در حقیقت نظافت وطہارت اور شائستگی یہ دو ایسی چیزیں ہیں جن میں دنیاوآخرت کی حقیقی ومعنوی خیر اور بھلائی کا راز مضمر ہے اورزندگی کا اصل لطف در اصل اسی حقیقی راز کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا لینے میں ہے،ایک انسان چاہے ترقی کی معراج پر ہواور وہ اپنی طاقت وقوت سے پوری دنیا کو فتح کرلینے کا دعویٰ بھی کرتا ہو،لیکن اگر اس کی ذات اور زندگی میں یہ پاکیزہ صفات نہیں ہیں، تو ایک کم درجہ کا انسان بھی اس کو وہ عزت ومقام نہیں دے گا جو وہ ایک پاکبازاور نظافت پسند بوریہ نشیں کو دیتا ہے۔نظافت وطہارت اور نفاست و شائستگی سے انسان کی خودداری، غیرت اور وقار کا پتا چلتاہے۔ان سے محفل کی زینت اور ماحول کی رنگت میں چار چاند لگتا ہے، فضا خوشگوار اورگردوپیش پُربہار معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ اگر کسی محفل و مجلس کو ظاہری زیب وزینت، روشنی اور قمقمے سے خوب آراستہ وپیراستہ کردیا جائے، لیکن اگر اس کا ماحول غبار آلود، گردوپیش مکدر اور فرش پر کوڑے کرکٹ پڑے ہوں ،تو اس کی ساری آرائش وزیبائش بے کار ہے، یہ ایسا ہی ہے گویا کہ کے جانوروں کی لید پر سونے کا پانی چڑھادیا گیا ہو، یا کسی نے میلے کپڑے پر مشک عنبر انڈیل دیے ہوں، نفاست سے انسانی سوچوں میں پاکیزگی، جسم میں قوت، خیالات میں ارتقاء ، کردار میں بلندی، معاشرت میں ہم آہنگی اور خلوت میں اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے؛ حتی کہ طہارت وپاکیزگی، نفاست اور شائستگی کے بغیر دینی امور بھی ناقص اور دم بریدہ ہوجاتے ہیں۔ اس نظافت اور شائستگی کا تعلق دنیوی زندگی سے تو سے ہے ہی، لیکن ان کا تعلق اُخروی زندگی سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔ اسی وجہ سے ہادیِ اعظم اور معلمِ انسانیت ﷺ نے اس کو نصف ایمان کہا ہے ۔
نظافت کا لفظ عام ہے، یہ ظاہری وباطنی دونوں طرح کی نفاست کو شامل ہے، بلکہ اس معاشرتی زندگی میں باطنی نظافت اور صفائی کی زیادہ اہمیت ہے ، چنانچہ ایک انسان اگر صرف اپنی ظاہری صفائی ہی پر توجہ دیتا ہے ، اپنی باطن کی صفائی کی طرف سے بالکل ہی بے اعتنائی برتتا ہے، تو اس کو زندگی کا اصل لطف اور مز ہ کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔پورے عالم میں جو آج صفائی کے نام سے مشن چلائی جارہی ہے، وہ صرف باہر کی صفائی کی ہے ، باطن کی صفائی کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے ،جس کے باوصف ہر چہار طرف چوری ڈکیتی، قتل وغارت گری، ظلم وجور، ناانصافی وبدامنی کا بازار گرم ہے ، ہم جنت نشاں محل اور بنگلے میں تو ضرورو رہ رہے ہیں،لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اتنی پیاری فضا اور بہت ساری سہولتوں کے باوجود لوگ کیوں اتنی تعداد میں خودکشی کررہے ہیں؟شراب نوشی اور نشہ خوری کی شرح میں اس قدر اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ظاہری صفائی کا تو لحاظ رکھ لیا ہے ، مگر باطنی صفائی سے بالکل چشم پوشی اور کنارہ کشی اختیار کر لیا ہے؛بلکہ اس وقت کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہمارا اکثر معاشرہ ظاہری صفائی سے بھی کوسوں دور ہے ، خصوصا آج مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور پریہ تصور کیا جاتا ہے کہ جہاں گندگی ہوگی وہاں مسلمان ہوں گے، یا جس محلے میں اگر سب سے زیادہ گندگی ہوگی ، تو وہاں مسلمان ہی آباد ہوں گے،معلم انسانیتﷺ نے تو ہمیں’’النظافۃ شطر الایمان‘‘ (صفائی آدھا ایمان ہے) کی تعلیم دی تھی، مگر آج ہم نے اپنے عمل سے اس کو ’اللہ کی پناہ‘ النجاسۃ شطرالایمان بنا دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اندرونِ خانہ سے لے کر بیرونِ خانہ اور ظاہر وباطن ہر ایک کو پلید کردیا ہے ، پھر یقیناًاس کا وبال تو آنا ہی ہے ، یہ تو محسن انسانیت ﷺ ہیں جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاء کردی کہ اے اللہ میری امت پر عذاب عام نازل نہ فرمانا، ورنہ توہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ قوم عاد کی طرح اکھیڑ دیئے جائیں اور قوم لوط کی طرح زمین میں دھنسا دیئے جائیں۔ اس کے باوجود ہماری گنگا الٹی ہی بہتی ہے کہ جس چیز میں ہمیں کیفیت کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے ، اس کوچھوڑکر جب ہم کوئی دنیاوی چیز؛ جس کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے خریدتے یا بیچتے ہیں،تو اس میں کیفیت کا ضرور خیال رکھتے ہیں، اس کی ضمانت اور گارنٹی تلاش کرتے ہیں، کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ خود ہماری کیفیت اورکوالیٹی کتنی اچھی ہے، ہمارے اعمال اور کیریکٹر کیسے ہیں؟ حقیقت ہے کہ جب تک ہمارباطن پاک نہیں ہوگا ہم کبھی بھی ذہنی سکون حاصل نہیں کرسکتے۔ چنانچہ جس طرح دنیاوی امور کے اندر ظاہر وباطن دونوں ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے جسم کے اندر بھی ظاہر اور باطن ہے ،سو اگر ہمارا باطن درست ہے، تو ظاہر کے سارے اعمال درست ہون گے۔ہادیِ اعظم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تمہارے جسم کے اندر ایک لوتھڑا ہے ، اگر وہ صحیح ہے تو تمہارے سارے اعضاء برابر کام کریں گے، لیکن اگر اس کے اندر بگاڑ پیدا ہوا توتمہارے ظاہر کے اندر بھی بگاڑ پیدا ہوگا اور باطن کے اندر بھی اور وہ ہے دل؛اسی لیے تو اولیاء اللہ سب سے پہلے دل پر محنت کراتے ہیں پھر جب وہ نکھر کر بالکل شیشہ بن جاتا ہے ،تو بفضل باری اس پر باطنی امور بھی منکشف ہونے لگتے ہیں،جنہیں صوفیا کی اصطلاح میں کشف سے تعبیر کرتے ہیں۔ کشف درحقیقت باطنی امور کے اصلاح کی معراج کا نام ہے، جب انسان اس کیفیت پر پہنچ جاتا ہے، تو اس پر حال طاری ہونے لگتا ہے اور اس کے دل پر اسرارِ کائنات وقتا فوقتابحکم خداوندی منعکس ہوجاتے ہیں، غرضیکہ جب انسان اس صفت کو اپنا لیتاہے، تو اس کا ظاہر بھی شیشہ لگتا ہے اور باطن بھی برف کی سیل کی طرح بالکل سفید ہوجاتا ہے۔ اور جب ایک انسان کا دل ودماغ بالکل صاف شفاف ہوتا ہے ، تو اس کے دل سے کدورت نکل جاتی ہے ، پھراس کے دل کے صاف وشفاف آئینے میں ہر انسان کی شکل صاف ہی نظر آتی ہے اور کسی کا بھی دل جب کسی کی طرف سے بالکل مطمئن ہو ، کسی قسم کی کوئی خلش نہ تو اختلاف اور فساد کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ ہمارے ظاہرو باطن کیسے صاف ہوں؟ تو اس کے لیے دو طرح کے اعمال ہیں، ایک تو یہ کہ ہم اپنے گردوپیش کے ماحول اور فضا کو بالکل صاف رکھیں ، ماحول اور فضا کو پُر بہار اور عطربیز بنانے کے لیے شجرکاری کریں، پھولوں کے پودے لگائیں، ان کی مناسب طریقے سے آبیاری وآبپاشی کریں، ان کی شاخیں اگر بڑھ جاتی ہیں ، تو کسی ماہر مالی سے ان کی تراش وخراش کروائیں ، ان کے ارد گرد کسی بھی قسم کی گندگی کو نہ آنے دیں، غرضیکہ اپنے چہار طرف بالکل صاف وشفاف ماحول فراہم کریں اور ظاہر ہے کہ جب پاکیزہ اور عطر بیز ماحول کی مخمور ہوائیں اورپھولوں کی بھینی بھینی خوشبوئیں مشامِ جاں کو معطر کریں گی، تو اس سے دل کوضرورسرورحاصل ہوگا ،پھراس کے ذریعہ دل پر جو تصویربنے گی وہ بالکل معطر، خوشگوار اور صاف وشفاف ہوگی، اس سے ایک انسان کو یقیناًظاہری خوشی اور طمانینت حاصل ہوگی اور یہی ظاہر کی صفائی ہے۔ اور باطن کی صفائی کے لیے دوسراعمل ذکرِ الہی ہے کہ ظاہری صفائی کا مکمل خیال رکھتے ہوئے باطن کی زنگ کو دور کرنے اور اس کو منقح کرنے کے لیے اپنے دل کو باطل کی گندگیوں سے بھی دور رکھیں ، کبھی ان جانے اور ناگہانی طور پر کوئی خطا ہوگئی ہے ، تو اس کو ذکر اللہ کے پانی سے دور کریں اور اگر اس گندگی کی بو زائل نہیں ہورہی ہے تو اس پرلاالہ الا اللہ کی خوشبو چھڑکیں اور جب ہمارا ظاہر وباطن بالکل صاف اور پاک ہوجائے گا ، تو ہم پر خیر ہی خیر کی بارش ہوگی ، رحمتِ الٰہیہ کے دروازے ہماری طرف کھول دیئے جائیں گے اور پھر ہماری مثال ہوگی:
تردامنی پہ شیخ میری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
جواب دیں