انٹرویو کا پوسٹ مارٹم

اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ ریٹائرڈ پولیس افسر کرن بیدی کو اس طرح چاندی کے تخت پر بٹھاکر کیوں لایا گیا جیسے وہ دہلی کے ہر شہری کی جھانسی کی رانی ہیں؟ جبکہ وہ جب تک پولیس میں رہیں ہر پولیس والے کی طرح ہر شہری کی نفرت کا نشانہ رہیں۔ یہ بات شاید مودی صاحب اور امت شاہ کو معلوم نہ ہو کہ پولیس والوں سے یا نیتا کی دوستی ہوتی ہے یا جرائم پیشہ مخبر کی مشکل سے کوئی شریف آدمی پولیس والوں سے دوستی کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض پولیس والے پولیس میں رہتے ہوئے بھی خاندانی اثر کی بناء پر شریف ہوں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بی جے پی کا جب یہ اصول ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب الیکشن میں زیادہ سیٹیں جیتنے کے بعد ممبروں کی پسند سے کیا جائے گا تو کرن بیدی کو نریندر مودی کی طرح الیکشن سے پہلے وزیر اعلیٰ کا امیدوار کیوں بنایا گیا؟ اور ہریانہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں کیوں کہا گیا کہ الیکشن کے بعد وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جائے گا اور کیوں ہریانہ میں غیرجاٹ اور جھارکھنڈ میں غیرآدی واسی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا؟ ان سوالوں کے جواب میں امت شاہ نے جو کچھ کہا اسے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ نے انسان کو زبان دی ہے اور آواز دی ہے لہٰذا کچھ نہیں تو مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ جیسے محاورہ کی طرح اوٹ پٹانگ کچھ بھی کہہ دیا جائے۔
دلچسپ سوال یہ تھا کہ۔ سنا ہے کہ کرن بیدی نے اپنے ورکروں اور میڈیا کو کچھ ایسے جواب دے دیئے کہ اس کا الیکشن پر برا اثر پڑنے لگا۔ لوگوں نے شکایت کی تو مودی صاحب نے انہیں حکم دے دیا کہ وہ بولنا بند کردیں۔ اب سنا ہے کہ ان کا گلا خراب ہوگیا ہے اور وہ اشاروں میں بات کرتی ہیں۔ امت شاہ نے جواب دیا کہ اگر ڈاکٹر کہہ دے کہ سات دن نہ بولئے تو کیا آپ ڈاکٹر کی بات نہیں مانیں گے؟ ہوسکتا ہے ڈاکٹر ہرش وردھن سے کرن بیدی نے نسخہ اور پرہیز لکھوا لیا ہو۔ بہرحال محسوس یہ ہورہا ہے کہ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر بیدی کو لے آئے اور وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کردیا اب وہ گلے کی ہڈی بن گئی ہیں۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ہم نے ان کی پہلی تقریر سننے کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ ان کی تقریر ایسی تھی جیسے وہ ایس پی ہیں اور ماتحت تھانیداروں کو ہدایات دے رہی ہیں۔ اسی موقع پر یہ بھی لکھا تھا کہ الیکشن کا ورکر ملازم نہیں داماد ہوتا ہے۔ امت شاہ کی سمجھ میں اب یہ بات آرہی ہے اسی لئے ان کو لانے سے جو مقامی ورکر ٹھنڈے پڑگئے تھے ان کی کمی پوری کرنے کے لئے ہر صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی ڈیوٹی لگادی ہے اور پوری فوج کھڑی کردی ہے۔
زی ٹی وی کے رپورٹر نے معلوم کیا کہ جس دہلی نے آٹھ مہینے پہلے ساتوں سیٹیں آپ کو دی ہوں آپ ان پر اعتماد نہ کرکے ان کی توہین کررہے ہیں اور اسی وجہ سے آپ باہر سے ورکر بلا رہے ہیں۔ شاہ کا جواب تھا کہ ہمارے فیصلہ سے کوئی ناراض نہیں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی نے باغی ہوکر مقابلہ پر نامزدگی نہیں کرائی ہمیں افسوس ہے کہ ہم ان سے انٹرویو نہ لے سکے اگر یہ جواب ہمیں دیتے تو ہم بتاتے کہ بغاوت اس پارٹی میں ہوتی ہے جس کے جیتنے کا یقین ہو۔ جب پرانے ورکر دیکھ رہے ہیں کہ آٹھ مہینے پہلے جتنے بھی وعدے مودی صاحب نے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا اور ہر غریب اور بے علم آدمی رسوئی گیس کے لئے مہینوں سے چکر کاٹ رہا ہے اور اچھے دن آنے کے بجائے برے دن دیکھ رہا ہے۔ امت شاہ نے صرف ایک سبق یاد کرلیا ہے کہ ہم نے آٹھ مہینے میں 11 مرتبہ تیل کے دام کم کئے کیا کبھی کانگریس نے کئے؟ اور یہ نہیں سوچتے کہ دہلی میں اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے امت شاہ جب تیل کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں اس لئے کہ سب کو معلوم ہے کہ دنیا کے بڑے ملکوں میں کچے تیل کے دام گرگئے تو ہر جگہ تیل سستا ہوگیا۔
زی ٹی وی کے رپورٹر نے جب شاہ سے معلوم کیا کہ جب سب کچھ ٹھیک ہے ورکر ناراض بھی نہیں ہیں کرن بیدی کے انتخاب پر سب کو خوشی ہے تو پھر صوبوں کے وزیر اعلیٰ کو، 120 ممبران پارلیمنٹ کو، موہن بھاگوت کو اور مرکزی وزیروں کو کیوں جمع کررہے ہیں؟ تو شاہ کا جواب تھا کہ ہم دہلی میں 60 سیٹیں جیتنا چاہتے ہیں دو تہائی سے کم پر ہم تیار نہیں ہیں۔ رپورٹر نے معلوم کیا کہ اگر آپ مینی فیسٹو میں اعلان کردیتے کہ دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیں گے اور اپیل کرتے کہ آپ لوگ بی جے پی کو دو تہائی ممبر دے دیجئے تو قوم مان جاتی۔ یہ وہ مطالبہ ہے جو کانگریس کی پندرہ برس کی حکومت میں بی جے پی نے ہر دن کیا ہے۔ پھر آپ خود جب اس پوزیشن میں آگئے تو مینی فیسٹو میں یہ وعدے کیوں نہیں کرلیتے اور مینی فیسٹو سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟
امت شاہ کا جواب تھا مودی جی جو اپنی تقریروں میں کہہ رہے ہیں اور ہم جو اپنی تقریروں میں کہہ رہے ہیں اور کرن بیدی صاحبہ جو کچھ کہہ رہی ہیں وہی ہمارا مینی فیسٹو ہے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ مینی فیسٹو چھپا ہوا ہو۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ بی جے پی دہلی کو پوری ریاست کا درجہ نہیں دینا چاہتی اور نہ بجلی پانی کے بارے میں کوئی وعدہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہش یہ ہے کہ بس دہلی میں اس کی حکومت ہو اور کوئی اس سے یہ نہ معلوم کرے کہ اندھیرا کیوں ہے اور دہلی پیاسی کیوں ہے؟ شری مودی لوک سبھا کے مینی فیسٹو سے ہی پریشان ہیں اب کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے کہ لوگ گریبان پکڑیں۔
شری مودی نے یہ سوچ کر اوبامہ کو بلایا تھا کہ پورا ملک ان کی جے جے کار کرنے لگے گا براک اوبامہ آئے تو بے شک سب کو خوشی ہوئی لیکن چلتے وقت وہ ایسی نصیحت کرگئے جو نہ موہن بھاگوت کے حلق سے اُتری اور نہ اشوک سنگھل، توگڑیا، ساکشی اور ان کے حلق سے اُتری جو گوڈسے کا مندر بنا رہے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ گوڈسے کا سیتا پور یا میرٹھ سے کیا تعلق؟ وہ جہاں کا رہنے والا تھا اور جہاں اسے تربیت دی گئی تھی وہاں بی جے پی کی حکومت بھی ہے وہاں کیوں نہ رام مندر سے بھی بڑا مندر بنالیتے اور کیوں نہ پٹیل کی لوہے کی مورتی کے مقابلہ میں 100 میٹر اونچی چاندی کی مورتی بنا لیتے؟ دہلی میں حکومت کس کی بنے یہ تو خدا جانے لیکن دہلی نے شری مودی کی قلعی اُتاردی اور دس سال کا خواب دیکھنے والے مودی کو آٹھ مہینے میں ہی ایک عام سا وزیر اعظم بنا دیا۔ اب نہ جھاڑو ہے اور نہ گود میں گاؤں کے لینے کی باتیں۔ اس لئے کہ اب وہ دس لاکھ روپئے کا کوٹ پہننے لگے ہیں۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے