ہند سعودی تعلقات ؛ امیدیں اور خدشات

موجودہ شاہ سلمان بھی ولی عہد کی حیثیت سے ۲۰۱۲ میں ایک بار ہندستان آچکے ہیں ۔ لیکن یہ تینوں دورے یو پی اے حکومت کے دوران ہوئے ، اب نو مہینوں سے ملک میں یرقانی سنگھ پریوار کی حکومت ہے جس نے اسرائیل امریکہ اور چین تینوں کے ساتھ ہندستان کے تعلقات کو اس درجے میں پہنچا دیا ہے جس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں ۔ دوسری طرف مصر و لیبیا ، یمن و سیریا اور غزہ و لبنان کے ہنگامہ خیز اور غیر یقینی حالات بھی خطے کے مختلف ممالک کے باہمی تعلقات کو متاثر کرنے کے وافر امکانات رکھتے ہیں ۔ ایسے میں ہندستان صہیونی مقتدرہ کا سب سے بڑا حلیف و معاون بن چکا ہے لیکن خطے کے طاقتور عرب ممالک ، مصر کے فرعونوں کی حمایت کرنے اور اخوان ا لمسلمین کو دہشت گرد قرار دینے کے باوجود اسرائیل سے علانیہ دوستی کا جو کھم نہیں اٹھا سکتے ۔ تو کیا ہندستان اور سعودی عرب ان حالات میں اپنے تعلقات کو موجودہ سطح پر بر قرار رکھ سکیں گے ؟ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے ؛ ’’نہیں ‘‘ اگرچہ کنگ سلمان نے کہا ہے کہ وہ مرحوم کنگ عبد ا للہ کی وضع کردہ پالیسیوں کو بر قرار رکھیں گے لیکن مستقبل کنگ سلمان اور وزیر اعظم مودی ، دونوں کو اپنی اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ سعودی عرب کی نئی لیبر پالیسی اور غزہ و لبنان کے حالات ، ہند سعودی تعلقات کی تزویری تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ 
ہندستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ ، جس میں سے آٹھ سو سال تو کسی نہ کسی شکل میں حکمرانی کی تاریخ ہے اور دنیا میں انڈونیشیا کے بعد سب سے بڑی مسلم آبادی ، یہ دونوں چیزیں ہندستان کی خارجہ پالیسی برائے مسلم دنیا کے لیے کلیدی عنصر کی حیثیت کی حامل ہیں ۔ مستقبل میں حالات خواہ کوئی بھی کروٹ لیں ، ہند سعودی عرب ،ترکی اور ایران ان پر اثر انداز ضرور ہون گے اور سب کچھ امریکہ اسرائیل اور چین کی مرضی پر منحصر نہیں ہوگا ۔ 
دوسرے یہ کہ ،حماس ، حزب ا للہ اور اخوان ، نیز ، غزہ ، لبنان اور ایران ہی مستقبل کی تاریخ رقم کریں گے ۔ تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ظلم آج بظاہر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، آخری ہنسی ’’انصاف ‘‘ کی ہوگی اور انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو گا ۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے