مگر اس کے ساتھ ساتھ آزادی کے بعد ہی سے جمہوریت مخالف اور اس کی بنیادوں پر ضرب لگانے والی طاقتیں بھی مسلسل برسرِ کاررہیں اور اب تک کی 65 سالہ ہندوستانی تاریخ کا یہ ایک الم ناک سچ ہے کہ شعوری یا غیرشعوری طورپرہندوستانی حکومتیں بھی جمہوریت کے مکمل نفاذ میں ناکام رہی ہیں،آج ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طورپر جانا جاتا ہے،جس کے بارے میں یہ تصور قائم ہے کہ یہاں کے تمام تر باشندوں کو جملہ شعبوں میں تمام تر حقوق حاصل ہیں اوروہ محفوظ بھی ہیں،مگر اندرونی صورتِ حال جن حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں،وہ چونکاتے بھی ہیں اوراُن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیادوں میں سیندھ ڈالنے کا عمل اُس پر عمل آوری سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال ہندوستانی مسلمان ہیں،جوملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں،ایک طرف آر ایس ایس،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد،شیوسینا،ابھینو بھارت جیسی دسیوں سخت گیر ہندوتنظیمیں ہیں،جو پورے ملک کی فضامیں مسلسل زہر گھولنے اور مسلمانوں کا تیا پانچہ کرنے کی پلاننگ میں منہمک ہیں،تو دوسری طرف یہاں کی حکومت اور سیاسی پارٹیاں ہیں،جو انھیں صرف اور صرف اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہیں اورانھیں وعدوں کے کھلونوں سے بہلانے کاکام کر تی ہیں،فی الوقت ملکی سطح کی سیاسی پارٹیوں میں بی جے پی اور کانگریس نمایاں ہیں،جہاں تک بی جے پی کی بات ہے،تو اس کے بارے میں تو یہ واضح ہے کہ وہ انتہاپسند بھگوا ذہنیت کی نمایندگی کرتی ہے اور اس کے ذریعے(چاہے وہ حکومت میں رہی ہو یا اس سے باہر) ہندوستانی مسلمانوں کوتباہیوں اور ہلاکت ناکیوں کے جوزخم سہنے پڑے ہیں،وہ بھی ظاہروباہر ہیں،مگر مؤخر الذکر پارٹی،جس پر مسلمانوں کاغالب حصہ آزادی سے بھی قبل سے اعتماد کرتارہا ہے اور جس کی مرکز میں حکومت کا مجموعی دورانیہ تقریباً ساٹھ سالوں کو محیط ہے،اس نے بھی مسلمانوں کوتمام تر شعبہ ہاے زندگی میں حاشیے پر ڈالنے میں کچھ کم کردار ادا نہیں کیا ہے۔
مختلف تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پورے ملک میں مسلمانوں کی آبادی ملک کا تقریباً14فیصد ہے،مگر اقتصادی سطح پر ان کی حالت درجِ فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی گئی گزری ہے؛اس لیے کہ اُن قبائل کو سرکاری طورپر خاص حقوق حاصل ہیں،جب کہ مسلمانوں کا کوئی آسرا نہیں ہے، رپورٹ بتاتی ہے کہ غریب مسلمانوں کو صرف 3.2فیصدسبسڈرائزڈلون مل رہاہے،پورے ملک میں صرف2.1فیصدمسلمانوں کے پاس ٹریکٹر ہے،جب کہ صرف 1فیصد مسلمانوں کے پاس ہینڈ پائپ ہے،اگر ان کی تعلیمی حالت کی بات کی جائے،توسروے کے مطابق ہندوستانی گاووں کے 54.6 فیصد اور شہروں کے تقریباً 60فیصد مسلم بچے ایسے ہیں،جنھوں نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھااورجو مسلمانوں کے مذہبی ادارے ہیں،وہاں بھی ان کے صرف 4فیصد بچے پڑھ رہے ہیں اور وہ بھی جمہوری ہندوستان میں دہشت گردی کے مہیب الزام کے نشانے پر ہیں اوراب اس الزام کا رخ بتدریج کالجوں اور یونیورسٹیزمیں زیرِتعلیم مسلم طلباکی جانب پھیردیاگیاہے،سرکاری نوکریوں میں آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ان کی تعداد 5 فیصد سے بھی زیادہ نہیں پہنچ سکی ہے،انڈین ریلوے میں مسلمانوں کی نمایندگی4.5فیصدہے،ہندوستانی ریاستوں میں مقرر پولیس فورس کی افرادی قوت 16لاکھ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے،اگر مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی پولیس فورس میں تعینات 46ہزار دو سو پچاس مسلمان افسروں اور پولیس اہل کاروں کو نکال دیاجائے،تو پورے ملک کی تمام ریاستوں کی پولیس فورس میں مسلم افسروں اور اہل کاروں کا تناسب گھٹ کر صرف 4فیصد رہ جاتا ہے، یعنی ہندوستان میں کم وبیش پچیس کروڑ مسلمانوں کی اس شعبے میں نمایندگی براے نام ہے،سول سروسز میں بھی ان کی نمایندگی یوں ہی سی ہے،مسلم آئی اے ایس 3.22فیصد،آئی پی ایس 2.64فیصد اورآئی ایف ایس3.14فیصد ہیں،جب کہ دوسری جانب سکھ اورعیسائی باوجودیکہ مسلمانوں سے بہت کم ہیں،ان شعبوں میں ان کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے،ہندوستانی عدلیہ میں مسلمانوں کی حصے داری دیکھیں،تو صرف 6فیصد ہے،آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستانی سپریم کورٹ کے 37چیف جسٹس میں سے صرف چار مسلمان رہے ہیں(ایم ہدایت اللہ،ایم حمید اللہ بیگ،اے ایم احمدی اور التمش کبیر)جب کہ سپریم کورٹ کے اب تک کے کل141ججوں میں سے صرف 10مسلمان ہوئے ہیں،سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں کی تعداد27ہے،جن میں صرف دو مسلم نام ہیں : جسٹس محمد ابراہیم کلیف اللہ اور جسٹس آفتاب عالم اور اگرآپ شعبۂ سیاست میں مسلمانوں کی نمایندگی دیکھنا چاہتے ہیں،تو آپ کو بڑی حیرت ہوگی کہ آزادی کے بعد سے اب تک صرف سات وزراے اعلیٰ مسلمان ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی صرف ایک (فاروق عبداللہ)کو پورے پانچ سال کی مدت پوری کرنے کا موقع ملا ہے،سیاست میں نابرابری کی اس سے زیادہ اور محسوس مثال اور کیاہوسکتی ہے کہ فی الوقت جہاں کل پارلیمانی ممبران کی تعداد543ہے،وہیں ان میں مسلم ممبران صرف 23ہیں،واضح ہوکہ یہ تعداد گزشتہ لوک سبھا سے بھی 6کم ہے۔
ایک طرف مسلمانوں کی مختلف سرکاری و سیاسی شعبوں میں اس حد تک کمی ہے،تو دوسری جانب ملک میں کل آبادی(تقریباً14فیصد) سے زیادہ(این سی آربی کی دسمبر2011ء کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 22 فیصد) مسلم زندگیاں پسِ دیوارِ زنداں سسک رہی ہیں،کانگریس کی سربراہی والی گزشتہ حکومت نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے2005ء میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک 15نکاتی پروگرام تیار کروایاتھا،مگراس کا فائدہ بھی قانونی مجبوریوں کی آڑ میں مسلمانوں کی بجاے دیگر مذاہب کے ایسے طبقوں میں منحصر ہوکر رہ گیا،جو پہلے ہی سرکاری اسکیموں سے متمتع تھے اور اب مودی اینڈکمپنی کے مرکزپر قابض ہوجانے کے بعدتواس پر صاف طورسے ’خطِ نسخ‘پھیردیاگیاہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا ایک منظر نامہ تو یہ ہے،جو آئے دن مزید انحطاط اور زوال پذیریوں کی جانب گامزن ہے ،جبکہ دوسری جانب ملک کی فسطائی طاقتوں کی ان کو کچلنے اورملک سے ان کا صفایا کردینے کی کوششیں بھی تیزترہوتی جارہی ہیں، محتاط اندازے کے مطابق آزادی کے بعد سے لے کراب تک ملک میں 50
جواب دیں