آج ان سوالات کے اٹھنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عراق و شام سے خبریں آرہی ہیں کہ جنگ جو تنظیم داعش کے لوگ جن علاقوں پر قبضہ کرتے ہیں وہاں کی خواتین کو غلام بنانا اور بیچنا جائز خیال کرتے ہیں۔ ان کے انھیں مظالم کے سبب غیر مسلم یزدی فرقے کی خواتین بھاگ بھاگ کر پناہ گزیں کیمپوں میں پہنچ رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایسے ویڈیو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور ٹی وی چینلوں پر آئے تھے جن میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ مسلمان، خواتین کی بولیاں لگارہے ہیں اور انھیں فروخت کر رہے ہیں۔ عورتیں رسیوں میں جکڑ کر کھمبے سے باندھ دی گئی ہیں۔ ان کے منہ پر کپڑا باندھ دیا گیا ہے۔ وہ بولنے کی کوشش کررہی ہیں مگر بول نہیں سکتی ہیں۔ وہبولنا چاہتی ہیں تو ایک مسلمان انھیں پیٹتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ خبر بھی میڈیا میں آئی کہ داعش کے لوگ اپنے لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کرکے بتا رہے ہیں کہ جو خواتین جنگوں میں گرفتار کی جائیں، انھیں قیدی بنانا اور ان سے جنسی تعلق قائم کرنا عین قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہے۔ وہ پمفلٹ عراق وشام کے ان علاقوں میں دستیاب ہوں یا نہ ہوں جہاں داعش کی حکومت ہے مگر ساری دنیا کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ضرور نظرآجاتے ہیں۔ انھیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر پوسٹ کیا جارہاہے اور جہاں مسلمانوں میں غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں وہیں غیر مسلم بھی اسلام کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ اس قسم کے پوسٹ کو بہانہ بناکر اسلام کے خلاف خوب لعن طعن ہورہی ہے۔ داعش کیا کررہا ہے اور کیا نہیں کررہا ہے، ہمیں پتہ نہیں ہے کیونکہ ہم اس سے ہزاروں کیلو میٹر دور ہیں۔ میڈیا کے ذریعے جو خبریں مل رہی ہیں انھیں کے بیچ سے ہم کچھ سچائی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہی میڈیا ہمیں خبریں دے رہا ہے جو اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور جس پر یہودیوں، عیسائیوں، مغرب اور اس کے حواریوں کا قبضہ ہے۔ یہ میڈیا صدام حسین کے عراق اور طالبان کے افغانستان سے بھی جھوٹی خبریں بھیجتا رہا ہے جن کا اب پردہ فاش ہوچکا ہے، ایسے میں ہم داعش کے تعلق سے آنے والی خبروں پر یقین کریں یا نہ کریں مگر اتنا ضرور ہے کہ ان خبروں کے سبب جو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہورہی ہے اور جو غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں ، انھیں دور کرنا لازمی ہے۔انھیں غلط فہمیوں سے جڑا ہوا مسئلہ ہے جنگی قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تعلق کا بھی۔ تشہیر کی جارہی ہے کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ جو عورتیں قیدی بن کر آئیں ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا جائز ہے۔ آخر اس کی حقیقت کیا ہے، اسے سمجھنے کے لئے غلامی کی تاریخ اور اس کے سماجی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
غلامی کی روایت،اسلام سے پہلے
عہد حاضر میں کسی بھی ملک کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ انسان کو انسان غلام بنائے، اس کے باوجود بندھوا مزدور کا لفظ اب بھی سننے کو مل جاتا ہے مگر دنیا میں غلامی کی روایت بہت پرانی ہے۔ ہزاروں سال تک دنیا میں غلامی کی روایت رہی ہے۔ یہاں جب جنگیں ہوتی تھیں تو ہزاروں کی تعداد میں جنگی قیدی آتے تھے۔ ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی ہوتی تھیں۔بچے اور بوڑھے بھی ہوتے تھے۔عام دستور یہ تھا کہ جو قیدی جوان ہوتے اور جنگ کرنے کے لائق ہوتے انھیں قتل کردیا جاتا تھا اور بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ان غلاموں اور باندیوں کے شہری حقوق بالکل نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ مہذب یونان وروم کے حکماء بھی مانتے تھے کہ ان کے شہری حقوق نہیں ہیں۔ تلوار بازیوں کی مشق اور کھیلوں میں ان کا بے دریغ استعمال کیا جاتا تھا اور بے شمار غلاموں کو قتل کردیا جاتاتھا۔ غلام اور باندی صرف وہی نہیں ہوتے تھے جنھیں جنگوں میں پکڑ کر لایا جاتا تھا بلکہ عام لوگوں کو بھی دھوکے سے پکڑ لاتے تھے، اور افریقی ملکوں سے لوگوں کو پکڑکر فروخت کرنے کا سلسلہ تو ماضی قریب تک جاری تھا۔ امریکہ اور یوروپ میں جو سیاہ فام نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر انھیں کی اولاد ہیں جنھیں سفید فام لوگوں نے جبراً غلام بنا لیا تھا۔ صدیوں تک مالی کے شہر ٹمبک ٹو کو غلاموں کے دھندے کے لئے عالمی شہرت حاصل رہی۔ ہندوستان کے لوگوں کو غلام بناکر دوسرے ملکوں میں لے جانے کا سلسلہ بھی ایک مدت تک جاری رہا۔دنیا کے کئی ملکوں میں غلاموں اور باندیوں کے مالک کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ چاہے تو ان کا قتل کردے ۔اس کے خلاف حکومت کوئی
کارروائی نہیں کرتی تھی۔جب ان کی جان کا حق مالک کو ملا ہوا تھا تو جنسی تعلق اس کے مقابلے میں معمولی بات تھی۔باندیوں کے بعض مالکان انھیں قحبہ گری کے لئے بازار میں بٹھادیا کرتے تھے اور ان کی آمدنی کھاتے تھے۔
غلاموں کے حقوق اور اسلام کی اصلاحات
اسلام نے غلامی کا سسٹم ایجاد نہیں کیا ،بلکہ اس نے اس میں بڑی بڑی اصلاحات کیں اور اس سلسلے میں دستور اتنے سخت کردیئے کہ کوئی بھی شخص غلام یا باندی رکھنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے اسلام نے غلاموں اور باندیوں کے حقوق مقرر کئے۔ اس نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ انسان فطری طور پر آزاد ہے لہذا اسے جبراً غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ اس دور میں افریقیوں کو پکڑ کر لاتے تھے اور فروخت کردیتے تھے، یہ سلسلہ بند کرنے کا کام اسلام نے کیا۔ اس طرح سے غلامی کا ایک بڑا راستہ بند ہوگیا۔ ہاں ایک دوسرا راستہ جاری رہا ۔جنگوں میں پکڑ کر لائے جانے والوں کو غلام بنایا جاتا تھا۔ ان کے تعلق سے اکثر یہ پالیسی ہوتی تھی کہ مسلمان قیدیوں کے بدلے میں انھیں چھوڑا جاتا یا ان سے کچھ معاوضہ لے کر آزاد کردیا جاتا تھا۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ وہ قیدی ہوتے تھے جو لڑنے کے لائق ہوتے تھے اور ان سے اندیشہ رہتا تھا کہ اگر چھوٹ کر گئے تو دوبارہ جنگ شروع کردیں گے۔ اسلام سے پہلے تک ایسے قیدیوں کی صرف ایک سزا ہوتی تھی ،قتل ۔مگر اسلام نے انھیں جینے کا حق دیا اور اگر کبھی کسی کو قتل کیا بھی گیا تو بہ حالت مجبوری۔جنگ بد ر میں جو قیدی بھی آئے تھے ان کی آزادی کے لئے آسان شرطیں رکھی گئی تھیں۔ پہلی شرط تو یہ تھی کہ وہ معاوضہ ادا کریں اور آزاد ہوجائیں اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو ان کے لئے دوسری شرط تھی کہ وہ کچھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں اور رہائی پا ئیں۔ جو لوگ دونوں میں سے کوئی شرط پوری نہیں کرسکتے تھے انھیں بغیر معاوضہ کے آزاد کردیا گیا، صرف یہ وعدہ لیا گیا کہ آئندہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لینگے۔ اس موقع پر جو لوگ معاوضہ دے کر چھوٹے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی تھے۔ عہد نبوی میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جب جنگی قیدیوں کو قتل کرنے یا غلام بنانے کے بجائے بغیر معاوضہ کے آزاد کردیا گیا۔جنگ حنین میں چھ ہزار قیدیوں کو بغیر معاوضہ کے آزاد کردیا گیا۔ ایسا ہی دوسرے موقعوں پر ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے لوگ اسلام قبول کرلیتے تھے۔ یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ اسلام نے جنگی قیدیوں کوغلام بنانے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ صرف اجازت دی ہے اور یہ اس دور میں جاری کچھ مسائل کے سبب تھا۔ تب یہ ممکن نہیں تھا کی یک لخت صدیوں پرانی روایت کو ختم کردیا جائے، لہٰذا دھیرے دھیرے اس کی جانب قدم بڑھایا گیا۔ غلامی کے خاتمے کی ایک صورت یہ رکھی گئی کہ غلام یا باندی کو آزاد کرنے پر ثواب کا اعلان کردیا گیا تاکہ لوگ رضاکارانہ طور پر آزاد کریں۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
’’اور تو جانتا ہے کہ نیکی کا دشوار گزار راستہ کونسا ہے؟ وہ یہ کہ ایک گردن (غلام) آزاد کی جائے یا بھوک کے دن کسی قریبی یتیم یا خاکسار مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘(البلد:۱۶۔۱۲)
ایک شخص نے پوچھا کہ یارسول اللہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیں جس کے سبب میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو آپ نے فرمایا غلام، آزاد کرو۔
اسی کے ساتھ غلام رکھنے کی شرطیں سخت کی گئیں ان میں سے ایک شرط تو یہ تھی کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔مالک جو خود کھائے ،انھیں بھی کھلائے۔ جس قسم کا لباس خود پہنے انھیں بھی پہنائے۔ ان سے اتنا زیادہ کام نہ لے جو ان کے لئے مشکل ہو۔ ان کے ساتھ پیار ومحبت بھرا برتاؤ کرے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زید بن حارثہ غلام کے طور پر آئے تھے۔ وہ پہلے حضرت خدیجہ کے غلام تھے جنھوں نے آپ کی خدمت میں پیش کردیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور بے حد محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے گھر والوں کو پتہ چلا تو ان کے والد اور چچا آپ کے پاس آئے اورانھیں واپس لے جانا چاہا ، آپ نے انھیں اس بات کی اجازت بھی دے دی مگر زید بن حارثہ کو بارگاہ رسالت میں جو پیار ملا تھا اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیاا ور رسول اللہ کی خدمت میں رہنا پسند کیا۔غلاموں اور باندیوں کے سلسلے میں رسول اللہ کی ایک حدیث ہے :
’’یہ تمہارے بھائی ، تمہارے خادم ہیں، جنھیں اللہ نے تمہارا دست نگر بنا یا ہے۔ تو جس کسی کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہئے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے، تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کوئی بھاری خدمت ان کے کے سپرد کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘
غلامی کے خاتمے کی طرف اسلام نے جو قدم بڑھایا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ بعد میں لوگوں نے غلاموں کو اگر رکھا تو اپنا بیٹا بنا کر رکھا ۔ ان کی پرورش اپنے بچوں کی طرح کی، ان کی تعلیم وتربیت کی اور ان میں سے بعض علماء، فضلاء،اور بادشاہ ہوئے۔ مصر کے مملوک حکمراں اور ہندوستان کے خاندانِ غلامان کے بادشاہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلی پر راج کرنے والے اولین دور کے مسلم بادشاہ قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش اور غیاث الدین بلبن ایسے ہی حکمراں تھے۔ اسلام نے غلاموں کے لئے مکاتبت کا راستہ بھی رکھا تھاجس کے تحت کوئی غلام اپنے مالک سے یہ طے کرسکتا تھا کہ اگر وہ اتنی رقم ادا کردے گا تو اسے آزاد کردیا جائے گا، اور اس شرط پربہت سے غلام آزاد ہوجاتے تھے۔
خواتین غلاموں کا مسئلہ
غلامی کا مسئلہ تاریخ میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسلام سے قبل اسے حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اسے سماج نے جوں کا توں قبول کرلیا تھا۔ یہ مسئلہ مردوں کے ساتھ جس قدر تھا اس سے شدید خواتین کے ساتھ تھا۔بعض اوقات ایساہوتا تھا کہ دشمن کا پورے کا پورا علاقہ جنگ میں صاف ہوجاتا تھا۔ تمام مرد جنگ کے دوران قتل ہوجاتے تھے اور اپنے پیچھے بڑی تعداد میں عورتوں اور بچوں کو چھوڑ جاتے جو ان کے ساتھ میدان جنگ میں ہوتے تھے۔اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور عورتوں کے لاوارث ہوجانے سے کئی مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا تھا لہٰذا انھیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اس دور کا عام قاعدہ تھا کہ فتح پانے والی فوج کے سپاہی شہروں، قصبوں اور آبادیوں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ لوٹ مار کرنے کے علاوہ عورتوں کو ا ٹھا لے جاتے اور بچوں کو غلام بنالیتے تھے مگر اسلام نے صرف انھیں کو غلام بنانے کی اجازت دی جو میدان جنگ میں پکڑے جائیں۔ عورتوں اور بچوں کو مسلمانوں کے بیچ تقسیم کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ان کی تربیت ہوجائے اور دشمن کی طاقت منتشر ہوجائے اور مستقبل میں کسی قسم کا فتنہ نہ کھڑا ہو۔حالانکہ یہ ایک وقتی انتظام تھا جس کے ساتھ بہت
سی شرطیں رکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں کو اس بات کی طرف راغب کیا جاتا تھا کہ وہ باندیوں کی تربیت کریں، انھیں آزاد کریں اور انھیں تنہا چھوڑنے کی بجائے اگر وہ راضی ہوں تو نکاح کرلیں یا کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر ان کا نکاح کرادیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس کے پاس کوئی باندی ہو،اور وہ اس کی اچھی تربیت کرے، اسے آزاد کردے اور نکاح کرلے ، اس کے لئے دوہرا ثواب ہے۔
نواسۂ رسول حضرت اما م حسین کی بیوی شہر بانو ایسی ہی ایک باندی تھیں جن کا تعلق ایران کے شاہی گھرانے سے تھا۔ ان سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا تھا۔ انھیں سے حضرت امام زین العابدین پیدا ئے اور آج جو مسلمانوں کا سب سے محترم طبقہ ہے سیدوں کا، وہ انھیں کی اولاد سے ہے۔ تابعیوں کے امام اور صوفیہ کے سردار حضرت حسن بصری اور اما م محمد بن سیرین رحمہما اللہ کی ماں باندی تھیں۔ خلیفہ مامون رشید کی ماں باندی تھی اور امام ابوحنیفہ کے والد غلام تھے۔اصل میں اسلام نے غلاموں اور باندیوں کے لئے جو انتظام کیا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ خاندان کے ممبر بن گئے تھے۔ابو حذیفہ کے غلام سالم کے بارے میں خلیفہ دوم حضرت عمر نے کہا تھا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو میں اپنی جگہ اسے خلیفہ مقرر کرتا۔زید بن حارثہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، ان سے آپ نے قریش کی معزز خاتون اور اپنی پھوپی زاد بہن زینب بنت جحش کا نکاح کرادیا تھا۔ اصحاب رسول سلمان فارسی اور بلال حبشی غلام تھے مگر بزرگ صحابہ بھی انھیں بے حد احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
باندیوں کے ساتھ مالک کے جنسی تعلق کا رواج صدیوں سے چلا آرہا تھا۔باجود اس کے وہ جب چاہتا انھیں فروخت بھی کرسکتا تھا۔ انھیں کسی دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرسکتا تھا اور انھیں جسم فروشی کرنے کے لئے سرِبازار بٹھا سکتا تھا۔ ان سب معمولات کو سماج نے قبول کرلیا تھا اور کسی کو کوئی قباحت نہیں محسوس ہوتی تھی۔ غلاموں اور باندیوں کے بچے بھی غلام مانے جاتے تھے۔سید امیر علی کی ’’اسپرٹ آف اسلام ‘‘ کے مطابق قدیم روم میں یہ دستور چلا آتا تھا کہ جب کسی غلام کی بیٹی بیاہی جاتی تو اس کو پہلی رات اپنے مالک کے ساتھ بسر کرنی پڑتی تھی۔ اس شرمناک ظلم سے عیسائی مذہبی پیشوا تک نہیں چوکتے تھے۔ (صفحہ۲۲۴) اسلام نے نہ تو غلامی کی روایت شروع کی تھی اور نہ ہی اس نے باندیوں کے ساتھ جنسی تعلق کی ابتدا کی بلکہ اس نے اس کے لئے ضابطے بنائے اور باندیوں کو دیگر شہریوں جیسے حقوق دیئے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ غلاموں اور باندیوں کو کسی بھی چیز کا مالک بننے کا حق دیا گیا اور باندیوں کی عصمت ریزی کرنے والوں کو اسی طرح سزا کا مستحق قرار دیا گیا جس طرح آزاد عورتوں کے معاملے میں ہوتا ہے۔اسلام نے انھیں یہ حق بھی دیا کہ اگر وہ اپنے مالک کے بچے کی ماں بن جاتی ہیں تو پھر ان کی فروخت نہیں ہوسکتی اور مالک کی موت کی صورت میں وہ آزاد ہوجائینگی۔ باندی کے ساتھ مباشرت کا حق صرف ایک آدمی یعنی اس کے آقا تک محدود کردیا ورنہ اس سے پہلے اس کا آقا اسے کسی بھی شخص کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے مجبور کرسکتا تھا۔
آج جو داعش کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں کہ قبضہ میں آنے والے علاقے کی سبھی خواتین کی عصمت ریزی کو انھوں نے عام کررکھا ہے، ایسا اسلام میں بالکل نہیں ہے۔ اس تعلق سے جو مسائل تھے وہ مخصوص دور سے متعلق تھے اور ایک خاص پسِ منظر میں مسئلے کا حل سمجھا گیا تھا۔اسلام تو غلامی کی روایت ختم کرنے کے لئے دنیا میں آیا تھا نہ کہ غلامی شروع کرنے کے لئے۔ آج اس قبیح روایت کا خاتمہہوچکا ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ اسلام کے نام پر دوبارہ اس کی ابتدا کرے۔ لشکر اسلام کے اوپر جو ذمہ داریاں اسلام عائد کرتا ہے،اس میں سے یہ بھی ہے کہ وہ جس شہر پر قبضہ کرے وہاں کے لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خواتین کی عزت وآبرو کی حفاظت بھی کرے۔کسی سے انتقام نہ لیا جائے اور تقویٰ وحدودکو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب’’ الجہاد فی الاسلام‘‘ کے صفحہ ۵۶۰ کا ایک اقتباس دیکھیں:
’’ تقویٰ اور حدود کی پابندی سے یہ مراد ہیکہ جو افعال شریعت میں فی نفسہ حرام وناجائز ہیں ، ان کا ارتکاب کسی حال میں نہ کیا جائے۔ مثلاً اگر دشمن کے سپاہی ہمارے ملک میں گھس کر عورتوں کی بے حرمتی کریں یا ہمارے مقتولوں کو مثلہ کریں تو ہمارے لئے اس کے جواب میں ان عورتوں سے زنا کرنا اور ان کے مقتولوں کا مثلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ یا وہ دوران جنگ میں ہماری عورتوں، بچوں، بوڑھوں، زخمیوں اور بیماروں کو قتل کریں تو ہمیں ان کے اس فعل کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔‘‘
جواب دیں