یومِ جمہوریہ کے موقع پر آئین کے منافی حرکت!!

ہندوستان ایک ایسے گلشن کی مانند ہے جس میں مختلف النوع پھول ہوتے ہیں۔ہر پھول کی اپنی انفرادی خوب صورتی ہوتی ہے لیکن سارے پھول مل کر ہی گلشن کی خوب صورتی کو نمایاں کرتے ہیں۔ہمارے محترم دانشوروں،مدبروں،شاعروں،کویوں اور صوفی سنتوں نے اپنے اپنے پیرایے میں اس خوبصورتی کو بیان کیا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ہندوستانی آئین کے معماروں کو بھی یقین تھاکہ اس گلشن کی خوبصورتی تبھی قائم و دائم رہ سکتی ہے جب تمام پھولوں کی رکھوالی یکساں طورپر کی جائے۔چنانچہ انھوں نے اس ملک کو ایک سیکولر آئین دیا جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جو ملک کے تکثیری معاشرہ کا حصہ ہیں،یہ ضمانت دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔یہ حق ہندوستان میں مقیم ان لوگوں کے لیے ہے جو ہندوستان کے شہری نہیں ہیں۔ہر سال جب ہم یوم جمہوریہ مناتے ہیں تو ملک کے ہر شہری کے لیے یہ اس عہد کو تجدید کرنے کا موقع ہوتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کی بہتری کے لیے اور ساتھ میں امن اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے کام کریں گے۔اس سال یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے امریکی صدر باراک اوبامہ کو مدعو کیاگیاتھا۔چنانچہ وہ تشریف لائے اور ان کی تشریف آوری بجاطورپر ہندوستان کے لیے باعثِ فخرہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر امریکہ کے استقبال اور ان کے لیے حفاظتی انتظامات جو عدیم المثال تھے ،کے شور میں یوم جمہوریہ کا اصل پیغام ہی کہیں کھوگیا۔صرف یہی نہیں اس شور میں ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کے مذہبی حقوق پر جو ضرب لگائی گئی،اس کی آواز بھی کہیں دب کر رہ گئی۔
واقعہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت مرکزی حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے اسکول بورڈ نے ۱۹؍جنوری کو کارپوریشن کے تحت آنے والے تما م اسکولوں کو،جن میں اردومیڈیم اسکول بھی شامل ہیں،کو ایک سرکلر روانہ کیا کہ تمام اسکولوں میں ۲۴؍جنوری کوبسنت پنچمی کے موقع پر سرسوتی وندنا کی جائے،جس میں تمام طلبہ کی شرکت کو لازمی بنایا جائے۔سرکلرمیں لکھاگیاکہ’’بسنت پنچمی علم کی دیوی ماں سرسوتی کو یاد کرنے کا موقع ہوتا ہے،طلبہ کو علم کی اہمیت کے بارے میں سمجھانے کے لیے اسکولوں کو سرسوتی کی پوجاکرنے کی ضرورت ہے۔انھیں یہ بھی بتایا جائے کہ دوسری ریاستوں میں بسنت پنچمی کیسے منایا جاتا ہے‘‘۔
احمدآباد میونسپل کارپوریشن کے اسکول بورڈ کے تحت تقریباً۴۵۷؍گجراتی میڈیم اسکول ہیں،جن میں کل ڈیڑھ لاکھ طلبہ ہیں،تقریباً دس ہزار مسلم طلبہ بھی ہیں۔اس کے علاوہ۶۴؍اردو میڈیم اسکول بھی ہیں جہاں ظاہر ہے کہ مسلم طلبہ ہی زیر تعلیم ہیں۔گزشتہ سال مئی میں جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے،یہ مشاہدہ ہر روز ہی کیا جارہاہے کہ حکومت اور پارٹی ہر سطح سے ہندوتوا کے ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش جا ری ہے۔احمد آبادکے اسکولوں میں سرسوتی پوجا کو مسلمان سمیت تمام طلبہ کے لیے لازمی قرار دینے کی ہدایت کو بھی اسی سلسلے کی ایک اورکوشش کہا جائے گا۔ملکی آئین کے مطابق ہر شخص کو اس کے مذہب کے مطابق رسوم و رواج کی پیروی کرنے کا حق حاصل ہے۔اس روشنی میں سرکاری اسکولوں میں ہندو مذہب کا پروگرام منعقد کرنے اور اس پروگرام میں تمام طلبہ کو،خواہ ان کا مذہب کوئی بھی ہو، عملی طورپر شرکت کو لازمی قرار دینے کا آخر کیا مطلب ہے؟ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہ ہندوتوا اور ہندو مذہب کو تمام لوگوں پر تھوپا جائے۔ملکی سطح پر احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے اسکول بورڈ کے سرکلر کی مخالفت ہوئی لیکن یہ مخالفت بے سود ثابت ہوئی؛کیوں کہ تمام۴۵۷؍ اسکولوں میں سرسوتی وندنا کا انعقاد عمل میں آیا اور کارپوریشن نے اسے انتہائی کامیاب پروگرام قرار دیا۔اسکول بورڈ نے دعویٰ کیاکہ اس کے تحت چلنے والے اردو میڈیم اسکولوں سمیت تمام اسکولوں نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔ہمیں کسی سے کوئی شکایت نہیں اور نہ کسی اسکول سے کوئی احتجاج سامنے آیا۔
لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ اردو میڈیم اسکولوں نے بچوں سے سرسوتی پوجا کرانے سے گریز کیا۔انھیں خوف تھا کہ اگر بچوں سے پوجا کرائی گئی تو والدین کا عتاب انھیں جھیلنا ہوگا۔چنانچہ انھوں نے محض سرسوتی دیوی اور بسنت پنچمی کی اہمیت کے حوالے سے بچوں کو آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔تاہم اس نوعیت کے سرکاری احکامات ایک متنوع معاشرے میں جہاں آئین تمام لوگوں کو یکساں طورپر مذہبی آزادی دیتا ہو اور کسی پر بھی دوسراعقیدہ تھوپنے کو جرم قرار دیتاہو،قطعی ناقابلِ قبول ہیں اور ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے آٹھ ماہ کے دوران دائیں بازو کی متعدد تنظیموں اور لیڈروں نے مذہب کے حوالے سے یکے بعد دیگرے مختلف موضوعات کے ذریعہ تنازعات کھڑے کیے ہیں۔کبھی وہ لوجہاد کا نام نہاد ایشو اٹھاکر ملک کے ہندووں کو یہ ورغلانے کی کوشش کررہے ہیں مسلمان ایک منظم طریقے سے ہندووں کی لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھنساکر ان سے شادی کر رہے ہیں اور ان کو اسلام میں داخل کر رہے ہیں۔اس پروپیگنڈہ کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور معاشرے سے الگ تھلگ کرنا اور ان کے خلاف ہندووں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ہے۔یہ جماعتیں کبھی گھر واپسی کے پروگرام کا اعلان کرتی ہیں تو کبھی اہنسا کے پیامبر بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دے کر ان کے نام کے مندر قائم کرنے پر اصرار کرتی ہیں۔مسلمانوں پر زیادہ بچے پیدا کرکے ملک پرغلبہ پانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرکے ہندووں کو آبادی میں اضافہ کرنے کے لیے ۱۰؍ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ بعض مرکزی وزرابھی اقلیتی طبقات کے بارے میں نامناسب تبصرے کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ جس طرح بے روک ٹوک آگے بڑھتا ہوا شدت اختیارکرتا جارہاہے اس کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ ٹکراؤاور تصادم کے حالات پیدا کرنے کی اجازت اقتدار کے اعلیٰ ترین مرکزسے ہے،جب ہی مرکزی وزارسے لے کر میونسپل کارپوریشن کے ذمے داران تک سبھی ایک ہی سر میں اقلیت مخالفت کے راگ الاپ رہے ہیں اور ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاںآئین سب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے وہاں مسلم اور دوسرے اقلیتی بچوں سے ان کے عقیدے کے بالکل برعکس سرسوتی پوجاکرانے کا آخر کیا مقصد ہے؟
۲۶؍جنوری ایک موقع تھا ایسے تمام لوگوں کے لیے اپنا محاسبہ کرنے کاکہ آخر وہ آئین اور دستورِ ہند کے منافی حرکات کے مرتکب کیوں ہورہے ہیں؟وہ ہندوستان نام کے اس خوب صورت گلشن کی خوبصورتی کو تہس نہس کرنے کے درپے کیوں ہیں؟نہ صرف یہ کہ کسی نے اس ضرورت کا ادراک نہیں کیا بلکہ ۲۶؍ جنوری کے پیغام کوبھی ایک غیر ضروری شور میں دبانے کی کوشش کی گئی۔البتہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے اقلیتوں کے خلاف زعفرانی جماعتوں کی مسلسل شرانگیزی کا ادراک کرتے ہوئے اپنے ۲۶؍جنوری کے خطبے میں اسے پاگل پن قراردیا اور اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کو تصادم کی وجہ نہیں بنایا جاسکتا۔انھوں نے یاد دلایا کہ دستورِ ہندجمہوریت کی مقدس کتاب ہے۔ہندوستانی معاشرہ میں ہمیشہ کثرت میں وحدت کو نمایاں مقام حاصل رہاہے اور اس میں مختلف طبقات کے مابین باہمی رواداری اور جذبۂ خیرسگالی کو فروغ دیاگیا ہے۔ان اقدارکاحددرجہ احتیاط کے ساتھ تحفظ کرنا ہوگا۔صدرنے مزید کہاکہ جمہوریت میں جو موروثی آزادی دی گئی ہے بسا اوقات اس کے ناخوشگوار ذیلی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی طریقۂ کار پاگل پن کے ساتھ مسابقت کی شکل اختیار کرلے جو ہماری روایتی اقدار کے منافی ہے۔صدرجمہوریہ نے گاندھی جی کے اس قول کابھی حوالہ دیا کہ مذہب اتحاد کے لیے ایک طاقت ہے،ہم اسے تصادم کا باعث نہیں بنا سکتے۔
ملک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں صدر جمہوریہ نے جو باتیں کی ہیں وہ یقیناً بہت قیمتی ہیں۔مذاہب اوراس کے ماننے والوں کے بیچ تصادم اور ٹکراؤ پیدا کرکے سیاسی عروج حاصل کرنے والی طاقتوں کے لیے ان میں بڑی نصیحتیں پوشیدہ ہیں۔جس ملک کے صدر کو ہم نے اس سال یومِ جمہوریہ کی تقریب کا مہمانِ خصوصی بنایا ہے اس ملک نے بہت ہی کھلے دل سے دنیا بھر کے تمام مذاہب کو گلے لگایا ہے اور سب کو مساوی آزادی دی ہے اور یہی اس کی ترقی و خوشحالی کا راز ہے۔ خاص کر ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کے لوگ اپنے دلوں کو جب تک کشادہ نہیں کریں گے،ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا۔۲۶؍جنوری کے پیغام کوصدر جمہوریہ نے ہمارے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی ہے،کاش کہ ان کی کوشش بارآورہوسکے!
(مضمون نگارممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے