ملک کے کئی شہروں سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’اودھ نامہ‘‘ کے ممبئی ایڈیشن کی مدیرہ شیریں دلوی پر پتہ نہیں خود کو ذلالت اور غلاظت کی پستیوں میں گرانے کا کیا شوق تھا کہ چارلی ایبڈو کے کارٹون کے شائع کرکے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے اخبار، اردو اخبارات اور پوری اردو صحافت کو ذلیل و خوار کر ڈالا اور یہی کام دہلی کے روزنامے عزیز الہند کے مدیر عزیر برنی غالباً اس سے ایک دو دن قبل کرکے اپنی بلند قامتی کو کوتاہ قامتی میں تبدیل کرچکے تھے۔
راقم الحروف عام طور پر واقعات سے متعلق اصحاب کے نام لکھنے سے گریز کرتا ہے لیکن اس بار قارئین کو بتانے کے لئے امت کے یہ گناہ گارکون ہیں ان کے نام ہم نے لکھے ہیں گو کہ اخبارات میں معذرت نامے شائع ہوئے ہیں لیکن یہ قابل قبول نہیں ہیں کہ عذرگناہ بدتراز گنا۔ والی بات ہے یہ لوگ معاف کئے جانے کے نہیں سزا دئیے جانے کے مستحق ہیں۔
عزیز الہند کے عزیز برنی جیسے کہنہ مشق اور جید صحافی کے تعلق سے یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی نادانستگی میں ہوسکتی ہے جبکہ اودھ نامہ کی شیریں دلوی کے بارے میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ محترمہ نے اس معاملہ پر اپنے ساتھیوں کی مخالفت کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہم کو روشن خیال اور فراخ دل ہونا چاہئے۔
نادانستگی سے یا سہواً کئی غیر اہم غیر معروف بات یا واقعہ شائع ہو سکتا ہے لیکن چارلی ایبڈو کے حوالے سے کسی ناقابل اشاعت اور حساس قسم کا دل آزار مواد کا نادانستگی میں شائع ہونا قطعی طور پر ناقابل فہم، ناقابل یقین اور ناقابل قبول ہے۔ ایسی غلطی تو ناتجربہ کار صحافی بھی نہیں کرسکتا ہے تو کجا چیف ایڈیٹر یہ غلطی کرے جو بھی صحافی یہ غلطی کرتا ہے وہ معذرت کا نہیں سزا کا مستحق ہے ایسے لوگوں کو صحافت سے ہی الگ ہوجانا چاہئے۔
شیریں دلوی یا عزیز برنی دونوں کے بارے میں یہ شبہ کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان دونوں نے دشمنان اسلام کے کہنے پر یا کسی اور قابل مذمت مقصد سے یہ ذلیل اقدام کیا ہے۔ کسی زمانے میں صحافت میں کرپشن اور زرخرید ہونے کا تصور نہ تھا ۔ صحافی ٹوٹ جاتے تھے لچک نہیں دکھاتے تھے۔ اصولوں کی خاطر روز گار تک قربان کرسکتے تھے لیکن آج تو وہ زمانہ ہے کہ ’’ہر چیز بکتی ہے قیمت لگانے والا چاہئے‘‘ چارلی ایبڈو جیسے رسالوں کے ناشرین مغرب کی اسلام دشمن طاقتیں، عالمی صیہونی تحریک اور اسرائیل یا موساد سب کے مقاصد ایک ہیں۔ اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر اسلام صلم کے خلاف پروپگنڈے کے لئے ان عناصر کے پاس مال وزر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور ملالہ یوسف زئی سب ان ہی اسلام دشمن عناصر کے پروردہ ہی نہیں بلکہ زیر کفالت Sponsored ہیں اور ایسے افراد جو قابل خرید ہوں ان کی تلاش رہتی ہے۔
عزیز برنی بے شک اپنی بے باک تحریروں اور ٹی وی مباحثوں میں بے باکی کے لئے مشہور ہیں ان کی بعض اچھی تحریروں کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مسلم مفادات اور نقطہ نظر کو بلاشبہ انہوں نے بڑی بے جگری سے پیش کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی بعض باتیں متنازعہ اور مشتبہ رہی ہیں جو ان کی شخصیت اور کردار کو مشتبہ اور مشکوک بناتی ہے۔ عزیز برنی کے اسرائیل سے ایسے تعلقا ت رہے ہیں کہ چند سال قبل اپنے ماتحت صحافیوں اور چند زر خرید مولویوں کے وفد کو اسرائیل کے خیر سگالی دورہ پر برنی صاحب نے بجھوایا تھا خود بھی جانے والے تھے مگر نہ جانے کیوں نہیں گئے۔ برنی صاحب نے آر ایس ایس کے خوف سے اس سے معذرت خواہی بھی کی ہے ان کے کردار کے منفی پہلو ان کے کردار کے مثبت پہلوؤں پر غالب ہیں۔ رہیں شیریں دلوی تو شائد انہوں نے خود کو خبروں میں نمایاں کرنے کے لئے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے غلاظت کا ٹوکرا اپنے سر پر انڈیل لیا ہے۔
ان کارٹونوں کی اشاعت کے چند واہیات اور بے جواز مقاصد کا ذکر کارٹون شائع کرنے والی خاتون شیریں دلوی اور دوسروں نے کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کا احترام ہے تو سوال یہ ہے کہ اپنے ملک کا کوئی بندہ کچھ کہے تو بے شک اس کا احترام کریں (جس طرح سنگھ پریوار کی ہرزہ سرائی کو مسلمان برداشت کررے ہیں) فرانس والوں سے محترمہ دلوی اور محترم برنی صاحب کا کیا تعلق ہے؟ جوان کے اظہار خیال کی آزادی کا آپ احترام کررہے ہیں؟ دوسرا مقصد روشن خیالی اورفراخ دلی کی ضرورت ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ کیسی روشن خیالی اور فراخ دلی ہے کہ اپنی توہین نہ صرف برداشت کی جائے بلکہ خود ہی اس کی تشہیر کی جائے اگر کوئی کسی کو بے عزت کرے تو خاموشی اختیار کرنے کا تو جواز ہوسکتا ہے لیکن اپنی ہی بے عزتی اور توہین کی تشہیر کرتے ہوئے شائد ہی کسی نے دیکھا ہو یا سنا ہو یہ تو یہ ثابت کرتا ہے کہ جو رسول اکرم صلعم کی ذات مقدس سے خود کو لاتعلق سمجھنے والا ہی ہمارے پیارے نبی کی شان میں گستاخی کی ناپاک کوشش کو اپنی ذات سے علاحدہ تصور کرے گا جب کوئی کسی سے کوئی تعلق ہی نہ سمجھے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے یا کسی بھی حدتک جاکر اس کو روشن خیالی، فراخ دلی، صبر و تحمل اور جدید دور کے ترقی پسند نظریات پر عمل کہہ سکتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب برنی صاحب اور دلوی صاحبہ خود کے مسلمان ہونے سے انکار کردیں لیکن اللہ کے کرم سے کوئی ایسی بات نہیں ہے لہٰذا سرکار دو عالم صلعم کی ذات کے تعلق سے چارلی ایبڈو کی ذلیل حرکات کے دفاع کے لئے ترقی پسندی، فراخ دلی، روشن خیالی، لبرل ہونے اور اظہار خیال کی آزادی کے ہتھیار کام نہیں آسکتے ہیں۔ اس لئے اس ناقابل معافی جرم کا ازالہ معذرت خواہی نہیں ہے بلکہ قانون کے مطابق سزا برداشت کرنا ہے اور تو بہ و استغفار ہے۔
اودھ نامہ کے خلاف مہاراشٹرا کے عوام، پولیس اور صحافت نے اپنا فرض ادا کیا ہے لیکن اس جرم کے ذمہ داروں کو سزا ملنی ضروری ہے اور سزا بھی سخت ہونی چاہئے۔
دوسری طرف برنی صاحب کی حرکت پر دلی میں انتخابات سرگرمیوں کی وجہ سے اور شائد کچھ اس وجہ سے کہ دہلی میں عزیز الہند زیادہ پڑھیا نہیں جاتا ہے کوئی سخت ردِعمل سامنے نہیں آیا لیکن مغربی یوپی کے اضلاع میں شدید ردِعمل سامنے آیا لیکن جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ خاصہ ہلکا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان و کیل سامنے آئیں بہ یک وقت کئی تھانوں میں ایف آئی آر درج کروانا چاہئے اور مقدمہ کی تیاریاں کرنی چاہئے تاکہ پولیس یا استغاثہ کمزور مقدمہ نہ بنائے اودھ نامہ ہو یا عزیز الہند دونوں اخبارات کا بائیکاٹ ضروری ہے۔ ان دونوں اخباروں کو خریدنا اور اشتہار دینا فوراً بند کردینا چاہئے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان بے ضمیر اور خوشامدی علماء، مسلمان لیڈروں اور دانشوروں کی غیرت کو کیا ہوا جو ٹی وی پراعظم خان، اسد الدین اویسی، اکبر الدین اویسی اور کسی بھی حق گومسلمان کی مذمت ٹی وی والوں کو خوش کرنے کے لئے کرسکتے ہیں مگر ناموس رسالت ؐ پر ایک لفظ نہیں کہہ سکے۔ کسی اخبار میں بیان تک نہیں دیا گیا ان صاحبان کو بھی خدا کا خوف نہیں رہا ہے
جواب دیں