خوشی آئین کی آزادی اور غم آئین کے عدم نفاذ کا۔ہندوستان جیسے ملک میں جس کو بجا طور پر اقلیتوں کا ملک کہا جا سکتا ہے اور جہاں اقلیتوں کے مسائل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جب ہندوستانی دستور مرتب ہوا تو اس کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اقلیتوں کیلئے مناسب تحفظ کا انتظام کردیا گیا، تاہم آزادی کے ۶۷ برس کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف دستوری تحفظات کافی نہیں ہوتے بلکہ ان پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے جس کے لئے پہلے بھارت کے مرکز میں اور بعد میں مختلف ریاستوں کے اقلیتی کمیشن تشکیل دیئے گئے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مرکز اور ریاستی سطح پر کام کرنے والے اقلیتی کمیشنوں نے اپنا واقعی کردار ادا نہیں کیا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے انتخابی منشوروں میں جو وعدے کئے تھے خلوص دل کے ساتھ ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی، اس کے برعکس اکثریت کی فرقہ پرست جماعتوں کے رہنما بار بار یہ دہائی دیتے رہے کہ ’’ہندوستان میں اقلیتوں کو پوری دنیا سے زیادہ حقوق و مراعات دی گئیں ہیں جن کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کے حقوق غصب ہورہے ہیں‘‘ حالانکہ اس طرح کا شکوہ کرنے والے تنگ نظروں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ دستورِ اساسی کی پالیسی ایک چیز ہے جس میں ممکن ہے کہ ہندوستان کئی ملکوں سے آگے ہو لیکن دوسری چیز دستور کے متن اور روح کا نفاذ، اس میں بھارت کی کارکردگی اتنی بھی لائق اطمینان نہیں جتنی کہ بدعنوانی یا چھوت چھات کے معاملہ میں نظر آتی ہے کہ دستور میں مذکورہ برائیوں کی ممانعت کے باوجود کوئی بھی سمجھدار اس حقیقت سے منکر نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان میں آج ہر سطح پر بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جس کے ساتھ چھوت چھات برت کر، ذات، برادری اور نسل کی بنیاد پر سخت امتیاز برتا جارہا ہے، کیونکہ دستور کوئی جاندار چیز نہیں کہ اس کے ہاتھ پیر یا صورت شکل بھی ہو اور وہ اپنا دل و دماغ بھی رکھتا ہو وہ جو کچھ کہتا ہو یا اس سے جو مطالبہ کیا جائے اس پر عمل کرنے کی قدرت کا بھی وہ مالک ہو، دوسرے تمام قوانین کی طرح وہ ان افراد یا اداروں کا محتاج ہے جن پر اس کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر یہ افراد یا ادارے صحیح شعور اور دیانتداری کے ساتھ اس پر عمل نہیں کرتے تو دستور کی اچھی سے اچھی دفعات عوام کے لئے سودمند ثابت نہیں ہو سکتیں، اسی لئے جن جمہوری ممالک میں شہریت کے حقوق و فرائض کا جاگتا ہوا احساس نہیں پایا جاتا اور نہ سیاسی شعور اتنا ترقی یافتہ ہوتا ہے کہ وہ ارباب اقتدار یا نوکر شاہی کی نگرانی کرسکے وہاں عموماً دستور اساسی کی پالیسی اور حقیقی صورت حال میں نمایاں فرق و امتیاز نظر آتا ہے۔۔ہندوستان میں اقلیتوں کا بنیادی مسئلہ ہر سطح پر وہ جانبداری ہے جس کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے، ان کے پنپنے کا سبب یہ نہیں کہ ملک کا قانون ناقص ہے یا دستوری تحفظات ناکافی ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اول تو مذکورہ قوانین اور تحفظات پر دیانتداری سے عمل نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے درمیان ایسی سماجی اور نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہیں کہ مختلف فرقوں میں مل جل کر رہنے کی وہ مشترکہ بنیاد نہیں بن پا رہی جو قومی اتحاد کو فروغ دینے والی ہو لیکن اقلیتوں کے تشخص کو بھی ختم نہیں ہونے دے۔ ان تعصبات کا سرکاری حکام پر بھی اثر پڑتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ان کی غفلت و کوتاہی مزید بڑھ جاتی ہے، ابھی حال ہی میں بھارت کی خاتون وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کا مسلمانوں کے خلاف بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ملک رام زادوں کا ہے حرام زادوں کا نہیں ہے۔ ایسے بیانات دینا آر ایس ایس اور بی جے پی کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔مذہبی عناد پرستی کی حالیہ مثال ’گھر واپسی ‘کے عنوان پر ہزار ہا بیانات آرہے ہیں۔۔۔ جب کہ بھارت کا دستور، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انصاف اور برابری کے اصولوں کا دعوے دار ہے،اور جہاں بمطابق دستور، کسی مذہب کو امتیازی حیثیت حاصل نہیں، بنیادی انسانی حقوق کا باقاعدہ ایک علیحدہ باب جس کا حصہ ہے۔مگر فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر، بابری مسجد کا انہدام، رام مندر کی تعمیر، گجرات کا سانحہ عظیم، سمجھوتہ ٹرین،ممبئی دھماکے،پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ،مالیگاؤں بم دھماکہ ، حیدرآباد مکہ مسجد اجمیرپونہ کابم دھماکہ ،بے گناہ مسلم نوجوانوں کو قید کرنے جیسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کی اصل حقیقت کھولنے کے لئے کافی ہے۔
جواب دیں