سنگا پور میں بزنس اور فنانس کی تعلیم پانے والے ایک نوجوان نے پوچھا عرب دنیا اس قدر پریشانیوں میں گرفتار کیوں ہے؟ اس سوال پر میرا برجستہ کہنا تھا اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس نوجوان کے تمام ساتھی جن کی عمریں بیس برس کے لگ بھگ تھیں سب اس مشکل سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے۔ میں نے کہا اس صورت حال کی مختلف وجوہات ہیں۔ لیکن میری دانست میں عرب دنیا کو کبھی بھی ٹیک آف کا موقع نہیں مل سکا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب لیگ کے قیام سے ایک امید کی کرن سامنے آئی تھی۔ لیگ نے بہتر مستقبل کی تعمیر اور خطہ عرب میں عوام کی بہتری کے لیے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم مغربی استعمارسے پھر عرب دنیا کو ایک بڑا دھچکا انیس صد اڑتالیس میں صہیونی ریاست کے قیام کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ یوں علاقے میں اسرائیل کو امریکا نے ایک کانٹے کی طرح ابھار دیا۔ اس سے زیادہ خطرناکی عرب ممالک کی نا اہلی بنی ہم نے نے اپنے لوگوں کو اپنی توانائیاں جمع رکھنے اور خوشحالی کے لیے رہنمائی دینے میں کوتاہی برتی۔
بعد ازاں انیس صد سڑسٹھ میں عرب اسرائیل جنگ مں عرب دنیا کو نیچا دیکھنا پڑا، اندرونی جھگڑوں اور رقابتوں کے علاوہ حکومتی تبدیلیاں، بد انتظامیاں، آمریت ، عوام پر سختیوں اور خود ساختہ حکمرانوں کی وجہ سے عرب دنیا بدحالی و پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گری رہی۔ پھر عراق کی چڑھائی ہو گئی۔ یہ عملا عربوں کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ کمزور، نوکر شاہی کی ماری ہوئی اور کرپشن میں پھنسی ہوئی ان ریاستوں میں فرسٹریشن کا اہم سبب ہیں ، انہی کی وجہ سے خطے کے لوگوں میں غصہ اور ناراضگی ہے ۔ عزت نفس اور وقار کی قدرے بحالی کے لیے تیونس اور مصر میں تحریکیں شروع ہوئیں۔ اسے عرب بہاری کا نام دیا گیا ۔ بد قسمتی سے اس عرب بہاری کو کچھ مفاد پرست عناصر نے اپنے کنٹرول میں کر لیا، جیسا کہ مصر کے معاملے میں ہوا۔
شام میں عظمت کے گھمنڈ کا شکار آمر بھی عوام کی بے چینی کی وجوہات کوختم کرنے پر تیار ہے، نہ نوشتہ دیوار پڑھنے کو اور نہ ہی عوام پر ڈالے گئے بوجھ کو کم کرنے پر تیار ہیں۔ ایسے حکمران کے فیصلوں کی وجہ سے زاروں افراد کی زندگیاں موت کے گھاٹ اتر گئی ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ جو جب چاہیں قتل کرتی ہیں۔ دوسری جانب عراق ہے۔ اسے امریکی مداخلت کے بعد مسلسل خانہ جنگی کا سامنا ہے۔ یہی حال یمن اور عرب دنیا کے دیگر ملکوں کا ہے۔ عملا عرب خطہ ایک جنگی علاقہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں محض اپنے لیے سوچنے والے کھلاڑیوں کا حصہ بہر حال زیادہ ہے۔
میں نے نوجوانوں کے اس گروپ کو بتایا یہ تاریخ کا دہرایا جانا نہیں ہے۔ لیکن ماضی کی ایک جھلک ضرور ہے، اگر ہم نے اس کو سمجھ لیا تو ممکن ہے ہم بہتر حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی روک تھام کر سکیں۔ ہم اپنے اندر موجود اپنے دشمنوں سے نمٹ سکیں اور باہر کی طاقتوں کے منفی مقاصد ارادوں اور مفادات کی مزاحمت کر سکیں۔ لیکن ہمارے حکرا ن اس سب کچھ کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان حکمرانوں نے نوجوانوں کی ضروریات کو نظر انداز کر رکھا ہے، ان کے اور نوجوانوں کے اہداف میں فرق ہے۔ خواہ یہ فوجی حکمران ہوں یا چند سری حکومتیں ہوں۔ ان کی سوچ سے نوجوانوں کی سوچ مختلف ہے۔
سابق امریکی صدر جا ن ایف کینیڈی نے کہا تھا جو لوگ پر امن تبدیلی اور انقلاب کی کوششوں کو ناکام بنادیتے ہیں ان کے لیے پر تشدد انقلاب سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے جو ہمارا خطہ دیکھ رہا ہے ہے۔ اقتدار میں رہنے والوں اور ان کے درمیان لڑائیاں ہیں جو تبدیلی چاہتے ہیں، آج عرب دنیا میں مذہبی انتہا پسندی ،
دہشت گردی اور بے یقینی ان لوگوں کو خوفزدہ کر دینے والی ہے، جو امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ، عزت چاہتے ہیں اور اپنے سے متعلقہ امور میں اپنی آواز اور رائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں وہ چیزوں کو میرٹ پر دیکھ سکیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا ایمان ہے کہ آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔ ایک نوجوان عرب خاتون کا پوچھنا تھا کیا ایسا ممکن ہو جائے گا ؟ میں نے پورے یقین سے کہا ہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے، اگر ہم عالمی سطح پر پھیلے تشدد کو ختم کرکے امن کو ایک موقع دے دیں۔
جواب دیں