مسلم اقلیت کے شام وسحر کیوں کر تبدیل ہوسکتے ہیں؟

لیکن حالات ناسازگار ہوں تو مایوسی جھلاہٹ اور نری جذباتیت سے کام چلتا نہیں بلکہ ان کو بدلنے کی تگ ودو بھی نہ ہو تو حالات مزید خراب ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔ معمولی پریشانی یا انفرادی مسائل ہوں تو اجتماعی تعاون سے اسے دور کیا جاسکتا ہے مگر معاملہ پوری قوم یا ملت سے وابستہ ہوتو تعاون سے کہیں زیادہ کوشش اور جدوجہد کی ضرورت پیش آتی ہے اور صرف جدوجہد ہی نہیں اس کے لئے صحیح سمت اور درست راہ اختیار کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔
آزادی کے بعد کے ۶۷برسوں کی طویل مدت سے ہندوستان کی مسلم سیاست ملت کے مسائل حل کرنے کا عزم کئے مستقبل کی طرف گامزن ہے لیکن آج تک اسے منزل مقصود تک پہونچنا نصیب نہ ہوا، حالانکہ چھ دہائیوں پر مشتمل یہ مدت معمولی نہیں ہوتی، اس عرصہ میں دنیا کتنے انقلابات سے دوچار ہوچکی ہے، خاکی انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں، قومیت کے رنگوں میں علاقائیت کے گدلے رنگ کی آمیزش ہوگئی، دنیا نے نت نئے فلسفے اور تصور تخلیق کرلئے، ملکوں کی سا لمیت میں شگاف پڑگئے، تاریخ اور مذہب کے بعد اخلاق کی مسلمہ روایتیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں، تاہم مسلم اقلیت پر اس سارے عمل کا کوئی ردعمل نظر نہیں آتا، زمانے کے حوادث اور تبدیلیوں کا اس پر بظاہر کوئی اثر نمودار نہیں ہوا، اس کی ضرورتیں، اس کی تکالیف ، اس کے مسائل اور اس کے غور وفکر کے پیمانے وہی ہیں جو ۶۔۷ دہائی قبل تھے، جبکہ اس کے ارد گرد کی فضا اور ماحول میں زمین وآسمان کا فرق ہوگیا ہے، پس منظر تو کجا پیش منظر اور قریب ترین مناظر تک میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں، لیکن مسلمانوں کے اپنے حالات بالکل غیر متاثر اور غیر متحرک نظر آتے ہیں۔ آج بھی ان کے مطالبات تقریباً وہی ہیں جو ایک صدی قبل تھے یعنی ایک زبان جس کے ذریعہ وہ اپنی ذہانت وقابلیت کے جوہر دکھاسکیں ، ایک تہذیب جو ان کی شناخت قائم رکھ سکے، ایک یونیورسٹی جو ان کی تعلیم وتعلم کا بوجھ اٹھاسکے، سرکاری نوکریاں جن میں تناسب کی گارنٹی ہو، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی بدعملی، بے حسی اور کم نگہی کس طرح دور ہو اس بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں، سب چاہتے ہیں کہ اردو زبان پھلے پھولے، مذہب وتہذیب کا تحفظ ہو اور ملازمتوں میں حصہ ملتا رہے مگر خود مسلمانوں کو کچھ نہ کرنا پڑے۔ جبکہ موجودہ حالات میں یہ دن بدن ناممکن نہیں تو محال ضرور ہوتا جارہا ہے۔ 
سوچنے کے اس انداز ، کام کرنے کے اس طریقے سے مستقبل میں کام چلنے والا نہیں آگے مسلم قوم کو زندہ رہنا یا کچھ کرکے دکھانا ہے تو اسے میر کارواں بننے کے بجائے محنت کش بننا پڑے گا، الفاظ وجذبات کا دریا بہانے کے بجائے عمل کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا، دوست ودشمنوں کے پہچاننے کے پرانے پیمایوں کو بدلنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر دوسروں کے ذریعہ تحفظ کی خواہش کے بجائے خود اقدامیت سے کام لینا پڑے گا تبھی مسلم اقلیت کے شام وسحر تبدیل ہوسکتے ہیں۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے