مظفرپور کا سانحہ فساد نہیں دہشت گردی ہے

آج بھی چاک ہے گلشن میں قبا پھولوں کی 
غم میں ڈوبی ہوئی ہرشاخِ چمن آج بھی ہے
معمولی ایک غیرمسلم لڑکے کا مسلم لڑکی کے ساتھ معاشقہ کی فرضی داستان ،پھر اس تناظرمیں لڑکے کے قتل کا ڈرامہ تیار کیا گیا اور اسی کو ایشو بنا کر اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو تہہِ تیغ کر دیا گیا ،مکانات جلا کر خاکستر کر دیئے گئے،اسی پر بس نہیں بلکہ بھاری تعداد میں املاک اور جانوں کی تباہی کے دلخراش مناظر ان چنگیز صفت ،انسانیت کے دشمنوں کی حیوانیت کا وہ منہ بولتا ثبوت ہے جنہیں دیکھ کر جگر کانپ اٹھتا ہے۔ہندی میڈیا اس پورے سانحے کو فساد کا نام دے رہا ہے تا کہ ایک بڑی غنڈہ گردی کی تصویر تھوڑی ہلکی کی جا سکے ،جبکہ فساد اس کو کہتے ہیں جس میں دو طبقے کے لوگوں کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوتی ہے،گولیوں اور لاٹھیوں کی برسات ہوتی ہے،لاشوں پہ لاشیں گرتی ہیں مگریہ تو ایک طرح کی دادا گیری ہے،ہٹلری ہے،دہشت گردی ہے ۔
ٹھنڈ کے اس کپکپاتے موسم میں کھا ،پی کر اپنے اپنے گھروں میں آرام کرنے والے نہتّے ، سادہ دل مسلمانوں کو کیا پتہ تھا کہ بھارت کی مٹّی کوماں کہنے والے،اس سرزمین سے جھوٹی محبت کا دم بھرنے والے اور ماتھے پر تلک لگا کر ’’جے شری رام ‘‘کا نعرہ لگانے والے بھیڑیے ان کے آشیانوں کو پوری طرح نگل لینے کی تیاری کر رہے ہیں جو حالتِ نیند میں ان کے جسموں پر لاٹھی برسا کر ،ان کے گھروں کو جلا کراور ان کے امن وسکون کو مکدّر کر کے اجتماعی طور پر اپنی کھوکھلی بہادری کا جشن مناتے پھریں گے، برسوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کر کے وہاں کی پاک سر زمین کو مسلمانوں کے لہو سے سیراب کریں گے۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اور حسبِ روایت شروع ہوگی سیاسی چہل پہل،بہروپیوں کا زمینی شو،اخبار ی بیان بازی،ایک دوسرے پر الزام تراشی بس!…. یہی سب۔جو اخبارات اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں ۔جاری ہے معاوضہ دینے کا اعلان ،نوکری دلانے کا جھانسہ اور مظلوموں کے آنسوؤں کو خشک کرنے کے لئے نمائش کی تھیلی میں بند ہمدردی بھرا لفظوں کا رومال۔پتہ نہیںیہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟؟۔
کس کو فرصت ہے کہ چہرے کی کہا نی سمجھے
لوگ بس درد لئے آئینہ دکھا دیتے ہیں
اس صف میں وہ تنظیمیں پیچھے نہیں ہیں جومسلمانوں کی فلاح و بہبود میں خود کو سرگرمِ عمل رہنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔جن سے جڑے قدآور چہرے اپنے ایک ایک عمل پہ شب وروز قوم سے خراجِ ستائش حاصل کرنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں،جن کی آنکھوں کو سیاست کے کیل کانٹے بھلے معلوم ہوتے ہیں،جن میں اسلاف کے چھوڑے ہوئے اعلیٰ اخلاق،اخلاص وللّٰہیت کے نقوش کم اور مادّہ پرستانہ عناصر کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے ۔ ان کی بھی رفتاروگفتاراور کرداروعمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اگر نام بدل دیا جائے ،نسبت میں ترمیم ہوجائے تو یہ فرق کر پانا مشکل ہوجائے گا کہ کون سیاسی لوگ ہیں اور کون ہیں امّت کے حقیقی بہی خواہ…۔
اس قوم کے قائد کو سیاست کا نشہ ہے 
ٹوٹی ہوئی کشتی پہ سفر کون کرے گا؟
اردو اخبارات کے مطابق مظفرپور شہر سے تقریباً ۴۰ ؍کیلو میٹر دور سریا تھا نہ کے تحت عزیز پور کوٹھی میں ایک نوجوان کی لاش ملنے کے بعد شرپسندوں نے دوسرے فرقہ کے لوگوں کی بستی کو گھیر کر آگ کے حوالے کردیا۔اس منصوبہ بند حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت کی پولس نے تصدیق کی ہے اور نہ جانے کتنے لوگ رات کی تاریکی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ کر کہاں گئے انہیں زمین کھاگئی یا آسمان نگل لیا؟ انتظامیہ کے پاس اس کا کوئی معقول جواب موجود نہیں ہے ،پوری بستی میں فورس تعنیات کردیا گیا ہے ،پولس چوکی قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے لیکن بلوائی آج بھی قانون کے شکنجے سے باہرہیں۔وعدوں ارادوں کا لامتناہی کھیل جا ری ہے ۔
خدشہ ہے کہ ملک میں رونما ہونے ہولے سابقہ فسادات متأثرین کی طرح عزیز پور کے مجبورو بے بس ،لٹے پٹے مظلوم مسلمانوں کے کربناک حالات کے مناظر بھی سیاست کے شور میں کہیں گم ہوکر نہ رہ جائیں۔کچھ بعید نہیں کہ ایسا ہو کیونکہ یہی وہ ایشوز ہیں جنہیں آلہء کار بنا کر پارٹیاں سیاست کرتی ہیں ،مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرکے ان کے ووٹ بٹور تی ہیں جبکہ انصاف کے حصول میں عدالت کا چکّر کاٹ کاٹ کر مظلوموں کے تلوے گھس جا تے ہیں ان حالات کے پیشِ نظر قوم کے جو درد مند افراد حضرات حکومت اور قانون کی دوغلی پالیسی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر تے انہیں ٹارگیٹ کر کے ہمیشہ کے لئے ان کی صدائیں دبا دی جاتی ہیں تا کہ پھر کوئی حق کی آواز کولے کر اٹھنے والا حسّاس انسان اپنی زبان کو حرکت دینے سے قبل ہی انجام کے خوف سے تھرّا کر رہ جائے۔
ہندوستانی تاریخ کے یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن سے کوئی بھی ملک کا امن پسند باشندہ انکار نہیں کر سکتا ہے ،سچ تو یہ ہے کہ ملکِ عزیز کی آبیاری میں اپنا سب کچھ لٹا کر بھی آج تک مسلمانوں کو وہ سکون میسّر حاصل نہیں ہوسکا جس کے وہ حقدار تھے،انہیں ہراساں کرنے کے لئے،ترقی کے دھارے سے دور کرنے کے لئے، ان کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک سے تاریک کرنے کیلئے ملک دشمن عناصر تنظیمیں کھلے عام طرح طرح کی سازشیں کرتی آرہی ہیں لیکن المیہ یہ ہے آج بھی ان کے حیوانی رقص کو روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی خاطرخواہ مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں،اور ہم خاموشی سے اپنی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں’’ جب کہ کسی بھی قوم کی بزدلی کی اس بڑی کوئی اور علامت ہو ہی نہیں سکتی ہے کہ زخم کھاکر جان بچانا تو دور حرکت تک کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو‘‘ ۔یہی وجہ ہے کہ دنبدن ان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں،احساسِ شیطنت سے ان کے ان کے افکارو خیالات میں مزید مسلم دشمنی کے وائرس پھیلتے جا رہے ہیں۔ایسے پر آشوب حالات میں بھی اگر ہم مسلمانوں کے بحرِ انتشار میں تموّج پیدا نہ ہوا ،ہماری خوابیدہ طبیعت بے چین نہ ہوئی ،ہم نے زندہ دلی کا ثبوت پیش نہ کیا تو یاد رکھئے عزیز پور ،مظفر نگر اور گجرات جیسی روح فرساں داستانیں دہرائی جاتی رہیں گی۔

«
»

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

یومِ جمہوریہ کے موقع پر آئین کے منافی حرکت!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے