دہلی چناؤ عوام اور مسلمان

ایک سیاسی گروہ اپنی پندرہ سالہ حکومت کی کارکردگی پیش کررہا ہے وہ عام آدی سے جڑے مسائل کی بات کرکے اپنی ساکھ بچانے کی کوشش میں ہے ۔ جن مسائل سے کبھی سروکار نہیں تھا اس چناؤ میں اسے عوام کی وہ پریشانیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں ۔ اس نے اپنے انتخابی منشور میں 200یونٹ تک بجلی ڈیڑھ روپے میں اس سے زیادہ کے استعمال پر سلیب میں پچاس فیصد ریٹ کم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ پانی کے بل میں سیور جارج ساٹھ سے گھٹا کر 30فیصد کرنے ، آنگن واڑی کارکنوں کو چار کی جگہ چھ ہزار ماہانہ دینے ، طلبہ کی طرح بزرگوں کو رعایتی ڈی ٹی سی پاس جاری کرنے ، بزرگوں کو دو ہزار روپے پینشن دینے ، چار سال عارضی ملازمت کرنے والوں کو مستقل کرنے ، کالجوں میں 85فیصد سیٹیں دہلی کے طلباء کے لئے مختص کرنے ،بیس نئے کالج 150اسکول کھولنے ، آئی ٹی آئی و پالیے ٹینکنیک میں دو شفٹیں چلانی ، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی حفاظت کیلئے سی سی ٹی وی کیمرے لگانے جیسے وعدے کئے گئے ہیں ۔ گوکہ اسے منشور کا پہلا حصہ بتایا گیا ہے دوسرے حصہ میں کچھ اور طبقوں کی بہتری کی بات ہوسکتی ہے ۔ اس گروہ نے روایتی طور پر چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ دہلی کی گیا رہ اسمبلی سیٹوں پر 20فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں ۔ہر بار کی طرح اس گروہ نے پارٹی اور ٹکٹ دینے میں ان طبقات کی نمائندگی کو نظر انداز کیا ہے جو اسے اقتدار تک پہچانے میں معاون رہے ہیں ۔
دوسرا گروہ زیادہ سے زیادہ صوبوں میں اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے یہ ایک نظریاتی تنظیم کا سیاسی گروہ ہے تنظیم نے ملک بھر میں اپنے نظریہ کی بنیاد پر کیڈر تیار کیا ہے جو اس کے عزائم اور منصوبوں کو بروئے کار لانے میں مدد کرتا ہے اسے اپنے مقصد کو سادھنے کیلئے اقتدار چاہئے اور اس کے مہربان پونجی پتیوں کو منافع ۔ اس نے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے مہربانوں کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا ۔اس وقت ڈیژل و پیٹرول کی کمائی سے ان کی جیبیں بھری جا رہی ہیں جبکہ یہ وقت کھیتی کیلئے اہم ہے اور ڈیژل و پیٹرول سستا ہونا چاہئے ۔اس کی کھتنی کرنی میں بہت فرق ہے جانکاروں کا ماننا ہے کہ یہ کب کیا رخ اختیار کریگا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔یہ گروہ اپنی منزل کو حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹ سکتا ہے طبقہ واریت یا علاقائیت کی بنیاد پر نفرت پھیلا سکتا ہے خوف و حراس پیدا کر سکتا ہے ۔ ترقی و روزگار اور لوگوں کی حالت بہتر بنانے کا خواب دکھا سکتا ہے ۔ کامیابی حاصل کرنے کیلئے یہ کوئی بھی وعدہ کر سکتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کامیاب ہونے والے سے کوئی سوال نہیں کرتا ۔اس کی سوچ و نظریہ سے ملک کا بڑا طبقہ اتفاق نہیں رکھتا یہ مسلمانوں کا ساتھ اور ان کا ووٹ تو ضرور چاہتا ہے لیکن انہیں کسی بھی سطح پر نمائندگی دینے کے نام پر خاموش رہتا ہے ۔اس میں دہلی کی 70سیٹوں میں سے صرف ایک پر مسلمان امید وار اتارا ہے ۔
اس پارٹی نے ابھی تک دلی کا مینی فیسٹو جاری نہیں کیا البتہ ایسا مانا جارہا ہے کہ دس جنوری کی رال لیلا میدان کی ریلی میں جو مدے اٹھائے گئے تھے وہ مینی فیسٹو میں شامل ہوں گے ۔ ریلی کے بعد یہ گروہ دہلی میں اپنی کامیابی کو لیکر فکر مند تھا اس لئے مہاراشٹر ،ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں جو فارمولہ اپنایا گیا تھا اسے بدل کر یہاں وزیر اعلیٰ کا چہرہ پیش کیا گیا ۔وزیر اعلیٰ کے لئے جس کرن بیدی کو چنا گیا وہ گجرات دنگوں کیلئے اپنے ٹویٹ میں مودی کو کوستی رہی ہیں ۔ اب وہ کس منھ سے مودی کی تعریف کریں گی خیر یہ سیاست ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے ۔ در اصل دہلی میں اس گروہ کا جس پارٹی سے مقابلہ ہے کرن بیدی بھی اسی عوامی تحریک کا اہم حصہ رہی ہیں انہیں اس عوامی تحریک سے نکلی پارٹی کے مقابلہ کیلئے ہی میدان میں اتارا گیا ہے ۔شاید یہ گروہ اپنے موجودہ لیڈروں کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ وہ اسے دلی میں کامیابی دلا سکیں گے یا عوامی تحریک کا جواب دے سکیں گے ۔
اس عوامی تحریک کو شروع کرنے والوں میں زیادہ تر رضاکار تنظیموں ( NGO) سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل تھے جن کو کارپوریٹس اور ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں (Ford Foundationa) نے کانگریس کے خلاف عوام کے غصہ کو بھڑکانے کیلئے استعمال کیا ۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں کانگریس سے ان کے مقاصد پورے نہیں ہو پا رہے تھے وہ ایسے گروپ کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے جو ان کے لئے زیادہ کارگر طریقہ سے کا م کرسکے لیکن اس گروپ کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا اس کی تنظیم میں بکھراؤ تھا جس کی وجہ سے نہ اس میں دم تھا نہ کوئی چہرہ جسے وہ اپنا چہرہ بنانا چاہتے تھے اس پر فرقہ واریت کے داغ تھے ۔اس کی عوا م میں مقبولیت پیدا کرنے و ملک کیلئے اسے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی غرض سے ہی یہ عوامی تحریک شروع کرائی گئی تھی ۔ میڈیا نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر اس آندولن کو نہ صرف گھر گھر پہنچایا بلکہ اسے بہت سے لوگوں کی آواز بنا دیا ۔
تیسرا گروہ جیسا کہ اوپر زکر ہو چکا ہے عوامی تحریک کی پیداوار ہے لیکن اس کی سوچ اور طریقہ کار نظریاتی گروہ جیسا ہی ہے ۔ مثلا وہ اپنے ممبران و رضاکاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ضرورت کے مطابق یا بھیڑ دکھا کر عوام کو گمراہ کرنے کی غرض سے منتقل کرتا ہے 2013کے دہلی انتخاب میں اس گروہ نے پورے ملک سے پچیس ہزار افراد کو بلایا تھا جس اسمبلی حلقہ میں یہ بھیڑ ٹوپی لگا کر نکلتی وہاں کے عوام اس جن سیلاب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے اسی طرح جھوٹ اور فرضی آنکڑوں سے عوام میں بھرم پیدا کرنا وغیرہ ۔ اس گروہ نے سنگھ کی اس تنکیک کو اپنا کر بڑے بڑے دعوں ، جھوٹے وعدوں ، منفی و بے بنیاد باتوں اور دھرنوں سے عوام لوگوں میں جگہ بنا لی یہ گروہ نو جوانوں ، غریبوں ، گاؤں ، جھگی جھونپڑی میں رہنے والوں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہا کہ وہ ملک میں نئی طرح کی سیاست شروع کرنا چاہتا ہے وہ عام آدمی کو دھیان سبھا اور پارلیمنٹ میں بٹھانا چاہتا ہے ۔ کہا یہ گیا کہ ہم ستا کا سکھ بھوگنے کے لئے نہیں بلکہ دیش کے نظام کو بدلنے کے لئے سیاست میں آئے ہیں آندولن میں کسی سیاسی شخص کو آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جب یہ پارٹی بنی تو یہ اصول بدل گیا کہا یہ گیا کہ ہر پارٹی کے ایماندار لوگوں کو ہم اس نئی پارٹی میں آنے کی دعوت دیتے ہیں پارٹی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس وقت جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ سب بے ایمان اور چور ہیں ہم ایماندار ہاتھوں میں دیش کی باگ ڈور سوپنا چاہتے ہیں ’’ نعرہ لگایا گیا پہلے لڑے تھے گروں سے اب لڑیں گے چوروں سے ‘‘ 
سب سے بڑے ایماندار کی شکل میں کیجریوال کو پیش کیا گیا جو خود شخصی نظا م کے خلاف تھا وہ خود ایک ایماندار چہرے کے طور پر سامنے آگیا ۔اس گروہ نے شوشل میڈیا ، ایف ایم ، موبائل ریکارڈیڈ پیغام ، اخبار ، الیکٹرونک میڈیا اور آٹو رکشا کو تشہر کے لئے استعمال کیا ۔
یہ عام لوگوں کی پارٹی بہت جلد خاص لوگوں کی پارٹی بن گئی 2013کے دہلی انتخاب میں جن لوگوں نے اس پارٹی سے چناؤ لڑا ان میں 43فیصد کروڑ پتی تھے جن کی اوسط مالیت 1.82کروڑ روپے آنکی گئی تھی ۔گیارہ فیصد امیدواروں پر کرمنل مقدمات چل رہے تھے ۔اس چناؤ میں اس گروہ نے جن کو اپنا امیدوار بنایا ہے ان میں سے بارہ امیدواروں پر ان کے اپنے لوک پال نے اعتراض کیا ہے اور یہ مانا ہے کہ یہ ٹکٹ غلط دےئے گئے ہیں سابق کی طرح اس بار بھی اس پارٹی نے پانچ مسلمانوں کو ان علاقوں سے ٹکٹ دیا ہے جہاں مسلم ووٹوں کی اکثریت ہے اس طرح مسلمانوں پر یہ دباؤ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یا تو وہ ان کے امیدوار کو چنے ورنہ وہ سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں چلی جائے گی جن مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے وہ یا تو دوسرے امیدواروں کے مقابلہ کمزور ہیں یا پھر کرمنل ۔
دہلی اپنے طو ل ارض کے لحاظ سے چھوٹی ریاست ہے لیکن یہ علامتی طور پر بڑی اہمیت رکھتی ہے دہلی کے عوام خاص طور پر مسلمانوں کے سامنے یہ بڑا سوال ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں اور کس سے پرہیز کریں ۔ایک طرح سیکولر کہلانے والے لوگ ہیں جو ہار کے با وجود اپنی روش میں کسی طرح کا بدلاؤ کرنے کو تیار نہیں ہیں اس کے بر خلاف ان کا اپنے پالے سے دوسرے پالے میں بھاگنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ان میں وہ چہرے زیادہ ہیں جن کا قد عوام اور مسلمانوں کے کنڈھے پر چڑھ کر بلند ہوا ہے ۔دوسری طرف وہ ہیں جو اقتدار بڑھانے کی خواہش میں دیش کو کارپوریٹس کے حوالے کرنے کو بے قرار ہیں ۔ وہ ایسی چالیں چل رہے ہیں کہ جو عوام انہیں ملک کیلئے مہلک سمجھتے تھے وہ ان کے گناہوں پر پردہ ڈال کر اچھے دنوں اور ترقی کا خوش لباس پہنا رہے ہیں مسلمانوں کے تعلق سے ان کا اپنا نظریہ واضح ہے جس میں مسلمان کیا کمزوروں کے لئے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ تیسری پارٹی وہ ہے جو دہلی کے اقتدار پر قبضہ جمانے کیلئے ہر حربہ کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے پچھلے ایک سال میں گو کہ مسلمانوں کا اس کی طرف جھکاؤ بڑھا ہے لیکن یہ اپنے یہاں ان کو کوئی جگہ دینے کو تیار نہیں ہے اس کی ٹیم میں بھی کوئی مسلم چہرہ نہیں ہے نا ہی کسی مسلمان کو اس نے اپنا ترجمان بنایا ہے بلکہ یہ پارٹی مسلم مسائل پر بولنے سے بھی بچتی رہی ہے ایک سوال کے جواب میں پارٹی کے سروے سروا کیجریوال نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی بات کریں گے تو دوسرے ووٹر ہم سے ہٹ جائیں گے ۔ اس نے 1984کے سکھ مخالف فسادات پر SITبنانے و معاوضہ دینے کی مانگ تو کی لیکن مسلمانوں کے خلاف ہوئے فسادات پر ان کی زبان سے کوئی لفظ تک نہیں نکلا پارٹی میں اقلیتی شعبہ بنا کر انہوں نے اپنی ذہنیت کو واضح کردیا ہے پھر بھی مسلمان خام خیالی میں مبتلاء ہیں اس وقت بھیڑ کا حصہ بنے رہنے والی عوام اور مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر اپنا روش سے ہٹ کر اس بے لگام رتھ کو روکنے کیلئے جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ برسر اقتدار لوگوں کو غریب ،کمزور، محنت کش ، کسان ، مزدور اور بے روزگار نظر آنے لگیں اور آپ کو اپنے حق کا استعمال کرنے کے بعد پچھتانا نہ پڑے ۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے