اسلام مطلب،امن ، رحم، سلامتی، بھائی چارہ اور خیرخواہی مگر۔۔۔

اس کا مفہوم توجہ طلب ہے۔ اگر ٹھیک سے غور نہیں کیا تو ایک بار پھر پڑھئے اور غور کیجئے۔ اطاعت کرنے والا اور گردن جھکانے والامظلوم تو ہوسکتا ہے مگر ظالم نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ظالم کی گردن ہمیشہ فخر وغرور سے تنی ہوتی ہے ۔ اس کا سر جھکا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اٹھا ہوا ہوتا ہے۔ مسلم وہ ہوتا ہے جس نے اللہ کی غلامی کا پٹہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہو اور خود کو اس کے احکام کا تابع بنا چکا ہو۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس سے کسی کی جان لینے کا کام سرزد ہو؟ جان دینا اور جان لینا تو اللہ کا کام ہے۔ جبار اور قہار اللہ کے صفاتی نام ہیں اور ان صفات کا حامل اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔جبر اور قہر کی صفات مومن و مسلم میں کیسے ہوسکتی ہیں جو اللہ کے لئے مخصوص ہیں؟ مسلمان، ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، خونی کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، فسادی کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تخریب کار کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تمام باتیں اسلام وایمان کے منافی ہیں۔
امن وسلامتی کا پیغام،سلام
جب مسلمان ملتے ہیں تو انھیں حکم ہے کہ آپس میں سلام کریں۔ قرآن میں فرشتوں کی تحیت بھی یہی بتائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں سلام کو رائج کرو۔ کسی کو پہچانو یا نہ پہچانو، اسے سلام کرو۔ محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ آپ نے سلام کو بتایا۔ سلام کے لئے جو الفاظ مقرر کئے گئے ہیں وہ ہیں’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہہ‘‘ جس کا مفہوم ہے کہ تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں وبرکتیں ہوں۔گویا ملتے ہی اس خواہش اور دعا کا اظہار کہ میں تمہاری سلامتی اور بھلائی کا چاہنے والا ہوں۔ تم میری جانب سے امن وسلامتی سمجھو ، کوئی اور تمہارا برا چاہے، اسے میں برداشت نہیں کرونگا۔ سلام کے جواب میں دوسرا شخص بھی اسی قسم کے الفاظ دہراتا
ہے ۔ گویا ایک طرف سے امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا اور دوسری جانب سے بھی اسی قسم کے پیغام کا اعادہ کیا گیا۔ امن وامان کے ان پیغاموں کا تبادلہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ تم پر امن ماحول میں رہو ، اچھے رہو، خوش رہو اور تمہارے متعلقین، رشتہ دار واحباب کی طرف سے بھی کوئی ایسی خبر نہ سنائی دے جو تمہیں رنجیدہ کرنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ سلامتی صرف اسی ایک شخص کے سلامت رہنے سے نہیں آسکتی بلکہ ان سبھوں کے ساتھ بھی لازم ہونی چاہئے، جن کی بے سکونی آدمی کے لئے بے چینی کا سبب بن جائے۔ 
سلام کے الفاظ اسلامی معاشرے کی پہچان ہیں اور اِن سے عموماًوہ لوگ بھی واقف ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔گویا سلامتی اور نیک خواہشات کے الفاظ ہی سے ہماری پہچان بننی چاہئے مگر افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے برعکس بنتی جارہی ہے۔ ان دنوں ہم امن سے نہیں بدامنی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہم سلامتی سے نہیں تشدد اور تخریب کاری کی شناخت سے جانے جاتے ہیں۔
کیا ہم مسلمان ہیں؟
رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس قولِ رسول کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہم میں کتنے لوگ ہیں جو مسلمان کہے جانے کے حقدار ہیں۔ہماری اذیتوں سے نہ ہمارے گھر اور محلے والے محفوظ ہیں، نہ پڑوسی اور رشتہ دار بچتے ہیں۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے: 
’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کردیا۔،،(کشف المحجوب،صفحہ ۲۳۰)
یعنی خود کو سلامت رکھنا اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی ، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر صوفیہ خاص طور پر دھیان دیتے تھے، کیونکہ یہی باتیں اسلام کی روح ہیں اور قرآن واحادیث کی تعلیمات کا حاصل ہیں۔
یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
پڑوسیوں کے لئے امن وسلامتی کی خواہش
قرآن کریم میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ پڑوسی مسلمان ہوسکتا ہے اور غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے ساتھ مذہبی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا ہے۔امن وامان کے پیامبر صوفیہ کرام کی تعلیمات اور اعمال میں اس قبیل کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور ان کا یہی حسن عمل تھا کہ اسلام کی دنیا بھر میں اشاعت ہوئی۔ حضرت احمد بن حرب رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی گزرے ہیں ان کا ایک واقعہ تذکرۃ الاولیاء میں درج ہے کہ انکے پڑوس میں ایک پارسی رہتا تھا، جس کا نام بہرام تھا ۔ ایک بار بہرام کا مالِ تجارت ڈاکووں نے لوٹ لیا تو حضرت احمد بن حرب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کی
دلجوئی کے لئے گئے۔ بہرام آپ کی آمد سے بہت خوش ہوا اور آپکی باتیں سن کر کہنے لگا کہ اس معاملے میں تین شکر کرتا ہوں۔ ایک تو اس بات کا کہ ڈاکو میرا مال لوٹ کر لے گئے لیکن میں نے کسی کا مال نہیں لوٹا ۔دوسرے اس بات کا کہ وہ آدھا مال لے گئے اور آدھا باقی ہے ۔ تیسرے اس بات کا کہ وہ دنیا لوٹ کر لے گئے مگر میرا دین محفوظ ہے۔ حضرت احمد بن حرب نے اس کی معقول باتیں سن کر اپنے دوستوں سے فرمایا کہ اس بات کو لکھ لو مجھے بہرام سے آشنائی کی بو آتی ہے۔پھر کچھ سوال و جواب کے بعد بہرام کے ایمان لانے کی بات درج ہے۔ 
اللہ رحیم ہے اور رحمت چاہتا ہے 
اسلام اپنے نام کی طرح امن وامان کا مذہب ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کے سامنے جس خدا کا تصور پیش کرتا ہے، وہ رحیم وکریم ہے۔ وہ غفار وستار ہے اور رحمٰن ورؤف ہے۔ ان ناموں کی صفات کے لحاظ سے احساس ہوتا ہے کہ وہ مہربانی کرنے والا ہے۔ وہ کرم اور بخشش کرنے والا ہے اور بدامنی وتشدد ،بے رحمی اور ظلم کو پسند نہیں کرتا۔یہی سبب ہے کہ جن لوگوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھا، اللہ ورسول کے احکام کو اپنی زندگی میں اتارا ،انھوں نے انسان ہی نہیں جانوروں کے ساتھ بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا اور آج جو لوگ اسلام کی آدھی ادھوری تعلیم پارہے ہیں، وہ اللہ کی زمین کو فتنہ وفساد کا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔حدیث میں ہے: 
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ،ایک شخص سفر میں جارہا تھا کہ اسے راستے میں سخت پیاس لگی ،اسے قریب ہی ایک کنواں نظر آیا ،جب کنویں سے پانی پی کر چلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے پڑا ہے ۔اسے خیال آیا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی ۔وہ واپس گیا ،منہ میں پانی بھرکر اس کے پاس آیا اور اسے پلا دیا ، اللہ تعالیٰ نے محض اسی رحم کی بدولت اس کے گناہوں کو معاف کردیا ۔،،
(مکاشفۃ القلوب ،باب ۔۱۸)
آج جس قدر انرجی کا استعمال فتنہ وفساد پھیلانے میں کیا جارہا ہے اگر اسی قوت کے ساتھ اسلام کے پیام امن کو عام کیا جاتا،مہربانی اور رواداری کا عملی سبق دیا جاتا اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روبرو کرایا جاتا تو دنیا اسلام کی گرویدہ ہوچکی ہوتی۔ اسلام جس رحم وکرم کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال ہندوستان کے مشہور عالم دین و صوفی حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے۔آپ نے اپنے والدشاہ عبد الرحیم علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ایک دفعہ اکبرآباد میں میں بارش ہوئی اور ہواؤں کے موسم میں سوار ہوکرجارہاتھا۔ دیکھا کہ راستے میں ایک جگہ کتے کا پلاّ دلدل میں ڈوب رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اس کی دردناک آواز سے میرا دل بھر آیا۔ میں نے خادم سے کہاکہ جلدی جاؤ اور اس پلّے کو باہر نکالو۔ اس نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انکار کیا ۔ میں جلدی جلدی گھوڑے سے اترا، کپڑے اوپرچڑھائے اور پانی میں اترنے کے لئے آگے بڑھا۔ خادم نے جب یہ صورتحال دیکھی تو چار وناچار وہ خود آگے بڑھااور پلے کو باہر نکال لایا۔ قریب ہی ایک حمام تھا وہاں سے گرم پانی لے کر میں نے اس کونہلایا، طباخی سے روٹی اور شوربا لے کر اسے خوب کھلایا۔ پھر میں نے کہا یہ کتا اس محلے کا ہے، اگر اس محلے والے اس کی خبر گیری کا ذمہ اٹھائیں تو بہتر ورنہ ہم اس کو اپنے محلے میں لے جائیں گے۔طباخی نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی، چنانچہ یہ کتا اس کے حوالے کر کے
میں رخصت ہوگیا۔‘‘
(انفاس العارفین،صفحہ۱۱۸ )
انسان خود انسان کی عزت وآبرو کو نہیں سمجھ رہا ہے، ایسے میں وہ کسی جانور اور وہ بھی ذلیل ترین جانور کی آبرو کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ اسلام تو رحم وکرم کا ہی نام ہے۔ مہربانی اور رحم دلی کا ہی نام ہے۔ یہاں تخریب کاری اور تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی یہی صورت دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔ یہی حقیقی اسلام ہے۔ یہی صوفیہ اور اللہ والوں کے کردار وعمل میں نظر آتا ہے۔ یہاں نفرت نہیں محبت ہے۔ یہاں تشدد نہیں اخوت ہے۔ یہاں بدامنی نہیں ،امن وامان ہے۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے