدسہ کا خلاصہ ہے۔چنانچہ مسلمانوں میں سے جو کوئی کسی ایک حق کی طرف زیادہ جھک کردوسرے حقوق سے بے اعتنائی برتے گا وہ سنت رسول اﷲ ﷺسے دوری کا رویہ اختیارکرے گااور اچھا مسلمان ثابت نہ ہوسکے گا۔انسانی کوتاہیوں کے باعث اگر کہیں افراط وتفریط کا شکار ہو جانے کی صورت میں کتاب عظیم کا کوئی صفحہ مغفرت کے وعدے سے خالی نہیں ہے تب کثرت سے استغفار کا رویہ اختیارکرنا اوراصل دین کی طرف پلٹ آنافطرت آدم علیہ السلام ہے اور ڈھٹائی سے اپنے غلط موقف ہر ڈٹے رہنا ابلیس کا وطیرہ ہے،العیاذ باﷲ۔
جواب دیں