کیاکالا دھن صرف چھلاوا ہے یا سیاسی کرسی پر قابض ہونے کا ہتھکنڈہ؟؟؟

آج ہندوستانی سیاست کا نیا محاورہ ہے کالا دھن۔ یہ دھن بھلے ہی کالاہے مگر اس سے جڑاخواب سب کے لئے سترنگی ہے۔ عوام اس امید میں ہے کہ کالے دھن کے آنے کے ساتھ ہی چاروں جانب خوشحالی آئے گی۔ہر ایک کے اکاؤنٹ میں پندرہ سے پچیس لاکھ روپئے آئینگے۔لوک سبھا میں ہوئی بحث پر کانگریس کے لیڈر ملک ارجن کھڑگے نے تو سیدھے سیدھے برسراقتدارحکومت سے پوچھ لیا کہ میرے 15لاکھ روپے کہاں ہیں جو آپ نے میرے کھاتے میں ڈالنے کا وعدہ کیا تھا؟ حکمراں جماعت کے پاس کالے دھن کی شکل میں لالی پاپ ہے جسے دکھا کربآسانی ووٹ بینک حاصل کی جاسکتی ہے، اپوزیشن اس بات پرخوش ہے کہ ایشوز کے فقدان کے اس دور میں اس کے پاس یہی ایک ہتھیار ہے جس کے سہارے وہ مدمخالف کے مضبوط قلعہ پر حملہ بول سکتی ہے۔بہر حال کالے دھن کی اس سترنگی کہانی میں کئی رنگ ہیں۔ ایک رنگ انتخاب سے پہلے، دوسرا رنگ انتخاب کے دوران اورتیسرا رنگ پارلیمنٹ کے اندر۔
سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی رقوم ملک کے اقتصادی نظام میں مضمر کرپشن، بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور کاروباری اور تجارتی معاملات میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی ’’ڈیل‘‘ کا شاخسانہ ہے، جس نے ملکی اقتصادی نظام کے استحکام اور انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیئے ہے۔ جن سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس نے اتنی دولت وہاں کے بینکوں میں چھپا کر رکھی ہے ،وہ اس بات کی دلیل ہے کہ قومی وقار، مروت، حیا، قوم پرستانہ جذبات اور ملکی ترقی و عوامی خوشحالی کے اہداف سے ان طبقات کا کوئی تعلق نہیں، یہ اہل زر اسیرِ حرص ہیں۔کانگریس کے دور اقتدار میں ودیشی بینکوں میں کالا دھن جمع ہوتاہے،بی جے پی حکومت سو دن میں کالادھن واپس لانے کا دعویٰ کرتی ہے۔مگر دونوں طرف سے صرف عوام کا استحصال ہی ہوتارہاہے اور ہورہاہے۔یہ میں نہیں کہتابلکہ تاریخی وزمینی حقائق بیان کرتے ہیں۔
کالادھن پر چیخ وپکار کرنے والوں کی خاموشی صاف بتارہی ہے کہ ان کی یہ تمام تحریکیں اپنے کالا دھن او رغیر قانونی کاروبار کو بچانے کے لئے تھی، ملک او رعوام کے لئے بالکل نہیں ۔وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوچکے ہیں اس لیے کہ اب شاید ہی حکومت کے ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچ پائیں۔ اس لئے کالے دھن جیسے بے بنیاد اور ڈھکوسلے مدے پر سوال اٹھانابے معنی ہے۔
گذشتہ دنوں میں سوئیزر لینڈ میں کچھ مقامی قوانین میں ترمیم کردی گئی، جس کے بعد حکومت کیلئے وہاں اکاؤنٹس رکھنے والے افراد کے نام اور دیگر تفصیلات وغیرہ سے آگاہی حاصل کرنا آسان ہوگیا۔ مگراب حکومت عدالت میں بھی کالا دھن جمع رکھنے والے افراد کے نام تک ظاہر کرنے کو تیار نہیں اور وہ سابقہ روایتی وجوہات بیان کرتے ہوئے خود کو اس مسئلہ سے الگ تھلگ رکھنا چاہتی ہے۔ ایسے میں جو وعدے کئے گئے تھے کالا دھن واپس لانے کیلئے وہ سب برف دان کی نذر ہوگئے ہیں اور کسی عملی کارروائی کے آغاز کیلئے حکومت بھی تیار نہیں ہے۔ اس بے بنیاد مدے کی حقیقت اس وقت واضح ہوگئی جب حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے سینئر قانون داں اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے کہا کہ اگر یہ نام حکومت کی جانب سے ظاہر کردیئے گئے تو اسے بیرونی ملکوں میں اپنے ان ذرائع کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کے توسط سے یہ نام اسے مل رہے ہیں۔ یہ وہی عذر اور بہانہ ہے جو اب تک کی حکومتیں عدالتوں میں اور عوام کے سامنے پیش کرتی آئی ہیں۔موجودہ حکمرانوں نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔حتی کہ حکومت عدالت میں بھی بے نامی کھاتے رکھنے والے افراد کے نام تک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں بیرونی ممالک میں رکھے گئے کالے دھن کو واپس لانے کی امید کرنا فضول نظر آتا ہے۔
ظاہر ہے بلیک منی بھارت سرکار نے اپنی تجوریوں میں تونہیں چھپارکھی ہے،ورنہ اسے آسانی سے باہر نکال پھینکاجاسکتاتھا،لیکن وہ تو جمع ہے بیرونی ممالک میں۔ بیرونی حکومتیں اور بینک بھارتی حکومت کی ملازم تو ہے نہیں کہ انڈین گورنمنٹ کا حکم ملتے ہی اکاؤنٹ ہولڈرس کے نام ظاہر کردیں۔کالے دھن کو چھپاکر رکھنے سے انہیں جو فائدے ہوتے ہیں ان سے وہ اپنے آپ کو کیاصرف اس لیے محروم کردیں کہ کچھ دوسرے ملکوں کی خواہش پوری ہوجائے؟ ٹیکس چوری صرف بھارت ہی میں نہیں ہوتی،اس سبب سے اور بھی گورنمنٹس پریشان ہیں۔ اس لیے وزیراعظم نریندر مودی صاحب کی التجا کوجی ٹوئنٹی میں سبھی رکن ممالک نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اب وہ آپس میں ایسااتحاد کریں گے جس کے سبب سبھی کھاتوں کی جانکاریاں وہ ایک دوسرے کو دے سکیں گے۔یہ کام اگلے دوتین سال میں پوراہوجائے گا۔ظاہر ہے کہ تب کالے دھن کو بینکوں میں چھپاکررکھنالگ بھگ ناممکن ہوجائے گا۔جیساکہ بھارت کے اپنے بینکوں میں ہمارے لوگ اپناکالادھن نہیں چھپاتے ہیں،ویسے ہی دوسرے ملکوں میں چھپاناپسند نہیں کریں گے۔لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے سارا کالا دھن پکڑاجاسکے گا؟کالادھن اکٹھاکرنے کارواج بند ہوجائے گا؟ کیاپتوں پر تیزاب ڈالنے سے جڑیں سوکھ سکتی ہیں؟اگر جڑوں کواکھاڑناہے تو تیزاب جڑوں ہی میں ڈالنا ہوگا ۔ بلیک منی کی پیدائش ہی نہ ہو،اس بارے میں حکومت کو کوئی پلاننگ تیارکرناہوگی۔اگر کالادھن پیداہوگاتو وہ خود اپنے ہی ملک میں دندنائے گا۔بیرونی ممالک سے اگر کالے دھن کی واپسی ہوگی تو کتنی ہوگی؟مٹکے میں صرف چُلو بھر!صرف اک چُلو بھر کالے دھن کو پکڑنے کے لیے ساری طاقت خرچ کرنا اور کالے دھن کے مٹکے کا منہ کھلارکھنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟بیرونی ممالک میں کالا دھن چھپانے والوں کو ہم نادان سمجھ بیٹھے ہیں کیا؟کہ اتنے شوروغل کے باوجود انہوں نے اپنے دھن کو انہی بینکوں میں سوتے رہنے دیاہوگا۔حکومت یاتو کالے دھن کے مٹکے کوہی پھوڑ نے کاارادہ کرے یاانکم ٹیکس ہی ختم کردے!چُلوبھر کالے دھن کے لیے الُوبننے سے کیافائدہ ہے؟
آخر میں اپنے دعوے کی دلیل میں ایک مضبوط کیل ڈھونکناچاہتاہوں۔بھارت میں انٹرٹینمنٹ پرتیس فی صد ٹیکس ہے،حال ہی میں ایک فلم نے تین سو کروڑ سے زیادہ کابزنس کیا ہے،تیس فی صد کے اعتبار سے حکومتی خزانے میں نوّے کروڑ کااضافہ ہواہے،پیٹرول کی قیمت تیس سے چالیس روپئے پر بیرل ہے جبکہ قیمت ستّر روپئے لیٹر،مالیگاؤں جیسے چھوٹے شہر میں روزآنہ پیٹرول کی لاگت کئی سولیٹر ہیں،یعنی کئی لاکھ روپئے روزآنہ حکومت پیٹرول پرٹیکس وصول کررہی ہیں،2014ء میں تعلیمی کمیشن کے مطابق یوپی میں سب سے زیادہ جھوٹی یونی ورسٹیاں ہیں،جس میں پروفیسرس کی تعداد سینکڑوں میں ہیں،ایک پروفیسر کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار سے زائد ہے،یعنی کہ ہر مہینے کئی کروڑ روپئے غیر موجود پروفیسرس کی تنخواہوں پر خرچ ہورہے ہیں۔اس طرح کی کئی ایسی باتوں کو پیش کیاجاسکتاہے جوکھوکھلے نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہیں اور ان کی بنیادیں بھی مستحکم ہیں۔
عرض یہی کرناچاہوں گا کہ بے روزگاری ختم کرو،مہنگائی پر روک لگاؤ، دیش میں پنپتے ہوئے کالے دھن پر پابندی عائد کی جائے ،رشوت خوری کے گرم بازار کو سرد کیاجائے اوران منصوبوں کی تحقیق وتفتیش کی جائیں جو صرف کاغذات پر موجود ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ تحقیقات آن پیپر نہ ہوبلکہ آن دی اسپاٹ ہو۔ یہ کالا دھن صرف چھلاوا ہے۔ یہ نہ توکسی ایک سے آیا اور نہ ہی اسے کوئی ایک لا پائے گا۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے