کالاکتّانہایت غصیلے لہجے میں مخاطب ہوا۔’’احسان فراموش ہیں یہ سب کہ سب‘‘۔مکھیا نے نہایت سادگی سے کہا۔ارے میاں ،غصّہ نہ کرو،یہ تو انسان کی فطرت ہے۔ اللہ نے انھیں اشرف المخلوقات بنایا اور اسی خوش فہمی میں رہ کر انسانوں نے دوسری مخلوقات کو حقیر سمجھ کر ان پر ظلم ڈھانا شروع کردیا ہے۔ ویسے تمہارے ساتھ کیا ہوا؟
کالے کتّے کی نگاہوں سے اب بھی شعلے برس رہے تھے۔ اْس نے کہنا شروع کیا۔’’کیا بتاؤں ساتھیوں! آج تو ایک انسان نے حد ہی کردی۔ہوا یوں کہ میں اس کے گھر کے سامنے کچھ کھانے کی آس میں ٹھہر گیا،اْس نے بھی گھر کے اندر جاکر میرے لئے کچھ انتظام کیااور کچھ ہی دیر میں ایک برتن لے کر آیا،میں خوش ہوگیا کہ چلو آج کچھ اچھّا کھانا مِلے گا،دل ہی دل میں اسے دْعائیں دینے لگا،وہ میرے قریب آیا اور برتن میرے قریب کرنے لگا،میں بھی آگے بڑھابڑی آس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر کالا کتّا زاروقطار رونے لگا۔مُکھیا نے پوچھا۔’’ارے بھئی پھر کیا ہوا؟۔‘‘ کیا برتن خالی تھا؟۔
خالی ہوتا تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا۔ برتن میں اُس ذلیل انسان نے گرم پانی لاکر مجھ پر اْنڈیل دیا۔میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگا۔
اب لال کتّے نے اپنا دکھڑا سنانا شروع کیا۔یہ انسان اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں،کام خود برے کرتے ہیں اور نام ہمارا بدنام ہے۔کمینگی میں تو انھیں اعزاز ملنا چاہئے،لیکن افسوس کی بات ہے کوئی بھی شخص ایک دوسرے کو بْرا بھلا کہنا چاہتا ہے تو ہمارا نام لیا جاتاہے جیسے۔۔۔۔کْتّا کمینہ۔۔۔۔کْتّا کہیں کا۔۔۔۔۔ کْتّے کی موت مرے۔۔۔ایسا کیوں؟۔ اْس نے مْکھیا کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
مْکھیا کی گردن جھک گئی۔کیونکہ اس سوال کا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اب سفید کتّے نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے بولنا شروع کیا ۔’’انسان اگر ہماری چندعادتیں اپنا لے تو وہ انسان بن جائے۔‘‘تاریخ گواہ ہے ہم کبھی اپنے مالک پر نہیں بھونکتے،اور یہ انسان اپنے رب کو بھول بیٹھا،اپنے پیدا کرنے والے ماں باپ سے اس کا رویّہ تو اللہ رحم کرے۔کاٹنے کو دوڑتے ہیں اپنے ماں باپ کو یہ انسان۔۔۔ اور وہ بھی صرف ایک عورت کیلئے۔تھو ٗ ہے ان کی زندگانی پر۔
اچانک درخت کے نیچے اپنے پِلّوں کے پاس بیٹھی کتیا نے بھی باتوں میں شامل ہوتے ہوئے کہا۔’’انسانوں کی یہ جو نئی نسل ہے وہ تو تباہی کی طرف تیزی سے دوڑ لگا رہی ہے۔تنزّلی کو ترقّی سمجھ رہی ہے۔اپنے اوقات کا اصراف بجائے اچھے کاموں میں کرنے کے بْری چیزوں میں مبتلا ہے۔‘‘اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کو رکی۔ ارے تو کہنا کیا چاہتی ہے۔؟‘‘ مُکھیا نے قدرِتحمل سے پوچھا۔
کتیا نے پھر کہنا شروع کیا۔آج میرے ننھے بچّے سڑک کے کنارے کھیل رہے تھے،تبھی ایک نوجوان اپنی دھن میں ہاتھ میں موبائل لئے بنا سڑک پر نظر رکھے چلا جارہاتھااْس کا پورا دھیان موبائل میں تھا نہ جانے ایسا کیا دیکھ رہا تھا جو اْسے خود کا کیا دوسروں کا بھی ہوش نہ تھا میرے بیچارے لال کے پیر پر پیر رکھ دیا کمینے نے،اور اتنا ہی نہیں اْسے اس بات کا ذرا بھی احساس نہ ہوا پھر موبائل میں دیکھتا ہوا اْس پر اْنگلیاں پھیرتا ہوا چلنے لگا۔کیا ہوگا انسانوں کی اس نئی نسل کا؟۔‘‘ اْس نے سوالیہ نظروں سے مکھیا کی طرف دیکھا۔ مُکھیا نے ایک لمبی سانس لی اور سب سے مخاطب ہوا۔’’جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے انسان پہلے اتنا برا نہ تھا،انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ بھی بھلائی کا معاملہ کرتا تھا،جانوروں کے درد کو دیکھ کر خود اْسے بھی درد کا احساس ہوتا تھا۔اب تو ایسے رحم دل انسان بہت کم نظرآتے ہیں۔اب تو انسان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے درد کا احساس کرے۔حالانکہ اللہ نے ہمیں ذریعہ بناکر بھی انسانوں کو جنّت دی ہے۔لیکن افسوس آج کا یہ انسان اگر سمجھ جائے اور اپنی آنکھیں کھول لے تو یہ دْنیا پھر سے جنّت بن جائے۔
جواب دیں