بجز ترے کوئی موضوع گفتگو ہی نہیں


مسٹر اوبامہ کے پروگرام میں کہیں سے کہیں تک یہ نہیں تھا کہ وہ ہندوستان کی نئی حکومت کی خفیہ پالیسیوں پر اظہار خیال کریں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے لئے پوری تیاری کرکے آئے تھے انہوں نے 15 منٹ اس کے لئے وقف کردیئے کہ وہ مودی حکومت کو یہ بتادیں کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ملک کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لے جائے گا انہوں نے امریکہ کی مثال دے کر سمجھایا کہ ہندوستان اور امریکہ میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ہندوستان میں بھی دستور کی دفعہ 25 وحدت میں کثرت کا پیغام دیتی ہے۔ انہوں نے دل کی بات کہنے میں تکلف نہیں کیا اور صاف اشارہ کیا کہ حکومت بھٹک گئی ہے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ مذہب کی تبدیلی کی کوشش اور گھر واپسی یا سیکولرازم سے انحراف ہر بات سے واقف ہوکر آئے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم نے تو منھ پر ٹیپ لگالیا اس لئے کہ ایک طرف ان کے وہ دوست براک اوبامہ ہیں جن کی دوستی پر انہیں فخر ہے اور دوسری طرف ان کے وہ گرو اور وہ تنظیم ہے جس کی بنا پر انہوں نے اپنی شریک زندگی کو 50 برس سے تنہائی کے عذاب میں مبتلا رکھا ہے اور صرف نامزدگی کے فارم کے ایک خانہ میں بیوی کے اعتراف کے علاوہ کوئی حق ادا نہیں کیا لیکن پورا ملک حیران رہ گیا جب سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے صاف صاف الفاظ میں امریکی صدر کی نصیحت کی تائید کردی۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ کسی پر بھی ظلم یا اس کی مخالفت اس بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے کہ اس کا لباس اور اس کی عبادت کا طریقہ الگ ہے یا ان کی روایات جداگانہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کا طرز نو بتاتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے والا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایکتا مکمل صداقت ہے اور مستقل حقیقت ہے۔ شری بھاگوت کی پوری تقریر سے صاف معلوم ہورہا تھا کہ انہوں نے شری نریندر مودی کو کشمکش سے نکال دیا اور اب ان کے اوپر اس کا دباؤ نہیں ہے کہ چور پکڑا گیا اور اس کے پاس جو میرا مال ہے وہ واپس ملنا چاہئے۔ یا گھر واپسی کی تحریک چلنا چاہئے یا ان کا ٹی وی رپورٹر سے کہنا کہ ہم سیکولرازم کو نہیں مانتے۔
دہلی کا الیکشن سر پر ہے اور مودی جی نے اس الیکشن کو بے وجہ ناک کا سوال بنا لیا ہے۔ براک اوبامہ کی تقریر پر شاید وہ اس لئے خاموش تھے کہ سنگھ کے بل پر الیکشن جیتنے والے مودی سنگھ کی سرپرستی سے محروم تھے اور جب شری موہن بھاگوت نے ہتھیار ڈال دیئے تو وزیر داخلہ بول پڑے اور انہوں نے مسٹر اوبامہ کے بیان کو افسوسناک قرار دے کر کہا کہ حکومت سیکولرازم میںیقین رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہندوستان میں گھر واپسی جیسے پروگراموں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان باتوں سے نمنٹنے کے لئے پرعزم ہے جو لوگوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں۔ ہوسکتا ہے وزیر داخلہ بھول گئے ہوں لیکن ہمیں یاد ہے کہ شری موہن بھاگوت نے مسٹر گڈکری کو بی جے پی کا صدر یہ کہہ کر بنایا تھا کہ دہلی والوں میں کوئی اس قابل نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دستور میں ترمیم کردی جائے اور دوسری بار بھی گڈکری ہی صدر بنیں گے۔ لیکن گڈکری صاحب ایسی بھونڈی بدعنوانیوں میں پکڑے گئے جیسے الزام اب کجریوال پر لگ رہے ہیں گڈکری صاحب نے کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے درجنوں کمپنیاں کھول رکھی تھیں جن کے ڈائرکٹر ان کا ڈرائیور ان کا دھوبی گھر میں جھاڑو لگانے والا اور نہ جانے کون کون تھا اور اس سے بڑی بے ایمانی یہ تھی کہ کمپنیوں کے دفتروں کے پتے جو لکھے تھے وہاں کوئی نہ کمپنی کا نام جانتا تھا نہ مسٹر گڈکری کا اس کے باوجود بھاگوت صاحب ان ہی کو پھر صدر بنانا چاہتے تھے لیکن مکھی ہوتی تو نگل لیتے مرغی سالم کیسے نگلتے؟ مجبوراً انہیں تجویز واپس لینا پڑی پھر راج ناتھ سنگھ کو اس لئے بنایا کہ سنگھ کے سب سے زیادہ بھروسہ کے قابل وہی تھے۔
یہ ہے وزیر داخلہ کی مجبوری کہ موہن بھاگوت کو مودی کی دوستی کی اور امریکہ کی سرپرستی کی وجہ سے وہ کہنا پڑا جو انہوں نے کبھی نہیں کہا لیکن اس ڈر سے کہ سنگھی ناراض نہ ہوجائیں۔ راج ناتھ سنگھ سے وہ کہلا دیا جو وزیر اعظم کو کہنا تھا۔ رہی سیکولرازم کی بات تو پوسٹر سے اسے کیوں ہٹایا گیا؟ یا جسٹس کنڈو رپورٹ کو سرد خانہ میں صرف اس لئے کیوں ڈالا گیا کہ صرف مسلمانوں سے متعلق ہے؟ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو بند کرنے کی دھمکی کیوں دی گئی؟
آج شری راج ناتھ سنگھ جس کرسی پر بیٹھے ہیں اس پر سب سے پہلے سردار پٹیل بیٹھے تھے اور مسلمانوں کو ان سے اس لئے نفرت ہے کہ صرف ان کی ہی وجہ سے آج مسلمان سرکاری نوکری سے محروم ہیں کہتے ہیں کہ چند سال کے بعد وہ سرکلر واپس لے لیا گیا تھا لیکن کمان سے تیر نکلنے کے بعد واپس نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد پنڈت پنت اس کرسی پر بیٹھے جنہوں نے بابری مسجد میں راتوں رات مورتیاں رکھوائی تھیں اور جن کے بیٹے کے سی پنت آخرکار بی جے پی میں شامل ہو ہی گئے۔ اسی کرسی پر شری ایل کے اڈوانی بھی بیٹھ چکے ہیں اور چھ سال تک انہوں نے ہر دن یہ کہا کہ سیکولرازم کے بغیر کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی وہ سیکولرازم ایسے ہی کہتے رہے جیسے اب راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے لیکن سیکولرازم کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کے لئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسے نہ اڈوانی جی نے کیا اور نہ راج ناتھ سنگھ کریں گے۔ رہا زبان سے کہنا تو اس میں کیا جاتا ہے؟ چھ برس اڈوانی جی کہتے رہے اور اب وہ کہیں گے جو اُن کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔
امریکی صدر براک اوبامہ کے دو سال اور رہ گئے ہیں مودی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ان دو برسوں میں ہندوستان کو اتنا دے جائیں کہ 2022 ء میں جب ان کے خواب میں ہر غریب کے سر پر پکی چھت ہوجائے تو اس میں بجلی بھی جلے ہوسکتا ہے اوبامہ ہندوستان کو کچھ دینے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ہر ہندوستانی کے لئے پکا مکان ایک ایسی بات ہے جو اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہندوستانی ایماندار نہ ہوجائے۔ جس ہندوستان میں آدھی بجلی چوری ہوجاتی ہو آدھی سڑک پولیس کرایہ پر اٹھا دیتی ہو آدھے مسافر بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوں ہر وزیر اور ہر ایم پی باتھ روم میں بھی اے سی لگاتا ہو اور جس ملک کا وزیر اعظم ساڑھے سات لاکھ کا کوٹ پہنتا ہو ایک درزی دن بھر جس کے کپڑے سیتا ہے جس کے پاس اتنی پگڑیاں ہوں جتنی جے للتا کے پاس ساڑیاں تھیں۔ اس ملک میں ہر آدمی کو کچا مکان مل جائے تو یہ بھی ایک کارنامہ ہوگا۔ آج ہر پارٹی ہر غریب کو پکا مکان دے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے امریکہ سے بنے بنائے مکان آجائیں اور سب کو بانٹ دیئے جائیں لیکن ان کے لئے زمین کہاں سے آئے گی؟ پہلے اس کا نقشہ تو بن جانا چاہئے۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے