لیکن دہلی پولیس یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولے پر نافذ کرنا چاہتی ہے جس میں مذہبی مقامات کی انتظامیہ کے اشتراک کی منشا شامل ہے حالانکہ انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی ہے ، البتہ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے تحفظ کا یہ پروجیکٹ ہم عوام کی شراکت داری سے مکمل کریں گے ۔ یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد سے مختلف حلقوں کی جانب سے منفی و مثبت رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے ، بعض مسلم حلقوں نے اس پروجیکٹ کی مخالفت کی ہے، لیکن دیگر مذہبی گروپوں کا موقف واضح نہیں ہو سکا ہے ۔بسی کا کہنا ہے کہ صرف مذہبی مقامات ہی نہیں بلکہ ہم ان تمام مقامات کی نشان دہی کر رہے ہیں جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جا سکتے ہیں ان میں ہوٹل، ریسٹورینٹ ، کاروباری اداری ، دفاتر اور مذہبی مقامات سبھی شامل ہیں ۔ واضح ہو کہ دہلی حکومت نے گزشتہ دنوں دہلی میں پانچ ہزار سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا کا م شروع کیا تھا ،اور ابتک 3900 کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں ، مزید دس ہزار کیمرے اور لگانے کا منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے ، اس کے باوجود پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ پندرہ ہزار کیمرے شہر کی حفاظت کے لیے کافی نہیں ہیں ۔ اتنے بڑے پیمانے پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے اس پروجیکٹ نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں ، قارئین کو یاد ہوگا کہ آج سے کوئی پانچ سال قبل سکیوریٹی چیک کے نام پر بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں ، ریلوے اسٹیشنوں ، تفریحی مقامات کے تحفظ کے لیے میٹل ڈیٹیکٹر مشینیں لگائی گئیں تھیں ، جو اب لگ بھگ پوری طرح بند پڑ چکی ہیں ، اس کے کچھ ہی دنوں بعد ہر ادارے کے مین گیٹ پر سکیریٹی ایکسرے مشین لگانے کا دور چلا، اور اب کچھ دنوں سے سی سی ٹی وی کیمرے نے اس کی جگہ لے لی ہے ۔ لیکن تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ابتک سکیوریٹی فراہم کرنے کی یہ تمام کو ششیں ناکا م ثابت ہوئی ہیں ، آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ تو پھر اس طرح کے آلات نصب کرنے کا حاصل کیا رہا ؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کا حاصل سکیوریٹی آلات تیار کرنے والی کمپنیوں کے کاروبار کے فروغ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بلکہ بعض کا خیال ہے کہ اس طرح کی کمپنیاں اپنے سازوسامان کی مارکیٹنگ کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر حکومتوں پر دباو بنا نے کی کوشش کرتی ہیں ۔ پہلے نامعلوم خوف میں مبتلا کرکے مارکیٹنگ کرنا ہی اس طرح کی کمپنیوں کے کام کرنے کا طریقہ ہے ، ماضی میں یکے بعد دیگرے سکیوریٹی آلات کی مارکیٹنگ سے اس بات کی تائید بھی ہوتی ہے اور اب پوری دہلی کو سی سی ٹی وی کیمرے میں قید کرنے کی تیاری ہے نیز اپنا ہدف مکمل کر لینے کے بعد پولیس کمشنر بی ایس بسی سمیت کسی کو فکر نہیں ہوگی کہ ان کیمروں کا کیا بنا ، تب تک کسی اور سکیوریٹی آلے کی مارکیٹنگ کا دور شروع ہو چکا ہوگا ۔ اس بارے میں دہلی پولیس سے سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ کیا دہلی پولیس پہلے سے نصب میٹل ڈٹیکٹرس کے بارے میں یہ بتا نے کی زحمت کرے گی کہ نصب کیے گئے سبھی میٹل ڈیٹیکٹرس میں سے کتنے کام کر ہے ہیں ؟ پہلے سے لگے سی سی ٹی وی کیمروں کا کیا حال ہے ؟ اس طرح کے آلات کا نصب کرنا تو آسان ہو تاہے لیکن اس کا صحیح استعمال کر پانا کافی مشکل کام ہے –
جواب دیں