وعدے اور ارادے

شری مودی نے جمنا کو ماں جمنا تو نہیں کہا نہ خالہ کہا لیکن یہ کہا کہ میں نے عہد کیا ہے کہ میں جمناجی کو پاک صاف کروں گا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں یہ بھی کہا کہ میں گدی پر بیٹھنے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کام کرنے آیا ہوں اور میں دہلی کی گلی گلی میں آپ کے ساتھ کام کروں گا۔
وزیر اعظم کی تقریر میں جتنے جملے ہیں وہ رٹے ہوئے ہیں اور ہر جگہ الیکشن سے پہلے ان ہی کو دہرا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کجریوال کا نام لئے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ان کی شان کے خلاف تھا ان کا یہ کہنا کہ پیٹھ میں خنجر مارنے والے کو ووٹ نہیں دینا چاہئے اور نہ آنکھوں میں دھول جھونکنے والے اور جھوٹے وعدے کرنے والے کو۔ انہوں نے اور بھی ایسی باتیں کہیں جو ایک وزیر اعظم کے منھ سے اچھی نہیں لگیں اس لئے کہ اروند کجریوال کی عمر چاہے جتنی ہو اُن کی پارٹی کی عمر چاہے جتنی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ 2013 ء کے الیکشن میں دوسرے نمبر کی پارٹی وہی تھی اور اس وقت شری مودی صرف کجریوال سے مقابلہ کررہے ہیں اور اتنے خوفزدہ ہیں کہ جو انہوں نے نہ لوک سبھا کے الیکشن میں کیا نہ اس کے بعد اسمبلی کے تین الیکشنوں میں کیا وہ اس الیکشن میں کررہے ہیں اور وہ کررہے ہیں جو ان کی فطرت کے بھی خلاف ہے اور عادت کے بھی۔
اگر ہم یہ کہیں کہ شری مودی نے انتخابی منشور بھی کجریوال کے ڈر سے نہیں شائع کیا تو شاید غلط نہ ہو اس لئے کہ ابھی قدم قدم پر انہیں لوک سبھا کے منشور کا جواب دیتے نہیں بن رہا ہے اس لئے انہوں نے زبانی وعدے بھی نہیں کئے بس ایک بات رٹے جارہے ہیں کہ جو لوگ جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں انہیں 2022 ء تک پکے مکان بنا کر دیئے جائیں گے۔ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ گذرے ہوئے آٹھ مہینوں میں کسی مکان کی بنیاد کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی اور نہ 2021 ء تک رکھنے کا ارادہ ہے جو کچھ ہوگا وہ 2022 ء میں ہوگا اور کیسے ہوگا اسے کوئی معلوم نہ کرے۔ دہلی کی کتنی جھگی جھونپڑیوں پر ان آٹھ مہینوں میں بلڈوزر چلے ان کا حساب مسٹر کجریوال کی زبان کی نوک پر رکھا ہے لیکن پکے مکان کی گنتی کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ملک کے وزیر اعظم کو کوئی جھوٹا کہے لیکن کیا کہا جائے کہ وہ صرف جھوٹے وعدوں پر حکومت کررہے ہیں۔ جیسے کالا دھن کی خبر غلط نکلی تو اس کا ذکر نہ کرنا چاہئے ڈیزل اور پٹرول کے دام کم ہونے کو اپنا کارنامہ کیوں بتا رہے ہیں؟ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ یا انہوں نے آٹھ مہینے پہلے کہا تھا کہ ایک سال کے بعد لوک سبھا میں ایک بھی ممبر داغی نظر نہیں آئے گا سب جیل میں ہوں گے۔ اور ممبر تو کیا جیل میں جائے شری امت شاہ کو حکمراں پارٹی کا صدر بنا دیا گیا جن کے دامن کے دونوں طرف داغ ہی داغ ہیں۔ رہی یہ کاریگری کہ داغوں پر روغن کردیا گیا تو جو جتنا بڑا داغی ہوتا ہے وہ داغوں کو چھپانے میں اتنا ہی بڑا ماہر ہوتا ہے اور امت شاہ کے داغ مٹانے کے لئے تو دنیا کی دوسری سب سے بڑی حکومت ہے وہ چاہے تو فرشتہ ثابت کرسکتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں نے وعدے اور ارادے کی سرخی لگائی اور شری مودی نے جو کہا اسے ارادے کہہ کر ہلکا کردیا۔ ارادے کے اوپر ایک واقعہ یاد آیا جسے لطیفہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہم جب پریس کا سارا کام دیکھتے تھے اس زمانہ میں خواجہ ٹریولس کے مالک مقصود حسن خاں عرف للی آئے۔ احترام اور محبت میں ہمیں چچا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ کہنے لگے ہم نے ڈیلی سروس نینی تال کے لئے شروع کی ہے چار بجے صبح کو کارٹن ہوٹل سے بس نینی تال جائے گی اور رات کو دس بجے واپس آجائے گی اس کا ایک پوسٹر بنا دیجئے۔ ہم نے پوری تفصیل لکھ دی کرایہ آمد و رفت بھی لکھ دیا اور ان کو دیا، کہنے لگے سنا دیجئے۔ ہم نے پورا پوسٹر سنا دیا کہنے لگے چچا اس میں وہ تو لکھا ہی نہیں۔ ارادے روز بنتے ہیں ارادے ٹوٹ جاتے ہیں وہی اجمیر جاتے ہیں جنہیں خواجہ بلاتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ للی میاں بس تو نینی تال جاری ہے۔ اگر اجمیر جارہی ہوتی تو یہ شعر لکھنا ٹھیک تھا۔ کہنے لگے چچا یہ شعر ہمارا ٹریڈ مارک ہے اور ہماری ہر چیز پر لکھا جاتا ہے۔
اصل میں منصور حسن پہلے مینا ٹرانسپورٹ میں ڈرائیور تھے اپنی محنت سے یا خدا کے کرم سے ایک گاڑی لے لی پھر تو گاڑی چل پڑی اور کئی ٹرک اور کئی بسیں چلنے لگیں اور للی سے منصور علی خاں للی ہوگئے۔ لیکن تعلیم کے نام سے صفر تھے اس لئے ٹڑیڈ مارک اس شعر کو بنالیا۔
مسٹر کجریوال نے ایک سال میں سیاسی لوگوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اسی لئے لال بتی کی گاڑی سرکار کے مہنگے مکان اور بے ضرورت گارڈ رکھنے سے پرہیز کا وعدہ کیا ہے۔ اب تک بی جے پی کی کوشش یہ تھی کہ یہ شہرت دے دیں کہ شری انا ہزارے کو کرن بیدی نے دھوکہ نہیں دیا کجریوال نے دھوکہ دیا ہے۔ لیکن شری ہزارے نے بی جے پی پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور کجریوال کے متعلق کہا کہ بس وہی بی جے پی کو ہلا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ آٹھ مہینے میں بی جے پی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اب اس کے خلاف آندولن کروں گا۔ کرن بیدی سے شری مودی جو فائدے اٹھانا چاہ رہے تھے ہر دن اس میں انہیں مایوسی ہوتی جارہی ہے لیکن اب بات اتنی دور نکل چکی ہے کہ واپسی کے راستے بند ہوگئے ہیں۔ شری مودی نے یہ کام عقل مندی کا کیا ہے کہ آخر میں چار ریلی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اب اگر جیت جاتے ہیں تو وہ چار ریلیوں کے نام لکھی جائے گی اور اگر ہار جاتے ہیں تو امت شاہ اور دہلی کی صوبائی پارٹی ذمہ دار ہوگی۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کا انتظام کرلیا ہے۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے