حقیقی جمہوریت صرف اسلامی تعلیمات سے آسکتی ہے

اسلام سے قبل دنیا کے کسی بھی خطے میں جمہوری اور آزاد عوامی حکومت کے تعلق سے سوچا بھی نہیں جاسکتاتھا۔ حکومت کا عام طریقہ یہ تھا کہ جس کسی شخص کے پاس مادی اورفوجی قوت ہوتی وہ شہر یا ملک پر حملہ آور ہوکر قبضہ کرلیتا‘ اس کے بعد اسے حق حاصل ہوتا کہ ملک ‘عوام اور ان کی ملکیت کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کرے۔ قانون وہی ہوتا‘ جواس کی زبان سے نکل جاتا اور انصاف وہی ہوتا‘ جووہ کہہ دیتا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے نظام حکومت کے تعلق سے تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔ حکمراں کو اختیار ہوتا تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان لے لے یا کسی خطاکار کومعاف کردے۔کسی پر ٹیکس لگادے یاکسی کو انعام واکرام سے نوازے۔ شہریوں کے عزت وآبرو پر اسے پورا پورا اختیار ہوتا تھا۔ اسلامی جمہوریت سے قبل یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دنیا میں جمہوری نظام کا تصور کیا جائے۔ 
اولین جمہوری نظام
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تعلق سے اولیت حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے انسان کو ایک جمہوری حکومت کے تعلق سے بتایا اور اس کا تصور پیش کیا۔ شہنشاہیت کے دور میں جمہوریت کا خیال ہی حیرت انگیز تھا اور ایک ایسے شخص سے، جس نے کبھی کسی مدرسے یا اسکول کا منہ نہ دیکھاہو۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا ہو اور ایران وروم کی شہنشاہیت سے ہمیشہ دور رہا ہو۔ جس کی پوری زندگی عرب کے ریگستان میں ناخواندہ عربوں کے درمیان گذری ہو‘ اس کی طرف سے ایک جمہوری حکومت کا خیال پیش کرنا ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی۔
حقیقی جمہوریت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جمہوری حکومت کا مقصد پیش کیا‘ بلکہ اسے عملی شکل میں بھی دنیا کودکھایا۔ دنیا کی پہلی جمہوری ریاست کی تجربہ گاہ مدینہ منورہ بنا۔ تاریخ وسیرت کی کتابوں میں اس ریاست کا جو خاکہ پیش کیاگیا ہے‘ وہ یوں تھا کہ جب آپ کا قیام مدینہ منورہ میں ہوا‘تو یہاں کے دونوں بڑے قبیلے اوس اورخزرج نے آپ کو اپنا سردارمنتخب کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے اسلام قبول کرچکے تھے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب تھا آپ کو اپنی جان ومال اور عزت وآبروکامالک تسلیم کرلینا۔ ظاہر ہے کہ سردار قبول کرنا اس کے مقابلے میں معمولی بات تھی۔ ایک جمہوری ریاست کے سربراہ کے لئے پہلی شرط یہی قرار پائی کہ عوام خود اس کا انتخاب کریں ۔ کوئی شخص ان کی مرضی کے بغیر ان پرحکومت نہیں کرسکتاتھا۔ عوام کو پہلی مرتبہ اسلام نے یہ اختیار دیا کہ وہ اپنا سردار یا امیر منتخب کریں۔ یہ شخص ان کا سردار ہوگانہ کہ ان کابادشاہ۔ یہ سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کیا اور بعدمیں صحابہ کرام نے جاری رکھا۔ آپ کے انتقال کے بعد اسلامی ریاست کے سربراہ کا انتخاب عام لوگوں نے بیعت (زبانی ووٹ) کے ذریعے کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیغمبراسلام کے خلیفہ اور اسلامی ریاست کے سربراہ منتخب ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں نے عام رائے سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کوامیر المومنین منتخب کیا۔ ان کے بعد حضرت عثمان غنی اورپھرعلی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے اس عہدے کے لئے منتخب ہوتے رہے۔ بدقسمتی سے خلافت کانبوی سلسلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف تیس برس تک ہی چلا‘ اس کے بعد اس کی جگہ بادشاہت آگئی۔
اسلامی جمہوریت کی برکت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی‘ جس کی پہلی کڑی یہ تھی کہ حکمراں کاانتخاب عوامی ووٹ کے ذریعے ہو،اور اس سے باز پرس کااختیار بھی عوام کوہوناچاہئے۔ چنانچہ جب تک نبوی طریقے کے مطابق یہ سلسلہ چلا‘ اس کی برکت بھی دنیانے دیکھی۔ ایک عام آدمی کواختیارحاصل تھا کہ وہ خلیفہ سے کسی بھی وقت اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکے اور خلیفہ کا طریقہ اسے نبوی طریقے سے الگ لگے ‘تو اسے ٹوک سکے۔ خلیفہ کے لئے کوئی محل‘دربان اور باڈی گارڈز وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ عام آدمی کی طرح ہوتا تھا۔ پنچ وقتہ نماز کی امامت کرتاتھا۔ لوگوں کے معاملات سے باخبر رہتا تھا‘ عام شہریوں کے درمیان انہیں کے طریقے سے رہتا تھا کیونکہ بانی جمہوریت پیغمبر اسلام کا یہی طریقہ تھا۔ اسی جمہوریت کی برکت تھی کہ ایک عام آدمی کھڑے ہوکر خلیفہ سے سوال کرتا ہے ’’عمر! سب مسلمانوں کے حصے میں کپڑے کے ایک ایک ٹکڑے آئے اورتمہارے حصے میں دوٹکڑے کیسے آگئے؟‘‘ اس سوال پر عمر نہ توناراض ہوئے اور نہ ہی تیوریوں پر بل آئے۔ جس عمر کے نام سے قیصروکسریٰ کانپ اٹھتے تھے انتہائی تحمل کے ساتھ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ایک ٹکڑامیرے حصے کا ہے اور دوسرامیرے بیٹے کے حصے کا ہے۔ اس نے مجھے اپناحصہ دے دیا ہے‘‘۔(تاریخِ اسلام)
جمہوریت نبوی کے رہنما اصولوں میں سے یہ بات ہے کہ سربراہ مملکت بادشاہ نہیں ‘بلکہ عوام کا خادم ہوگا۔ یہ بات صرف ایک شاعرانہ تخیل نہیں تھی‘ بلکہ اس جمہوری مملکت کا حصہ تھی۔ خلفاء کا یہ معمول تھا کہ وہ رات رات بھر عوام کی بستیوں میں گھوم گھوم کران کے حالات کاجائزہ لیتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے۔ آج عوام چین کی نیند نہیں سوسکتے‘ کیونکہ حکمراں اپنے محلوں میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔کاش انھیں بھی تھوڑا سا حصہ اسلامی جمہوریت سے حاصل ہوجائے۔
وی آئی پی کلچر سے پاک جمہوریت
دنیا کی پہلی جمہوریت کا بنیادی اصول تھا کہ ہر شہری برابر ہے۔ کوئی اگر صدر مملکت کا رشتہ دار ہے‘ تو اس رشتہ داری کے سبب اسے خصوصی درجہ(VIP) نہیں مل سکتا۔ جس طرح ایک عام غریب شہری ہے‘ اسی طرح صدر مملکت کا رشتہ دار بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگو! سن لو‘ تمہارا رب ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ نہ کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پرکوئی فضیلت ہے ،سوائے تقویٰ کے‘‘ (بیہقی)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’مومنوں کے خون ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں اور ان کا ایک ادنیٰ آدمی بھی ان کی طرف سے ذمہ لے سکتا ہے‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمراں کو جوابدہ بتایا ہے‘ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’دیکھو تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پر حکمراں ہو وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی حکمراں جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو‘ اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکہ اور خیانت کرنے والا ہو‘ تو اللہ اس پر جنت حرام کردے گا‘‘۔ (بخاری)
’’کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے‘ پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے جان نہ لڑائے اورخلوص کے ساتھ کام نہ کرے‘ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘۔ (مسلم)
حکمران اوراحساس ذمہ داری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی تربیت کا اثر تھا کہ صحابۂ کرام خوف الٰہی سے لرزہ براندام رہتے تھے‘ جس نے جو ذمہ داری لی‘ اسے جی جان لڑاکر نبھایا۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب مسلمانوں کے خلیفہ بنائے گئے‘ تو بھی آپ کپڑوں کا ایک گٹھرلے کر فروخت کرنے کے لئے نکل پڑے۔ لوگوں نے جب یہ حالت دیکھی‘ تو کہا کہ آپ کپڑے فروخت کریں گے‘ توکاروبار حکومت کون دیکھے گا؟ آپ نے کہا‘ کیاکروں ‘میرے سر پر اپنے بچوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آخر کار لوگوں نے مل بیٹھ کر مشورہ کیا اور آپ کے لئے بیت المال سے کچھ رقم وظیفے کے طور پر مقرر کردی۔ یہ رقم آپ کوملتی رہی‘ مگر انتقال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق اسے آپ کے ترکے سے بیت المال کو واپس کردیاگیا۔ یہی حالت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تھی۔ آپ کے احسا س ذمہ داری کایہ عالم تھا کہ فرماتے ہیں:
’’دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی ضائع ہوجائے‘ تو میں ڈرتاہوں کہ اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جمہوری ریاست کا تصور پیش کیا ہے اس میں حاکم کی اطاعت اسی وقت تک لازم ہے‘ جب تک وہ بھلائی کا حکم دیتا ر ہے۔ اگر اس نے اللہ ورسول کے احکام کے خلاف عمل کیا‘ تو اس کی مخالفت بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کیاتھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں‘ تودور نہیں کہ اللہ ان پر عام عذاب بھیج دے۔‘‘
حقیقی جمہوریت سے دوری
عہد حاضر میں ہم جمہوریت کے نام پر جس قسم کی سرکاریں دیکھ رہے ہیں‘ یہ حقیقت میں جمہوریت کا غلط استعمال ہے۔ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام خود اپنے لئے ایک ظالم‘ غیر منصف حکمراں منتخب کریں‘ جو ایسے اختیارات رکھتا ہو‘ جو کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوں۔ عوام کو ٹوٹی جھونپڑی میسر نہ ہواور وہ محلوں میں رہے۔ ملک کے لوگ بھکمری کے شکار ہوں اور اس کے بچے عیش کرتے ہوں۔ جس ملک میں انسانوں کی بھیڑ ریلوں اور پبلک بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرتی ہے‘ وہاں حکمرانوں کا چارٹرڈ جہازوں کو صرف چپل منگوانے کے لئے بھیجنا کتنی شرمناک بات ہے۔جس دنیا میں لاکھوں لوگوں کو سر چھپانے کے لئے سائبان میسر نہ ہو وہیں کتوں کے لئے فائیواسٹار ہوٹلوں میں کمرے بک کرانا اور ان کی دیکھ بھال کے لئے نوکروں کی فوج رکھناجمہوریت ہی نہیں انسانیت کی بھی توہین ہے۔ سچ پوچھوتو یہ سچی جمہوریت نہیں‘ جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں‘ سچی اور حقیقی جمہورت تووہی ہے‘ جس کا تصور پیغمبر اسلامﷺ نے پیش کیا ہے۔***

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے