عام آدمی پارٹی کو جِتانا قومی و سیاسی ضرورت

خوشی کے دن آنے کا نام نہیں لیتے اس کے برعکس بھگوا برگیڈ رات دن بگولہ چھوڑ رہا ہے اور شعلے بھڑکا رہا ہے اور چاروں طرف سے عجیب عجیب وحشیانہ جنگلی آوازیں آرہی ہیں۔ لو جہاد کا ناٹک چلا، گھر واپسی کا ہنگا مہ کھڑا ہوا، زیادہ بچے پیدا کرنے اور بھگوا حکومت برقرار رکھنے کے نعرے دیے گئے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ دھمکیاں، گالیاں دی گئیں۔ وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان تمام ناعاقبت اندیشیوں پر ملک کے چوکیدار صاحب نے چُپّی سادھ لی کہ گرد و غبار خود ہی بیٹھ جائے۔ لیکن یہ خاموشی کار گر ثابت نہ ہوئی۔ ابھی تک اجلے دن نہیں آئے ابھی تک صرف سیاہ راتیں ہی پر باندھے چلی آرہی ہیں اور ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئی ہیں۔
ایسا خوف محسوس ہو رہا ہے کہ بر وقت ملک کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان کی بھانت بھانت کی بولیاں، انتہا پسندانہ رویے اور غیر منطقی عزائم ملک کے امن و استقرار کے لیے زبردست خطرہ بن سکتے ہیں۔ نفرت پھیلانے، فساد کرانے اور ڈرانے دھمکانے کے نتائج آخر کیا ہو سکتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر خطرناک علامتیں تو اس وقت ظاہر ہو رہی ہیں۔ جب یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ملک کی سیکولر پہچان کو ختم کر دیا جائے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنایا جائے۔ ملک کے دستور سے چھیڑ چھاڑ اور اس کی اصل پہچان کو ختم کرنے کا مطالبہ انتہائی تنگ نظری اور ناعاقبت اندیشی کی بات ہے۔ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا سیدھا سادھا مطلب تو یہی ہوا نا کہ یہاں دوسرے مذاہب دوسری تہذیبوں اور ان کے ماننے والوں کے لیے گنجائش نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے ذہن و دماغ جن کے اندر یہ غیر منطقی اور مجنونانہ باتیں اپجتی ہیں وہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ کیا جنگل کی مخلوقات سے ان کا تعلق ہے یا پاگل خانوں سے بھاگ کر آئے ہیں۔ انھوں نے ایسی باتوں کا مطلب کبھی سوچا بھی ہے یا نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے جنونی بھڑکیں گے پھر کس کس کو لگام لگائیں۔ اس لیے اس فتنے پر چُپّی سادھ کر جناب چوکیدار صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ جنون اور جنونیوں کی مجنونانہ حرکت پر چپّی سے یہ مثل صادق آتی ہے۔ [کسی کی جان جائے اور تمہای ادا ٹھہری]۔
پورا ملک آئے دن جنونیوں کی مجنونانہ حرکتوں سے اضطراب میں مبتلا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب ملک کو ان کی نظر بد لگ جائے اور ملک کا امن و قانون تہس نہس ہوجائے۔ لوگ اضطراب کے شکار ہیں اور یاس کی کیفیت بھی ان پر طاری ہونے لگی ہے اور ملک کے چوکیدار صاحب ہیں کہ چُپّی سادھے گونگی گڑیا ہی بنے ہوئے ہیں اور مون دھارن بھی کیے ہوئے ہیں اور ابھی تک صرف جیت کا ہنی مون ہی منائے جا رہے ہیں اور صرف جیت کی بکھان کر رہے ہیں۔ ملک کی قیادت و حکمرانی کی باگ ڈور کیا ملی ہے جیسے بچوں کو کھلونا مل گیا ہے اب انھیں کھلونوں کے کھیلنے کے سوا دیگر کسی شے سے مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ دھیرے دھیرے بلائیں اکٹھا ہوتی جا رہی ہیں۔ فرقہ پرستی و نفرت کا ماحول مسلسل بنایا جا رہا ہے۔ بھانت بھانت خوفناک بولیاں بولی جارہی ہیں۔ انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار ہو رہا ہے۔ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ فسادات کے پنڈار بکس کھولے جارہے ہیں اور ان پر قد غن لگانے والا کوئی نہیں۔ ملک کی سب سے اہم ضرورت فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے اور ملک کی سب سے بڑی ضرورت اس کی سیکولر پہچان ہے۔ اگر سیکولر پہچان کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بر قرار رہے تو ملک سب کچھ حاصل کر سکتا ہے اور اگر یہی بنیادی ضرورت پوری نہ ہو تو سب کچھ کیا دھرا بیکار جا سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ملک کی شناخت بھی ہے بنیادی ضرورت بھی ہے بنیادی حقوق کی بحالی بھی ہے ترقی کی اساس بھی ہے لاء اینڈ آرڈر کا قیام بھی ہے ملکی سیاست کے ڈیڑھ سوسال کا تجربہ بھی ہے کہ ملک کا سب سے حساس مسئلہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی ہے۔اسی حساس مسئلے کو حل نہ کرنے کا نتیجہ تقسیم ہند ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مسئلہ صرف اور صرف اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کو ماحول فراہم کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت ملک کی علاقائی و ملکی سلامتی کو ضرورت ہے، ملک کے قبائلی باشندوں کو ذات برادریوں کو ضرورت ہے مذہبی کلٹ اور فرقوں کو ضرورت ہے، علاقائیت پرستی کو ضرورت ہے جو لوگ فرقہ پرستی کی باتیں کرتے ہیں وہ جنونی صرف اقلیتوں کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کے لیے اقلیتیں مصیبت ہیں ان کو زنجیر پہنا دو بس سب خیر ہی خیر ہے۔ آنند کے ساتھ ملک پر راج کرو۔ لیکن یہ احمق یہ بھول جاتے ہیں کہ بزعم خویش اقلیتوں سے چھٹکارا پانے کے بعد ان کا رویہ کیا ہوگا۔ ان کی خونخوارانہ رویہ انھیں نچلا تھوڑی بیٹھنے دے گی۔ یہ علاقائی مذہبی ذات برادری اور قبائلی فرقہ پرستی کی ایسی آگ بھڑکائیں گے کہ خود جل کر راکھ ہو جائیں گے اور ملک کو تباہ کر دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ ملک کے چوکیدار کیا ان حقائق پر کبھی غور کرنے کے لیے وقت پاتے ہیں کہ صرف جیت کے نشے ہی میں ابھی تک گرفتار ہیں۔ شاید ان کے بس کا نہیں ہے کہ اس حساس نقطے پر غور کر سکیں کیوں کہ انھیں اس جنونی رویے کی تربیت ملی ہے جس کا مظاہرہ ان کے بھگوا ساتھی کر تے ہیں۔ وہ تو بس یہ حساب لگاتے رہتے ہیں کہ ان کی جنونی بولیوں سے ووٹروں کی تعداد کس قدر بڑھی اور ان کو حکومت کرنے کے کتنے سال مواقع مل رہے ہیں۔
بر وقت یہ میدانِ سیاست کے پہلوان ہیں اور ریاست پر ریاست ان کی جھولی میں گرتی جا رہی ہے۔ ان کے بڑھتے قدم کو کوئی سیاسی پارٹی روک نہیں پا رہی ہے۔ کانگریس اپنی موقع پرستی، ہٹ دھرمی، کرپشن اور قیادت کی نااہلی کے سبب زیرو ہو گئی ہے۔ دوسری قومی اور علاقائی پارٹیاں پٹ چکی ہیں جنتا دل کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیاں اپناں چارم کھو چکی ہیں۔ یہ کب اپنی ناکامیوں کی دلدل سے نکلیں گی کچھ پتہ نہیں۔ بر وقت دہلی کا صوبائی الیکشن عام آدمی پارٹی اور بھگوا پارٹی بھاجپا کے درمیان معرکۂ کارزار بنا ہے۔ دہلی میں بھاجپا کے لیے کسوٹی رکھی جاچکی ہے کہ ان کو پرکھ کر دہلی کی عوام بتا دے کہ وہ کہاں کھڑے اور ملک کو کہاں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اس وقت بھاجپا حکومت کے کھوکھلے پن، وعدہ خلافی، بدعنوانی، جمود اور عوام کو بے خبر رکھ کر اندر ہی اندر کھچڑی پکانے کی پالیسی اور من مانی کا رویہ اختیار اپنانے کی سزا دلی الیکشن میں مل سکتی ہے۔ سیکولرزم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھنگ کرنے کا حساب لیا جا سکتا ہے اور انارکی کی طرف اس کے بڑھتے قدم کو روکا جا سکتا ہے۔ اس وقت ان کے سارے جرائم کا حساب کتاب لینے کے لیے خم ٹھونک کر ان کے سامنے عام آدمی پارٹی کھڑی ہے اس وقت اس کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کی سیکولر پہچان کی حفاظت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی کے لیے عوام اور سیاسی پارٹیاں سب مل کر عام آدمی پارٹی کے ساتھ کھڑی ہو جائیں۔ اس وقت ملک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ اگر فرقہ پرستوں کو لگام نہیں لگایا گیا تو ملک کے باشندوں کو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ بھگوا رچوکیدار اور اس کے ساتھی اس خطرناکی کو محسوس نہیں کرتے۔ دیگر سیاسی پارٹیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں اور تھکی ہاری ہمت کھوئے بیٹھی ہیں۔ اس وقت ملک کی امن پسند عوام شائستہ مہذب تعلیم یافتہ حضرات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سیکولرشناخت کو دل و جان سے چاہنے والے لوگ عام آدمی پارٹی پر نگاہیں ٹکائے بیٹھے ہیں۔اگر عام آدمی پارٹی دلی کا الیکشن جیت لیتی ہے تو یہ جیت فرقہ پرستوں کی شرارت کی سزا بھی ہوگی۔ اور ملک کے سارے سیکولر پسند حوصلہ پاکر آگے بڑھیں گے اور ملک کو بہت بڑے انتہا پسندی کے بحران سے نکالنے کے لیے متحد ہوں گے۔
