تاریخ ہر ایک باب کو دہرائے گی

دوسری بات یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے الیکشن ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور کوئی پارلیمنٹ کا امیدوار اگر ضرورت سمجھتا تھا تو اپنے حلقہ کے پانچ اسمبلی کے امیدواروں میں سے کسی کو تبدیل کرا دیتا تھا اور جس کا ٹکٹ بدل دیا جاتا تھا اس کی ہمت نہیں تھی کہ وہ احتجاج کرے یا امیدوار کی مخالفت کرے۔
اس کی ابتدا سب سے پہلے 1967 ء میں ہوئی جب کانگریس پھٹ چکی تھی اور جس کانگریس کی صدر یا سربراہ مسز اندرا گاندھی تھیں اس وقت کوئی بزرگ ان کی مخالفت کرنے والا نہیں تھا اسی لئے انہوں نے ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیا جو ایک دن بھی کانگریس کے ممبر نہیں رہے جیسے وی آر موہن جو ملک کی ایک بہت بڑی شراب کی فیکٹری ڈائر میکن کے مالک تھے۔ اندراجی نے انہیں لکھنؤ سے ٹکٹ دیا اور ان سے کہا کہ فیکٹری سے ڈائر کا نام نکال دو انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا نام موہن میکن کردیا۔ لیکن اندرا جی کے اس فیصلہ سے ہر کانگریسی ناراض ہوگیا۔ سابق جج مسٹر آنند نرائن ملّا نے شہر کی نبض دیکھ کر آزاد لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وی آر موہن نے بلامبالغہ کئی لاکھ روپئے اس زمانہ میں خرچ کئے اور ملّا صاحب نے شاید پانچ ہزار بھی خرچ نہیں کئے ہوں گے لیکن وی آر موہن کو کانگریسیوں نے بری طرح ہرا دیا پورے ملک میں نہ جانے اندراجی کے نہ جانے کتنے امیدواروں کا یہی انجام ہوا اس لئے کہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ پیسے والوں کو ٹکٹ دیا اور ان سے دل کھول کر رقم لی۔
اس الیکشن کے ٹھیک دو سال کے بعد لکھنؤ وسطی حلقہ سے اندرا کانگریس نے بابو ترلوکی سنگھ کو اسمبلی کا ٹکٹ دیا اس حلقہ سے بابو مہابیر پرشاد شریواستو کئی بار جیت چکے تھے اور وزیر بھی رہ چکے تھے۔ بابو ترلوکی سنگھ آچاریہ کرپلانی، جے پرکاش نرائن، ڈاکٹر لوہیا کے ساتھ اس وقت سے تھے جب جواہر لال وزیر اعظم بنے تھے پھر جب اکیلے بابو ترلوکی سنگھ اور جے پرکاش رہ گئے تو ترلوکی سنگھ نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی پرانے کانگریسی اسے برداشت نہ کرسکے اور بابو مہابیر پرشاد کے سارے پرانے ساتھی ان کے مخالف ہوگئے اور ترلوکی سنگھ ہار گئے۔ 1971 ء میں یونس سلیم صاحب کو اندرا کانگریس کے جنرل سکریٹری بہوگنا جی نے علی گڑھ سے ٹکٹ دے دیا۔ وہاں سے پرانے کانگریسی لیڈر موہن لال گوتم برسوں سے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔ یونس سلیم صاحب پہلے گول کنڈہ آندھرا سے ایم پی تھے آندھرا کے وزیر اعلیٰ سے ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے برہمانند ریڈی نے اعلان کردیا کہ میں آندھرا سے یونس سلیم کو ٹکٹ نہیں دوں گا۔ بہوگنا جی جانتے تھے کہ یونس سلیم صاحب مسلمانوں کے لیڈر ہیں انہوں نے فوراً اعلان کردیا کہ یونس سلیم صاحب یوپی میں جہاں سے لڑنا چاہیں ہم وہاں سے ٹکٹ دیں گے۔ انہوں نے علی گڑھ کا انتخاب کیا۔ موہن لال گوتم نے ان کی مخالفت میں پوری فوج لگادی الیکشن کے درمیان فساد کرا دیا کرفیو لگ گیا اور یونس سلیم صاحب کو ہروادیا ایسے بہت سے واقعات ہمارے ذہن میں بھی ہیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کو یاد ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جو آج ہمارے نام سے مضمون چھپا ہے اور جسے ہم نے کل دن میں لکھا تھا وہی آج ہر اخبار کی شاہ سرخی ہے کہ پرانے ورکروں کو نظرانداز کرنا اور نئے آنے والوں کو گلے لگانا امت شاہ کی ناتجربہ کاری ہے جو بی جے پی کو فائدہ نہیں نقصان پہونچائے گی۔ آج سب نے پڑھ لیا کہ جس ستیش اپادھیائے کو وزیر اعلیٰ بننے کی اُمید تھی جو صوبائی صدر کی حیثیت سے ٹکٹ بانٹنے کا حق رکھتا تھا خود سے ٹکٹ نہیں دیا اور وہ بیچارہ کانگریس کے صوبائی صدر سردار لوکی طرح کہہ رہا ہے کہ یہ تو میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے کہ میں خود نہیں لڑوں گا بلکہ 70 امیدواروں کو جتاکر حکومت بنواؤں گا۔ اب یہ تو وہی جانتے ہیں یا ہم جانتے ہیں کہ رات میں بند کمرے میں دارو کی بوتل اور گلاسوں کو گواہ بناکر ان کے حمایتی انہیں یقین دلارہے ہوں گے کہ وزیر اعلیٰ آپ بنیں گے ورنہ کوئی نہیں بنے گا۔ اور ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ یہی ہوگا اور شری مودی کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کا شیر اندر سے گیدڑ ہے۔

«
»

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے