ہم نے اپنی تاریخ کے صفحات کہاں گُم کردیئے؟

بی جے پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی انتہا پسند ہندو توا پارٹیاں آزادی کے بہت پہلے سے ہی تمام مذاہب اور فرقوں پر مشتمل کثرت میں وحدت والے ہندوستان کے تئیں مخلص نہیں تھے جو ماضی میں ان کی سرد مہری و عدم رواداری سے ظاہر ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا آزادی کے بعد سیکولر ہندوستان نے جب اپنا سفر شروع کیا تو ان ہندو تواپارٹیوں نے کسی نہ کسی شکل میں بدامنی، ہنگامہ و فسادات برپا کرکے بار بار ملک کی ترقی و خوشحالی،امن وسکون نیز یکجہتی میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کی تھیں۔ ان پارٹیوں نے جہاں بار بار ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا وہیں ہندوستان کے عیسائیوں کو امریکہ، آسٹریلیااور انگلینڈ جیسے عیسائیوں کی اکثریت والے ملکوں میں چلے جانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔
الغرض یہ کہ ہمارے دستور میں دستور سازوں اور تمام مذاہب اور فرقوں کی آزادی کی تمنا کرنے والوں نے ہندوستان کو جس سیکولر وغیر فرقہ پرست کردار کا حامل ملک بنانے کی سعی کی تھی اب مودی حکومت رفتہ رفتہ ملک کے اس کردار کو تباہ کردینا چاہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں، بی جے پی حکومت کا بھیانک فرقہ پرست چہرہ اور اس کے نوکیلے ناخن اور دانت رفتہ رفتہ باہر نکلتے جارہے ہیں۔ جس کی ایک حالیہ مثال آگرہ کے کچھ مسلمانوں کو جبراً ہندو دھرم میں لے جانا ہے۔
عزیزالحسن صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہم جب تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں تو جنگ آزادی ، تحریکِ خلافت اور ہندو مسلم اتّحاد و یکجہتی کے ایسے مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے آتے ہیں جو ہمارے اسلاف کی نکتہ رسی اور معاملہ فہمی کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ افسوس کہ ملک کی تقسیم نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا اور ان کے وہ رفقاء جو مذھباً ہندو تھے اور تحریکات آزادی میں ان کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہے تھے ملک کی آزادی کے بعد یکسر بدل گئے۔ تقسیم نے ان کے ذہن کو بھی مسموم کرکے رکھ دیا، ملک کے دستور و آئین کا ڈھانچہ تو ضرور سیکولر بنیادوں پر کھڑا ہوا مگر عمل کے وقت ہمیشہ اس کی ان دیکھی کی جاتی رہی۔ فسادات کے موقعہ پر جانبداری، حقوق کی ادائیگی میں کتر پیونت اور لین دین کے موقعوں پر دوقسم کے پیمانوں کا استعمال عام ہوگیا۔
ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے، یہاں کی اکثریت ہندو دھرم کو ماننے والی ہے اور یقینی طور سے امن پسند ہے، اہنسا اس کے مذہب میں بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنے والے، نازی ازم کو مقبول کرنے والے اور بدامنی پھیلانے والے بہت تھوڑے سے لوگ ہیں، ان کو ہندو قوم اور ہندو مذہب کا نمائندہ مان کر صرف انہیں سے بات چیت کرکے یہ سمجھ لینا کہ حق ادا ہوگیا، کام بن گیا، ہماری بہت بڑی بھول ہوگی۔ ہمیں عوام کے بیچ جانا چاہئے، ہمارا رشتہ عوام سے کٹ چکا ہے۔ ہم اپنے مدرسوں اور تنظیموں کے دائرے میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ وارث مظہری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’مسلمانوں کے تعلق سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مڈل کلاس کے مسلم دانشوروں کا طبقہ رزم گاہ حیات سے دورعافیت پسندوں پر مشتمل ہے، جب کہ مدارس کے فاضلین کی بہت بڑی تعداد زمانہ شناسی سے خالی ہے، وہ اٹھتے ہوئے طوفان کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے اور اُس پر آواز بھی بلند کرتی ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس کے راستے کو روکنے کی تدبیرکیا ہے اور اس کے حصّہ کی ذمہ داری کیا ہو سکتی ہے۔؟
آج کے حالات میں بھی جب میں مسلمانوں کو بہت پرسکون اور پر تعیش زندگی گذارتے ہوئے دیکھتاہوں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے اور سوچنے لگتاہوں کہ کیا اکیسویں صدی کا انسان اتنا بے خبر بھی ہوسکتا ہے۔ اس کواب تک یہ بات کیوں نہیں معلوم ہو سکی کہ دنیا’’گلوبل ولیج‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے۔
کیا جوان، کیا بوڑھے سب غفلت کی نیند سورہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں خود اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کی کوئی فکرہی نہیں ہے۔ مخالف طاقتیں ان کا وجود مٹانے کے درپے ہیں، ان کے عزائم کیا ہیں وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کی تیّاریاں ہیں مگر سب اپنی کھال میں مست ہیں۔ کوئی کسی سے ملنے کو تیار ہے نہ جھکنے کوتیارہے، نفسی نفسی کاعالم ہے۔ بدگمانیاں ہیں، شکوے اورشکایتیں ہیں۔ وہ طاقتیں جو ہماری اور ہمارے دین کی ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ قومی اتحاد اور یکجہتی کی بھی مخالف ہیں اور ملک کی آزادی کے بعد سے ہی آتشِ زیرپا ہیں، جنہوں نے بیرونی طاقتوں سے ہاتھ ملا رکھا ہے، سرکاری اداروں میں سیندھ لگا رکھی ہے، مسلسل سرگرم ہیں، ادھر کچھ دنوں سے ان کی سازشوں اور بداعمالیوں کا پردہ چاک ہونا شروع ہوا ہے مگر ہم نہ کچھ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ کان میں تیل ڈالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نہ مواقع کو سمجھتے ہیں نہ امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور نہ اقدام کی صلاحیت ہی رکھتے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت اور سب سے بڑی مدد اس قوم کی یہ ہوسکتی ہے کہ اس کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچالیا جائے، اس کو بے حوصلہ نہ ہونے دیا جائے۔
ملّی جماعتیں اگر ہماری سنیں تو ہم ان سے یہ کہناچاہیں گے کہ اب وہ تجاویز کے گھروندے بنانابند کریں اور ایسا پریشر گروپ تیار کریں جو حکومت کو جھکاسکے۔ ایجنڈوں، سرکلر اور تجاویز کے کھلونوں سے اب کام چلنے والا نہیں ہے، جماعت سازی اور گروہ بندی مسئلہ کا حل نہیں ہے، اخباری بیانات قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتے‘‘۔ 
شاید ایسے ہی حالات سے متاثر ہو کر بہت پہلے مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر محترم رابع حسنی ندوی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں اپنے اندر کسی قسم کے خوف کو جگہ دینے یا پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں متّحد ہو کر اپنا لائحہ عمل طے کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔
آج دنیا کا کوئی بھی ملک اس معنی میں آزاد نہیں کہ وہ من مانی کرسکے بلکہ تمام ممالک بین الاقوامی قوانین کے تحت ہی کام کرتے ہیں اور کسی بھی فرد یا جماعت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے دستور کی خلاف ورزی کرے۔ آج ہمارے لئے یہ بھی انتہائی ضرور ی ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں تک اسلام کا صحیح پیغام پہونچائیں اور ان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ ہم سبھی ایک ساتھ رہتے ہیں اسلئے ہماری مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اچھا انسانی اور اخلاقی برتاؤ کریں اور ان کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بہترین اور پُرخلوص کوششیں کریں۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے