باالفاظ دیگر مختلف زبانوں میں جاری اخبارات ورسائل اور نیوز و انٹر ٹنمینٹ چینلس کے مالکان کون ہیں؟حکومت؟فلاح عام اور قیام امن میں مصروف افراد و گروہ؟یا وہ تجارت پیشہ افراد جو ہر چیز کی بازار میں قیمت لگانے سے نہیں چوکتے؟ساتھ ان افراد پر بھی گفتگو ہونی چاہیے جو میڈیا میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے مقاصد و نصب العین کیا ہیں؟غیر مساویانہ و دولت کا حصول؟یا ایک عظیم مقصد کو انجام دیتے ہوئے شب و روز کی ضروریات کی تکمیل؟یہ اور ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جو آج میڈیا کے کردار کے سلسلے میں اٹھتے ہیں ۔لہذاسوالات کے پس منظر میں وہ لوگ بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے جو اس پیشہ کو اختیار کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں یہ خبر اہم تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہیگمیں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت(آئی سی سی ) کو متنازع بنانے اور عدالت کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اندرون اور بیرون ملک میڈیا مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔نیتن یاہو کی جانب سے یہ اعلان آئی سی سی کی پروسیکیوٹر جنرل فاٹو بنسوڈا کے اس بیان کے رد عمل میں آیا ہے جس میں انہوں نے فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی اخبارہارٹزکی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہونے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی فوج داری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کی تحقیقات کے اعلان کے رد عمل میں فوری اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔اس مقصد کے لیے عالمی ابلاغی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ آئی سی سی کے وجوہ کو آئینی طور پر متنازع بنا کر جنگی جرائم کی تحقیقات کو غیر موثر بنایا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق یاہو نے وزرات خارجہ اور وزرات اطلاعات و نشریات کو ہدایت دی کہ وہ ملک اور بیر ون ملک ابلاغی مہم شروع کریں ۔جس کے ذریعہ عالمی فوج داری عدالت اوراس کی خاتون پروسیکیوٹر جنرل بنسوڈا کو متنازع بنایا جا سکے۔اپنے شاطرانہ منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے یاہو نے کہا کہ ہم اس کا ہر سطح پر مقابلہ کریں گے اور دوسروں کو بھی اس جنگ میں استعمال کریں گے ،لہذا وہ بھی اس کے لیے تیار رہیں۔ہم اسرائیلی فوجیوں کو عالمی عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں ہونے دیں گے۔واضح رہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے افسران بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں،جس کے تحت اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ پچھلی جنگ میں اسرائیل یا فلسطین میں سے کس کی جانب سے جنگی جرائم کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔اس خبر سے "چور کی داڑھی میں تنکا”والی مثال خوب اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔اور اگر ایسا نہیں تو کیوں بین الاقوامی عدالت کو قائم کرنے والے خود ہی بین الاقوامی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا چاہتے ہیں؟
متذکرہ خبر کے تناظر میں یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ وہ عالمی میڈیا خصوصاً مغربی میڈیا جس پر ہمارا انحصار ہے۔ جن کے حوالوں کے ساتھ ہماری خبریں و مضامین نہ صرف شائع ہوتے ہیں بلکہ اُن ہی خبروں کی بنیاد پر اپنی اور عوام کی رائے عامہ ہموار کرنے کا بھی کام انجام دیا جا تا ہے۔وہ خبریں کہاں سے آتی ہیں ؟اور ان وسائل پر کن لوگوں کی گرفت ہے؟گزشتہ دنوں عالمی میڈیا پر کنٹرول کس کاکے عنوان سے ایک سروے منظر عام پر آیاتھا۔ جس میں دنیا بھر میں میڈیا پر براہ راست کنٹرول کرنے والی کمپنیوں اور ان کے مالکان کے بارے میں تفصیلات دی گئیں تھیں۔ سروے رپورٹ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ فی الوقت عالمی میڈیا کے 90 فیصد حصے پر یہودی خبررساں ادارے، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، اوربین الاقوامی جرائدقابض ہیں۔اور یہ وہی خبر رساں ادارے ہیں جن کے ذریعہ ملکی و بین الاقوامی سطح کا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے 90 فیصد میڈیا پر صرف 6 کمپنیوں کی اجارہ داری ہے ۔یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔ سب سے بڑی کمپنی والٹ ڈزنی ہے، اِس کمپنی کے امریکہ میں سب سے زیادہ پروڈکشن ہاؤس ہیں۔ کمپنی کے پاس 7؍بڑے نیوز پیپرس، 3؍ میگزین اور بڑا کیبل نیٹ ورک ہے، جس کے 14؍ ملین صارف ہیں۔ دوسری کمپنی ٹائم وارنر جس کی ملکیت ایچ بی او ہے جو امریکہ کا سب سے بڑا پے ٹی وی کیبل نیٹ ورک ہے۔کمپنی کی ملکیت میں امریکہ کی سب سے بڑی میگزین ٹائم میگزین بھی آتی ہے جو خالصتاً یہودیوں کی ہے۔ تیسری کمپنی وائی کام ہے۔ پیرا ماؤنٹ پکچرس اور ایم ٹی وی اس کی ملکیت ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کر تے ہیں بلکہ ذہن سازی کا کام بھی بڑے پیمانہ پر انجام دے رہے ہیں۔بچے ،بڑے ،مرد و خواتین سب ہی کے نہ صرف ذہنوں کو بلکہ اُن کی معاشرتی، تمدنی و تہذیبی شناخت کوبھی انٹرٹنمنٹ پروگراموں کے ذریعہ تبدیل کرنے کی مہم جاری ہے۔ چوتھی کمپنی نیوز کارپوریشن ہے جس کی ملکیت فاکس ٹی وی چینل ہے۔ پانچویں: ڈریم ورکس ہے اور چھٹی فاکس ٹی وی ہے۔ان کمپنیوں کے ذریعہ روزانہ 6؍کروڑ اخبارات فروت ہوتے ہیں،جس میں 75فیصد ملکیت یہودیوں کی ہے۔دنیا کے مقبول ترین اخبار و رسائل نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ مخصوص گروہ کی ملکیت میں آتے ہیں۔میڈایا کی عالمی اجاری داری و صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو کی بین الاقوامی فوج داری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کی تحقیقات کے خلاف اعلان شدہ میڈیا مہم کو با خوبی سمجھنا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلے میں مولانا نذر الحفیظ ندوی کی کتاب”مغربی میڈیا اور اس کے اثرات”کا یہ حصہ بڑا اہم ہے۔جس میں وہ صیہونی پروٹوکول کے بارے میں بارہویں دستاویز سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔اقتباس مزید شواہد فراہم کرتا ہے کہ یہودیوں نے صحافت کو کتنی اہمیت دی ہے۔اس سے نہ صرف دفاعی بلکہ اقدامی اور جارح طریقہ کار کا کام بھی لیا گیا ہے۔اقتباس اس طرح ہے:”ادب اور صحافت عوام کا ذہن تیار کرنے کے لیے اہم ستون ہیں۔اس لیے بیشتر اخبارات اور رسالے ہم اپنی حکومت کی ملکیت میں رکھیں گے۔یہ ذرائع ابلاغ نجی ملکیت کے پریس کے منفی اثرات زائل کریں گے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے ہمارے ہاتھوں میں زبر دست طاقت ہوں گے۔اگر عوام کو ہم دس رسالوں کے اجرا کی اجازت دیں گے تو یہ اجازت اپنے تیس رسالوں کو دیں گے۔اور جتنے بھی رسالے شائع ہوں گے ان کا تناسب یہی ہوگا”۔آگے لکھتے ہیں:”ہمارے یہ سب اخبار اس بڑے دیو کی طرح ہوں گے جس کے بے شمار ہاتھ ہیں۔ان میں سے ہر ایک انگلی حسب ضرورت رائے عامہ کے ہر شعبہ پر رکھی ہوئی ہوگی۔جس نبض کی رفتار تیز ہوگی یہ ہاتھ رائے عامہ کا رخ ہمارے نصب العین کی طرف موڑدیں گے۔ہمارے مخالفین کے پاس چونکہ پریس کے ذرائع نہیں ہوں گے جن کے ذریعہ وہ اپنے خیالات کا کماحقہ اور حتمی طور پر اظہار کرسکیں، ہم پریس کو ان کے خلاف استعمال کرکے فتح حاصل کر لیں گے”(ناشر ندوۃ العلماء لکھنؤ)۔
گفتگو کے پس منظر میں سوال پھر اٹھے گا کہ ہم کیا کریں؟جواب بہت واضح ہے۔کہا کہ :”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے توتحقیق کر لیا کرو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو”(الحجرات:۶)۔اس بنیادی تعلیم کی روشنی میں وہ تمام اہل حق جو صحافت کو ایک مقدس مشن سمجھ کر داخل ہوئے ہیں،انہیں چاہیے کہ حمایت و مخالفت کا اسلامی اصو ل اختیار کرتے ہوئے جرائم کا پردہ فاش کرنے، شہادت کا حق ادا کرنے اور ظلم و نا انصافی کے خلاف پر امن اور قانونی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے نہ صرف پیشاوارانہ ذمہ داری انجام دیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی کے بے جا استعمال سے گریز کرتے ہوئے حکومت وقت سے بھی سوال اور باز پرس کرنے سے نہ گھبرائیں۔تاکہ وہ چوتھا ستون جو امارت کے قیام میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے، وہ نہ صرف اخلاق باختہ افراد کی نشاندہی کرے بلکہ اعلیٰ ترین نصب العین کے حصول میں بھی کامیاب ہو۔ساتھ ہی وہ ظلم و زیادتیاں جو چہار طرفہ برپا ہیں ،ان کا خاتمہ ہو اور امن و امان کے قیام میں موثر کردار ادا کر سکے!
جواب دیں