جمہوریت اور ہندوستان

اس کے علاوہ بھی دیگر اصحاب قلم نے جمہوریت کی تعریفیں اپنے اپنے طریقے سے کی ہیں تاہم مذکورہ سبھی تعریفیں سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کی تعریف جمہوریت ’’لوگوں کے لئے ،لوگوں کے ذریعے،لوگوں کی حکومت ،،اور مشہور یونانی مفکر ہیرو ڈوٹس کی تعریف جمہوریت ’’ایسی حکومت جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرہ کو حاصل ہو ،، سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہیں، لیکن غور و فکر کرنے والی بات یہ ہے کہ کیا ابراہم لنکن اور ہیرو ڈوٹس کی تعریفیں جامع اور مانع ہیں ؟تو میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نہیں۔ کیونکہ مختلف ممالک میں مختلف نظام و قوانین بنتے ہیں اور بگڑتے ہیں چاہے اس میں عوام کی مرضیات کا دخل ہو یا نہ ہو ؟ اب دیکھئے نا! ملک عزیز ہندوستان67واںیوم جمہوریہ کا جشن منانے کے لئیتیار ہے لیکن مودی حکومت عوام کی اکثریت کی عدم خواہش کے باوجود گیتا کو قومی مقدس کتاب ،گائیکو قومی مقدس جانور قرار دینے پر اور نصاب تعلیم میں ا?رایس ایس کی خواہشات کے مطابق تغیر و تبدل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔کیا یہی ہندوستان کی جمہوریت ہے ؟
افسوس صد افسوس! ہمارے قائدین قوم و ملت نے اپنے محبوب عوام کو بس جمہوریت کا مطلب اتنابتا رکھا ہے کہ’’جب جب اسمبلی اور لوک سبھا کا الیکشن آئے ہمیں اپنا قیمتی ووٹ دے کر اسمبلی یا لوک سبھا پہونچا دیں اور پانچ سال تک ٹکر ٹکر تاکتے رہیں،،اس کیبعد ہماری مرضی چلے گی تم بیوقوفوں کی نہیں۔یقیناً سقراط نے اس گھٹیا جمہوریت کو بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اسی لئے کہا تھا :’’حکومت چننے کا حق صرف ان لوگوں کو ہونا چاہئے جو اچھے برے کی تمیز رکھتے ہوں ،،لیکن علامہ اقبال نے کہا :آپ سچ کہہ رہے ہیں مگر گستاخی معاف، اب ہماریدور میں جمہوریت کامطلب ہے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے 
اقبال ایسی جمہوریت کے سخت مخالف تھے جس کے پردہ میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہو ،سرمایہ دارانہ اور مغربی نظام ہو ،ایسی جمہوریت کو وہ آزادی کی نیلم پری نہیں بلکہ جمہوری قبا میں ملبوس دیو استبداد سے تعبیر کرتے ہیں 
ہے وہی سازکہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیراز نوائے قیصری۔۔۔۔دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری۔۔۔۔مجلس آئین واصلاح ورعایات وحقوق طب مغرب میں مزے میٹھیاثر خواب آوری [خضرراہ
اقبال یہیں پر نہیں رکے اور مزید فرمایا تونیکیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیزسے تاریک تر
تاریخ آزادء ہند کے ادنیٰ طالب علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ جب ا?زادی کی لڑائی لڑی جا رہی تھی اس وقت مسلمانان ہند دو نظریات وخیالات سے بھی محاذ آراء4 تھے۔قائداعظم پاکستان محمد علی جناح اور علامہ اقبال مسلمانان ہند کے لئے علیٰحدہ وطن کے حامی تھے تو اکابرین جمعیہ العلماء4 مسلم ، ہندو،سکھ ،عیسائی کے ساتھ مل کر رہنے کو عین جمہوریت سمجھتے تھے چنانچہ جب شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی رائے ’’ایسی جمہوریت جس میں مسلمان ،ہندو ،سکھ، عیسائی سب شامل ہوں حاصل کرنے کے لئے سب کو متفقہ کوشش کرنی چاہئیے،ایسی مشترکہ آزادی اسلام کے عین مطابق ہے اور اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ،،۷?