ملک کی سیکولر سیاست کو بدعنوان سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے ان کی ابن الوقتی مفاد پرستی اور کم فہمی نے ایک فاشسٹ پارٹی کو آگے نکل جانے کا موقع دیا ہے۔ سماج واد کے نام پر سیاست کرنے والے کوتاہ قد کوتاہ اندیش اپنی گلیوں سے باہر نکل نہ سکے اور جب ان کو موقع ملا خود لڑکر تباہ ہو گئے۔ کمیونزم ایک فیل اور ناکام نظام ثابت ہوا لہذا کمیونسٹ پارٹی کی اہمیت ختم ہوگئی۔ کانگریس نے موقع پرستی بدعنوانی اور نااہلی کا ایسا ثبوت دیا کہ پورے ملک میں مسترد ٹھہری۔ اس وقت لے دے کے میدا ن میں سیکولر شناخت اور صات ستھرے شبیہ کے ساتھ میدان میں عام آدمی پارٹی ہے اس کو میاب کرنا ملک کی سیکولر شناخت کو بچانا ہے اور ملک کو تاریکی کی طرف جانے سے تباہی کی کھڈ میں گرنے سے بچانا ہے۔ اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو تحفظ دینا ہے۔
دلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو جتانا وقت کی سب سے بڑی قومی و ملکی و سیاسی ضرورت ہے یہ جیت ملک کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ ملک کے تمام باشندوں کے لیے یہ جیت امید کی ایک کرن بن سکتی ہے اس وقت اس عام آدمی پارٹی کی امید کی کرن کی ضرورت ہے بیدی کرن کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت خصوصا مسلمان اس جیت میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ انھیں جس پارٹی سے محبت یا لگاؤ ہو تھوڑی دیر کے لیے سوچیں اور اپنے ووٹوں کو تقسیم کرکے فرقہ پرستوں انتہا پسندوں اور فسادیوں کو جتا کر اپنی محبت کو رسوا نہ کریں۔ بروقت عام آدمی پارٹی کو جتائیں ملک بچائیں اور بعد میں اپنی محبت کو پروان چڑھائیں۔ اس وقت سیاسی نسبتوں علاقائی ذاتی ذات برادری کی ووٹنگ کو الگ رکھ دیں اور صرف یہ دیکھیں کہ ایک مرد میدان فرقہ پرستی کو چت کرنے کا دم خم رکھتا ہے اس کا ساتھ دیں اور ملک کو فرقہ پرستی کے جہنم میں جھونکنے سے بچائیں۔ اس وقت فرقہ پرستوں انتہاپسندوں کے قدم کو روکنا نہ صرف عام آدمی پارٹی کا بھلا ہے بلکہ اس کی جیت ساری سیکولر پارٹیوں کو زندہ کرنا ہے۔ ملک میں انصاف پسندوں کمزوروں مجبوروں غریبوں سب کو حوصلہ دینا ہے اور بکھری ہوئی سیکولر طاقتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے نیوتہ دینا ہے۔ اس وقت عام آدمی پارٹی کو جتانا پورے ملک میں ایک نئی لہر اٹھانا نیا امنگ پیدا کرنا ہے۔ سوتے ہوئے لوگوں کو جگانا صاف ستھرے لوگوں کو آگے بڑھانا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہر ووٹر آنکھ کھول کر دیکھے ۔ ذاتی رنجشوں کو چھوڑے کسی کے بہکاوے میں نہ آئے۔ اس وقت قومی پیمانے کی سوچ بنانے اور اصول پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رنجشیں اور شکایتیں بعد میں کرلیں اور ان کا بھگتان بعد میں ہولے۔ بروقت سب بڑا وقتی مسئلہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی، ملکی سیکولر شناخت کا تحفظ اور سیاست میں شفافیت۔ یہ تینوں مسائل ملک کی ترقی اور فلاح بہبود کے لیے اساس ہیں۔ اور انھیں اس وقت سب سے زیادہ عام آدمی پارٹی سمجھتی ہے اور انھیں کو پامال کرنے پر بھاجپا تُلی ہوئی ہے۔ اس کروسیل معرکے میں دونوں پارٹیاں میدان میں ہیں۔ اس وقت ہر ہندوستانی کے اوپر لازم ہے کہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے عام آدمی پارٹی کی حمایت کرے۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے