سنگھ پریوار کیوں چاہتا ہے اسلام اور عیسائیت کے بیچ عالمی جنگ؟

کیا اس جنگ میں کمیونسٹ طاقتوں کی بھی مداخلت ہوگی؟ کیا یہی جنگ دنیا کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟ ایسا ہوگا یا نہیں ،یہ تو صرف ایک تصوارتی بات ہے مگر سنگھ پریوار کا سپنا ہے کہ ایسا ہو اور وہ اس آگ پر ہاتھ سینکیں۔ ایسا وہ اس لئے بھی سوچ رہا ہے کہ اسے اسلام اور عیسائیت دونوں سے چڑ ہے۔ وہ دونوں میں سے کسی کو پسند نہیں کرتا اور اسے لگتا ہے کہ ہندوازم کو ان دونوں سے خطرہ ہے۔ پہلے اسلام نے ہندووں کو متاثر کیا اور کروڑوں ہندو اسلام کے دامن میں پناہ گزیں ہوئے اور آج عیسائی مشنریاں ہندووں کو عیسائی بنا رہی ہیں۔ پہلے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت اس قسم کا سپنا دیکھ رہے تھے مگراب وشو ہند وپرشد کے لیڈر اشوک سنگھل بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں عیسائی اور مسلمان آپس میں ٹکرائیں اور وہ لوگ اپنے گھر بیٹھے دونوں کی بربادی کا تماشہ دیکھیں۔ حال ہی میں اشوک سنگھل نے اپنی تقریر کے دوران کہا ہے کہ دنیا کے سامنے اب تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے اور اور یہ عالمی جنگ اسلام اور عیسائیت کے بیچ ہوگی ۔ ان کے مطابق ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ ایشیا کے بعد یوروپ اورآسڑیلیا تک پہنچ چکی ہے اور دنیا میں بدامنی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس سے جنگ عظیم کا اندیشہ ہے۔انھوں نے اس جنگ میں بھارت کی مداخلت کی بات نہیں کہی البتہ یہ ضرور دہرایا کہ آٹھ سو سال بعد یہاں ہندووں کی سرکار آئی ہے اور ان کے ہاتھ میں اقتدار آیا ہے۔غور طلب ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی آگ پر ہاتھ سینکنے کا سپنا تمام ہندتو وادی طاقتوں کا ہے اور اشول سنگھل سے قبل اس قسم کی بات موہن بھاگوت بھی کہہ چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس جنگ میں شامل نہیں ہونگے، کیونکہ ہم دنیا کا دل جیتنے کو نکلے ہیں۔ حالانکہ وہ کس طرح سے دل جیت رہے ہیں وہ آج دنیا دیکھ رہی ہے۔ سنگھ پریوار جس قسم کی منافرت کی سیاست کرتا ہے اور جس طرح سے اس نے اب تک یہاں دنگے فساد کرائےء ہیں اس کے بعد یہ کہنا کہ ہم دنیاکا دل جیتنے نکلے ہیں، ایک مذاق سے کم نہیں لگتا ہے۔ 
تیسری عالمی جنگ کی ہلاکت خیزی؟
دنیا میں کیا واقعی تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے یا یہ سب سنگھ پریوار کی خوش خیالی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے نفرت کرتا رہا ہے؟ جنگ کا تصور ہی اپنے آپ میں ایک دہلا دینے والی بات ہے ۔ دنیا میں جب بھی دو ملکوں کے بیچ جنگ ہوئی ہے تو ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ افراد موت کا لقمہ بنے ہیں اور ہر طرف بحران آیا ہے۔ اب اگر وہ جنگ عالمی جنگ ہو تو مزید بھیانک ہوگی اور اس کی ہولناکی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں کو زیادہ دن نہیں بیتے ہیں جہاں لاکھوں معصوم افراد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ یہ تما م عام شہری تھے جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جب شہروں اور آبادیوں پر بم گرتے ہیں تو وہ گناہ گار اور معصوم کی شناخت نہیں کرتے بلکہ سب کی موت کا سامان کرتے ہیں۔ وہ بچے ، جوان، مرد وعورت کی پہچان نہیں کرتے بلکہ سب کے لئے موت لے کر آتے ہیں۔ جنگ جو تو کسی عام لوگوں کی بھیڑ میں چھپ جاتے ہیں مگر دوسرے شہری جنگ میں مارے جاتے ہیں جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ افغانستان اور عراق میں ایسا ہی ہوا اور لا کھوں افراد مرے ، زخمی ہوئے یا ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگئے۔ اس قسم کی تباہی اور بربادی کا خواب صرف وہی دیکھ سکتا ہے کہ جس کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہ ہو اور وہ ابلیسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ جب دو ملکوں کی لڑائی میں اس قدر تباہی آسکتی ہے تو عالمی جنگ میں کی تباہی کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئی تھیں تو دنیا کے پاس ہتھیار تھے مگر آج ،سائنس نے مزید آگے قدم بڑھا دیا ہے اور جدید ٹکنالوجی نے نئے نئے ہتھیار بھی دیئے ہیں جو منٹوں میں لاکھوں افراد کو موت کی نیند سلاسکتے ہیں۔آج اگر عالمی جنگ ہوئی تو دنیا کا کوئی ملک باقی بھی بچے گا؟ یہ سوال اپنے آپ میں ہولناک ہے۔ سنگھ پریوار اگر یہ سوچتا ہے کہ جنگ کا میدان کہیں اور ہوگا تو یہ اس کی خام خیالی ہے، کیونکہ آج جس قسم کے ہتھیار سامنے آچکے ہیں اور جس طرح کے تباہ کن اسلحے دنیا نے ایجاد کرلئے ہیں ان کا استعمال خواہ جہاں کیا جائے مگر تباہی ہر جگہ ہوگی۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کے نقصان سے نہیں محفوظ رہ سکتا۔ سنگھ پریوار تیسری عالمی جنگ کا سنپنا دیکھ لے اور تباہی کے مزے خواب میں ہی لوٹ لے مگر حقیقی روپ میں اسے دیکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد شاید کچھ باقی نہ بچے۔ ایک اسکالر کا طنز ہے کہ چوتھی عالمی جنگ پتھروں سے لڑی جائیگی کیونکہ تیسری عالمی جنگ کے بعد یہ دنیا پتھروں کے دور میں پہنچ جائیگی۔ 
کیا یہ عالمی جنگ ہوگی؟
سنگھ پریوار کا شیطانی سپنا شاید ابھی پورا بھی نہ ہوسکے کیونکہ دنیا میں لاکھ تخریب کاری پنپ رہی ہو اور شیطانی طاقتیں دہشت کی زور پر دنیا کو قابو میں کرنے کی کوششیں کررہی ہوں مگر حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس کے لئے عالمی جنگ کی ضرورت پڑ جائے۔ اس دنیا میں مذہب کے نام پر لڑائیاں ہوتی رہی ہیں اور اکثر یہ ہوا ہے کہ حکمرانوں اور اقتدار کے چاہنے والوں نے اپنی ذاتی لڑائیوں کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں ہی دیکھا جاسکتا ہے کہ عوام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہوتا اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں مگر سیاسی نیتا ان کے بیچ لڑائیاں کرادیتے ہیں اور دنگے فساد کرادیتے ہیں۔ ماضی میں یہی کچھ سیاسی لوگ بڑے پیمانے پر کراتے رہے ہیں۔ اس کے سبب دو ملکوں کے بیچ کی اقتدار کی جنگ کو مذہبی لڑائی کا روپ دیا جاتا رہا ہے۔ آج کے حالات مختلف ہیں۔ آج یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر قابض ہوجائے لہٰذا کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے ملک میں اقتدار کی
کرسی پر اپنے کسی کارندے کو بٹھا دیا جائے جو وہاں کے وسائل لوٹنے کی ہمیں اجازت دے دے۔ اس وقت عرب سے افریقہ تک یہی کھیل ہورہا ہے اور اسی جن دہشت گردی کو جنم دیا ہے اور دہشت گردی سے جنگ کے نام پر سرکاری دہشت گردی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ان میں سے کسی طبقے کو ہم انصاف پر نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کی جانب سے جس قسم کی حرکتیں ہورہی ہیں ،وہ سراسر ظالمانہ اور تخریب کارانہ ہیں۔ حالات دھماکہ خیز ہیں اور اس کا نقصان دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حالات عالمی جنگ کی جانب لے جارہے ہیں اور یہ جنگ اسلام اور عیسائیت کیے بیچ ہوگی۔ اصل میں یہ ممکن ہے کہ مغربی ممالک مسلم ملکوں میں مداخلت کرتے رہیں اور ان کے خلاف مسلمانوں کا ایک طبقہ اٹھتا رہے مگر دنیا میں ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جو اسلام کے نام پر مغربی چیرہ دستیوں اور امریکی دخل اندازیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ مسلم ملکوں کے پاس نہ تو فوجی طاقت ہے اور نہ ہی جدید اسلحے ہیں جو مغرب اور امریکہ کے پاس ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق کی جنگ کو ایک موقع پر صلیبی جنگ کہا تھا اور ممکن ہے کہ وہ اسے ایسا ہی سمجھتے ہوں مگر مسلم ملکوں نے اسے جہاد کا نام نہیں دیا اور نہ ہی اسلام کے تحفظ کی لڑائی کہا۔ آج سعودی عرب دنیا کادولت مندترین ملک ہے مگر اس کے پاس جنگ کے لئے ہتھیار نہیں ہے،ویسے بھی اس کے حکمرانوں کا ہمیشہ مغربی قوتوں کے ساتھ سمجھوتہ رہا ہے اور اس کی بنیاد بھی برطانیہ نے ہی رکھی تھی۔ ایران اسلام کا نام لیوا ہے مگر وہ لڑائی کی قوت نہیں رکھتا۔ پاکستان کے پاس کچھ ہتھیار ضرور ہیں مگر مغربی ملکوں کے مقابلے کے لئے ناکافی ہیں۔ مصر میں اقتدار پر مغرب نوازوں کا قبضہ ہے اور یہاں لڑائی کے بغیر ہی امریکہ قابض ہے۔ تباہ شدہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی کٹھ پتلی سرکاریں اور وہ اس لائق بھی نہیں کہ آئندہ پچاس سال میں جنگ کے لئے کسی کو للکار سکیں۔ اب کونسا ملک ہے جو یوروپ اور امریکہ سے ٹکرائے گا۔ اگر مسلم ممالک میں قوت یا اسلامی حمیت ہوتی تو اب تک مسئلہ فلسطین حل ہوچکا ہوتا اوربیت المقدس صہیونیوں کے زیر تسلط نہ ہوتا۔ موجودہ ھالات میں یہ تو ممکن ہے کہ مغربی ممالک نے جس طرح سے عراق اور افغانستان ہو تباہ وبرباد کیا ہے اسی طرح دوسرے مسلم ملکون کو بھی برباد کردیں مگر عالم جنگ کا خطرہ تو کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا اور ہمیں یقین ہے کہ اشوک سنگھ اور موہن بھاگوت تو کیا ان کی نظریاتی اولاد بھی اپنی زندگی میں اس جنگ کو نہیں دیکھ سکے گی ،جسے دیکھنے کی آرزو وہ اپنے دل میں سجائے ہوئے ہیں۔

«
»

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے