جس کی طبیعت پاکیزہ ، معاملاتشفاف، احساس درد بھرا،جو مجسم رحمت اورجس کا شیوہ ہی بخشش وعنایات ہو، وہ مبارک ہستی جسے محمدبن عبداللہ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کہتے ہیں، جس نے نوعِ انسانی کو عزت عطا کی ،جس نے انسانوں کوا حترامِ آدمیت کا درس دیا اور مذاہب کی تکریم و تعظیم کی تلقین کی،جس نے اپنے ستانے والے کو دعائیں دیں ،بدن پرکوڑے پھینکنے والے پررحمت والفت و مودت کے پھول نچھاور کیے،جس نے پتھر برسانے والے کو ہدایت کے موتی عطا کیے اور اپنے د شمنوں کو بھی احسانوں، رحمتوں اور محبتوں سے نہال کر دیا، جس نے فتحِ مکہ کے دن جب ماؤں کو اپنے جواں سال بیٹوں کی فکر دامن گیر تھی، سہمی ہوئی دوشیزائیں مارے خوف کے تھرتھر کانپ رہی تھیں، مکہ کے بوڑھے اپنی ٹوٹی لاٹھیوں کے ذریعے اپنے کمزورجسمانی ڈھانچے کو سہارا ددیے کھڑے سکتے کی حالت میں تھے، تو اس وقت آ پؐ نے اپنے لوگوں سے کہا’’جا ؤ مکہ کی ماؤں سے کہہ دوکہ آج تمہاری ممتا نہیں لوٹی جائے گی، مکہ کی بہنوں سے کہہ دوکہ تمہاری عزتوں کی حفاظت کی جائے گی، ماضی میں جس نے ہماری گردنوں پرتلواریں چلائی تھیں،آج اسے گلے سے لگایا جا ئے گا، جس نے ہمارے سینوں پر خنجر چلایا تھا، اسے معاف کیاجا ئے گا، جو موت بن کرہماری بے یاری و مددگاری پر حملہ آور ہوتا تھا، اسے پیغام حیات دیا جائے گا ،آج بدلے کا نہیں؛ بلکہ آج رحمت کا دن ہے‘‘ اور جس نے اہل عالم بلکہ عالم در عالم کی بہبود وو رفاہ و فلاح وخیر و صلاح اور عروج و ارتقا کے لیے بلاشائبۂ غرض اور بلا آمیزشِ طمع اپنی مقدس زندگی کو صرف کیا ہو، جس نے بندوں کو خدا سے ملایا ہو، جس نے ا میری وغریبی، جوانی و پیری امن اور جنگ ،امید ویاس، رنج و الم، حزن و ملال؛ ہر درجہ ،ہر پایہ اور ہر مقام پر انسان کی رہنمائی کی ہو ،جو غریبوں کا محبوب، مسکینوں کا ساتھی ،شاہوں کا تاج ،آقاؤں کا آقا ،غلاموں کا محسن ،یتیموں کا سہارا، بے آسروں کا آسرا، بے خانماں کا ماوا، دردمندوں کی دوا،بے چاروں کاچارہ گر ، مساواتِ انسانی کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ حامی، اُخوتِ انسانی کا بانی، خاکسار ی کا نمونہ، رحمتِ ربانی کامظہرِجمیل، جس نے ملکوں کی دوری، اقوام کی بیگانگی، رنگوں کا اختلاف اورزبانوں کا تباین دور کر کے سب کے دلوں میں ایک ہی ولولہ، سب کے دماغوں میں ایک ہی تصور اور سب کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ جاری کر دیا ۔
ایسی ہمہ گیروہمہ جہت ذات کی شان میں ’چار لی ایبدو‘جیسے دوٹکے کے جریدے کی گستاخی در حقیقت آئینۂ انسانیت کے مقدس چہرے پر بدنما دھبہ تصور کیا جانا چاہیے، آنکھ میں ککرا ،دل میں کالک، روح میں سرطان، زبان پر ناسور اور قلم میں زہر گھول کر جب اس بدبخت اور شقی القلب نے اُجالوں کو اَندھیارے سے تعبیرکیا، تو ساری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور جب اس کے اس جرم کی وجہ سے’چار لی ایبدو‘ کے دفتر پر حملہ ہوا ،تو تحفظِ انسانی کی تنظیموں نے دنیا بھر میں واویلا مچا دیا کہ یہ آزادیِ رائے کے خلاف جنگ ہے ،تحفظِ حقوقِ انسانی کمیشن کے پردے میں کیا یہ شیطانی نظر یات کا پرچار نہیں؟ کیا آزادیِ رائے اسی کا نام ہے کہ کسی انسان کی تذلیل کی راہ کھولی جائے؟ اور کیا آزادی رائے یہ ہے کہ ایک ارب سات کروڑ انسانوں کے پیشوا اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کے مرتکب کی موت کے خلاف شور مچا یا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے ،یقیناً خطۂ ارضی پر کہیں بھی یہ معیار مسلمہ نہیں ہے ؛کیونکہ ہر ملک اور ہر اسٹیٹ کے باغی کو سزائے موت دی جاتی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ گستاخِ رسول کی موت پر طوفانِ بدتمیزی کھڑاا کیا جائے؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ برطانیہ امریکہ اور بعض سیکولر ریاستوں میں بھی قانونِ توہینِ مسیح موجود ہے ،اسی طرح عیسائیت میں ارتداد کی بھی سزا موت ہے (انسائیکلوپیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس)انگلستان میں ایک چھوٹے پادری نے، جب تیرہویں صدی عیسوی میں دین مسیح کو چھوڑ دیا تھا، تو اسے آکسفورڈ میں۱۷؍اپریل 1232 عیسوی میں جلا دیا گیا تھا (انسائیکلوپیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد 6ص644)اسی طرح’’ ڈیوڈ کو ریش‘‘ نامی شخص کو پیروی کاروں سمیت جعلی عیسی علیہ السلام بننے کی پاداش میں امریکی حکومت نے زندہ جلادیاتھا۔ایمنسٹی انٹر نیشنل اور حقوق انسانی کی دیگرتنظیمیں، جنہیں اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ سے خدا واسطے کا بیڑ ہے ،جس زاویۂ نظر سے ’چارلی ایبدو‘ پر حملہ کو دیکھتی ہیں،اسی زاویۂ نظر سے برطانیہ کے دوسرے قوانین کا بھی جائزہ لیں ،ممکن ہے کہ اس تکلف سے نگاہ کی عصبیت نکل جائے ۔مگرمسئلہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں ایسا کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوں گی،ماضی میں بھی پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون پر بہت واویلا مچایا گیاتھا اور حکومت پراس قانون کو ختم کرنے کا دباؤ ڈالا جارہاتھا اور اس وقت بھی انصاف پسند سیاست دانوں اور دانش وران نے مغربی ملکوں میں رائج دستورکے مذہبیات سے متعلق حصے کے تجزیے کی وکالت کی تھی،مگر نہ کیا جانا تھا،سونہیں کیاگیا۔مذکورہ حملے کے بعد فرانس میں چالیس ملکوں کے سربراہوں کا اجتماع اوران سب کا مل کر’unity march‘کرنااوراس میں بطورِ خاص عرب ملکوں کے سربراہوں کی شرکت بھی انتہائی حد تک مضحکہ خیز اور چہرۂ انسانیت پرکسی زناٹے دارطمانچے سے کم نہیں ہے،ایک طرف سارے مشرقِ وسطیٰ میں ہاہاکارمچاہواہے،انسانی خون پانی سے بھی ارزاں ہوتا جا رہا ہے، روزانہ سیکڑوں لاشیں گررہی ہیں،تووہاں توکوئی بھی اتحادی مارچ نہیں نکالتا،ان کے ساتھ تو کوئی اظہارِ یکجہتی نہیں کرتا،ان کے درد کوتو کوئی بھی سمجھنے اور بانٹنے کے لیے آمادہ نہیں،مگر دوسری طرف ایک گستاخ اور تھرڈکلاس کی میگزین پر اس کے جرم کی وجہ سے حملہ ہوتا ہے اور اس میں بارہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں،تو ساری دنیا میں،دنیابھرکے مغربی،صہیونی ،صلیبی میڈیامیں زلزلہ برپاہوجاتا ہے اور سب اظہارِ رائے کی آزادی کی دہائی دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو نرغے میں لینے کے لیے پر تولنے لگتے ہیں۔یہ مغربی دنیا کی وہ دہری پالیسی ہے،جس پر وہ گزشتہ تقریباً سو سالوں سے عمل پیرا ہے اوردوسری جانب عربی اسلامی دنیا اور اس کے احمق حکمراں ہیں،جوجانے یا اَن جانے ان ہی کے آلۂ کاربنے ہوئے ہیں،ایسے میں تو ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ ’خداخیرکرے!‘۔
جواب دیں