جولائی ۷۳۹۱ء4 میں اخبار زمزم میں شائع ہوئی تو علامہ اقبال نے جواب میں لکھا ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریزکی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کو ختم کرنا ہمارا اولیں فرض ہے لیکن ا?زادی سے ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں بلکہ ہمارا اولیں مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان تاقتور ہو جا ئیں ،،قطع نظر اس سے کہ محمد علی جناح اورعلامہ ا قبال اپنے نظریات میں درست تھے یا اکابرین جمعی العلماء4 ہند اپنے خیالات میں ،تاہم نہ ہی جناح اور اقبال نے اس اسلامی ملک پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں آج آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہے ،بھائی اپنے بھائی کی جان لینے پر تلا ہوا ہے ،اہل ایمان چند ڈالر کے عوض اپنا ایمان فروخت کر رہے ہیں ،لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور نہ ہی جمعیہ العلماء4 نے اس جمہوری ہندوستان کا سوچا تھا جہاںآج مسلمان دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں ،فرقہ وارانہ تشدد کیشکار ہو رہے ہیں ،احترام اسلامیت پامال کیا جا رہا ہے۔
مہاتما گاندھی کی آتما یقیناًافسردہ ہو گی اور کہہ رہی ہوگی جس ہندوستان کے لئے میں نے کہا تھا ’’ہم سب انسانیت اور وطنیت کے ناطے ایک ہیں ،سب پر یکساں نظر رکھنا ہمارا انسانی فریضہ ہے ،،آج اسے مٹھی بھر شر پسندوں نے فسادستان بنا ڈالا ،میں نے ایسے بھارت کا سپنا نہیں دیکھا تھا جہاں عدل و انصاف کا خون ہو رہا ہو ،عدلیہ یرغمال بنا لیا گیا ہو ،معصوم کو مجرم اور مجرم کو معصوم قرار دیا جا رہا ہو۔
ا س بات سے کسی کو انکار نہیں گاندھی جی اپنے دل میں انسانیت کا درد رکھتے تھے ،دلت اور پسماندہ طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے ،مسلمانوں کے گھروں میں بھی جا کر بیٹھ جاتے تھے ،ان سب کا دکھ درد سنتے تھے ، انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا یہ شدر ہے ،یہ مسلمان ہے ،یہ غریب ہے لیکن افسوس آج انہی کی ریاست میں پیدا ہونے والے ،انہی کی زبان بو لنے والینے گاندھی جینتی کو ،،صفائی مہم ،،کا نام دے دیا ،ان کے قاتل گوڈسے کو بھگوان بنانے پر بضد ہیں ،سردار پٹیل کا قد گاندھی جی سے اونچا کرنے پر اپنی ساری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے یورپی ممالک کے جمہوری ٹھیکیداروں نے جس طرح جمہوریت کے نام پر2000ء میں ڈیڑھ مہینے تک افغانستان پر بمباری کی2003ء میں عراق میں خونریز جنگ کی ،لاکھوں مردوں ،عورتوں اور بچوں کیخون کئے اسی طرح ہندوستانی جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے۔ کبھی دنیا میں ہماری جمہوریت کی مثال دی جاتی تھی لیکن ستمبر 1990 ء4 میں اڈوانی کے ذریعہ شروع کی گئی رتھ یاتر ا نے ہندوستانی جمہوریت کو قعر مذلت میں دھکیل دیا اس وقت فضا اتنی مکدر ہو گئی تھی کے تقریباًسارے صوبے میں فساد بھڑک اٹھا تھا ،ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب داغدار ہو گئی تھی، اور اب جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں ایسا لگ رہا ہے تمام انتہا پسند اور فرقہ پرست تنظیموں کو من چاہی مرادیں مل گئی ہوں۔کبھی ذات پات کی تنازعات کھڑی کر کے جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے تو کبھی لوجہاد،گھر واپسی اور بہو لاؤ دیش بچاؤ جیسے اشتعال انگیز نعرے دیکر جمہوریت کو ٹھینگا دکھایا جا رہا ہے اورحکومت خاموش۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی جمہوری ڈکشنری میں اتحاد ویکجہتی ،خلوص ومحبت ،تحفظ حقوق انسانیت ،احترام ا?دمیت اور عدل انصاف کی بقا جیسے الفاظ ندارد ہیں ،ورنہ کیا وجہ ہے کہ معمولی معمولی بہانے فساد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور اس عتاب کے شکار اکثر و بیشتر ایک خاص طبقہ ہی ہوتے ہیں۔گجرات ،میرٹھ،مظفر نگر ، مراد ا?باد اور اب مظفر پور کے دردناک مناظر سب کے سامنے عیاں ہیں۔نیزکہیں بھی کوئی حادثہ ہو جا ئے الزام مسلمانوں پر ،چاہیوہ سادھوی پرگیہ سنگھ کی کارستانی ہو یا دیانند پانڈیاور کرنل پروہت کی شیطانی۔ڈاکٹر کلیم عاجز نے صحیح فرمایاہے 
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو 
ہماری چند بکاؤ میڈیا کا حال یہ ہے کہ پبلیسٹی پانے کے لئے ا?نکھیں موند کر شک نہیں یقین کی سوئی مسلمانوں کی طرف ہی گھما دیتی ہیں۔ پولیس والوں کا حال تو اس سے برا ہے ،تحقیق وتفتیش کے لئے جائیحادثہ پر پہونچتے بھی نہیں اور سراغ مل جاتا ہے کہ اس گھٹنا کو انجام دینے والیعبداللہ ،محمد احمد وغیرہ وغیرہ ہیں۔ان محافظین وطن کی ذہنی تربیت اور خباثت کا اندازہ گجرات میں ماک ڈرل واقعہ سے جگ ظاہر ہو چکا ہے،حالانکہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اور اس ک روح وہاں کی پولیس اور اس کا حفاظتی دستہ ہوتا ہے ان کا کردار جتنا صاف وشفاف ہوگا حکومت بھی اتنی جمہوریت ہوگی ،لیکن ہندوستانی پولیس کا حال
پنجاب پولیں کے سابق سربراہ کے ایس ڈھلوں سے سنیئے ’’ملک کی پولیس کا کردار کچھ ایسا ہے ہماری پولیس بہت جلد ی اقتدار کے حق میں ہو جاتی ہے حکمراں جو چاہتاہے پولیس وہی بن جاتی ہے۔جب تک ہندوستانی پولیس اپنی آزاد شخصیت نہیں بنائی گی اور اس کی رائے،تجزیہ اور تحقیق پر مبنی نہیں ہوگی تب تک یہ چلتا رہیگا ،،مدھیہ پردیش کے ایک سابق پولیس سربراہ کہتے ہیں’’ہماری پولیس فرقہ وارانہ رنگ میں سب سے پہلے رنگ جاتی ہے، یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ،،انہوں نے مزید کہا :مدھیہ پردیش میں بہت سے ایسے تھانے ہیں جہاں مسلمان جاکر شکایت نہیں کر سکتا کیوں کہ وہاں کہا جاتا ہے پاکستان جاکر شکایت کرو ،،اسی لئے سابق صدر جمہوریہ ہند ا?ر کے نارائنن نے ایک مرتبہ کہا تھا :’’آئین ناکام نہیں ہوا ہے ہم اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں،،۔
لہٰذا جمہوری ملک کا نعرہ لگانے والوں اور جمہوریت پسندوں کو چاہئیے کہ سبھی مذاہب کے ماننے والوں کویکساں حقوق دیں ،ان کی جان ،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کریں،ظلم وتشددکے خلاف آوازاٹھائیں،فسطائی طاقتوں کی سرکوبی کریں اور منصفانہ اقدار کو فروغ دیں تب جاکر کہیں ہندوستان حقیقی سیکولر ملک کہلائیگا ۔ورنہ یوم جمہوریہ بے معنیٰ اور جشن جمہوریت چھلاوا ہوگا۔(

«
»

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے