انھیں پھنسناے میں یہ تفتیشی ایجنسی شامل تھی یا انھیں رہا کرانے میں اس ہاتھ ہے؟ آج یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ حال ہی میں سی بی آٗی کی خصوصی عدالت نے بی جے پی کے قومی صدر کو ان سنگین الزمات سے بری کردیا ہے جن میں کئی سال سے وہ گھرے ہوئے تھے اور اس کے لئے انھیں جیل میں بھی رہنا پڑا تھا۔ وہ ضمانت پر باہر تھے اور اس بیچ ملک میں بہت کچھ سیاسی بدلاؤ آیا اور یہ بدلاؤ بھی امت شاہ کے حق میں تھا کیونکہ ان کی پارٹی نے اقتدار پر زبردست اکثریت سے قبضہ کیا اور ملک کے سیاہ وسفید کی مالک ہوگئی۔ ان کے دوست اور خلوت وجلوت کے رفیق نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہوگئے۔ وہ سی بی آئی جس کے اوپر الزام لگا رہے تھے کہ انھیں غلط طور پر پھنسارہی ہے، ان کی مٹھی میں آگئی اور ان کے اشارۂ ابرو کی غلام ہوگئی۔ وہ سرکاری طوطا جو پہلے کسی اور کے راگ الاپتا تھا مودی اور امت شاہ کے راگ الاپنے لگا۔ سیاست کا پانسہ پلٹ گیا اور وہ لوگ جن پر سنگین الزمات تھے وہی اقتدار کے مالک بن گئے۔ ایسے میں اب کون ہے جو، ان کے گریبان پکڑے اور کون ہے جو ان سے بازپرس کرے؟ مگر سوال یہ ہے کہ امت شاہ کی رہائی کا حکم ہمارے ملک کی جمہوریت کے لئے کتنا سود مند ہے؟ وہ لوگ جو اس ملک کی عدلیہ پر بھروسہ کرتے ہیں، سی بی آئی کورٹ کے فیصلے سے کیاان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی؟ ۲۰۱۴ء نے نریندر مودی اور امت شاہ کے دامن میں بہت سی خوشیاں ڈالی ہیں اور جاتے جاتے امت شاہ کی رہائی کی خوشی بھی ڈال گیا مگر ۲۰۱۵ء میں کیا وہ ہائی کورٹ سے بھی رہا ہوجائینگے اور سپریم کورٹ بھی سی بی آئی کورٹ کے اس فیصلے کو درست ٹھہرائے؟ یہ سوا اپنی جگہ پر قائم ہے۔
فرضی انکاؤنٹرس میں امت شاہ کا رول
ایک دور تھا جب گجرات سے لگاتار انکاؤنٹرس کی خبریں آتی تھیں۔ آئے دن یہاں مسلمان نوجوانوں کو مارا جاتا تھا اور پولس کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ یہ سبھی دہشت گرد ہیں ۔ ان کا لشکر طیبہ سے تعلق ہے اور نریندر مودی کو قتل کرنے آئے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ چلا اور جب معاملہ کورٹ تک پہنچا اور تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ سب فرضی انکاؤنٹر تھے۔ وہ لوگ جنھیں قتل کیا گیا تھا وہ دہشت گرد نہیں
تھے اور نہ ہی انھوں نے کوئی سنگین جرم کیا تھا۔ اس قسم کے درجنوں انکاؤنٹر ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں عام لوگوں کو مارا گیا تھا، مرنے والے تمام کے تمام افراد مسلمان تھے۔ تب یہاں نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے اور امت شاہ وزیر داخلہ تھے۔ ایک ملزم پولس افسر نے کورٹ کے سامنے واضح کیا کہ فرضی انکاؤنٹر س کی پلاننگ امت شاہ کیا کرتے تھے اور انھیں فوں کرکے احکام بھی وہی دیا کرتے تھے۔ اس نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر کچھ ٹیپس پیش کیں جو امت شاہ کے فون کی تھیں۔ امت شاہ فون کرکے جو حکم دیتے تھے انھیں وہ ٹیپ کرلیتا تھا۔ ٹیلی فون ٹیپ سے جو اشارے ملتے ہیں ان میں نریندر مودی بھی پاک دامن نہیں لگتے۔ خیرسپریم کورٹ کے حکم سے انکوائری شروع ہوئی اور وہی ان معاملوں کی نگرانی بھی کر رہا تھا۔ امت شاہ ایک بااثر ملزم تھے لہٰذا کیس کو ممبئی منتقل کردیا گیا تاکہ سرکاری مداخلت سے اسے دور رکھا جاسکے۔امت شاہ کو جس کیس میں نام آیا تھا وہ تھا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر۔ یہ انکاؤنٹر ۲۶نومبر۲۰۰۵ء کو ہوا تھا ۔ چند بعد اس کی بیوی کوثر بی کو بھی زندہ جلادیا گیا تاکہ ثبوت مٹ جائے مگر اس معاملے کا واحد چشم دید گواہ تھا تلسی رام پرجاپتی جو کبھی بھی کھیل بگاڑ سکتا تھا اور پول کھول سکتا تھا لہٰذا۲۷دسمبر۲۰۰۶ء کو اسے بھی قتل کردیا گیا۔ اس معاملے کی پلاننگ خود امت شاہ نے کی تھی ،یہ اس ٹیپ سے سامنے آیا جو ٹیلی فون کا کیا گیا تھا۔
مقدمے پر ایک نظر
نریندر مودی کے گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے ہوئے جتنے بھی انکاؤنٹرس ہوئے وہ بے حد چالاکی کے ساتھ کئے گئے اور پوری طرح سوچ سمجھ کر کئے گئے تھے۔ جس طرح کے حالات پیدا کئے گئے تھے انھیں دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ کسی کو شک ہوسکتا تھا مگر
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے
سہراب الدین کا بھائی رباب الدین شیخ یکم جنوری ۲۰۰۷ء کو اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ گیا جہاں سے اس کی انکوائری کا حکم جاری ہوگیا اور جولائی ۲۰۰۷ء میں گجرات سی آئی ڈی (کرائم)نے ۱۳ پولس والوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کیا جس میں تین آئی پی ایس افسران بھی تھے۔ یہ سلسلہ جاری تھا مگر چونکہ معاملہ ریاستی سرکار کے ماتحت آتا تھا لہٰذا سپریم کورٹ نے ۲۰۱۰ء میں اسے سی بی آئی کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔ اس معاملے میں پہلے پولس افسران گرفتار ہوئے اور پھر ۲۵جوالائی ۲۰۱۰ء کو امت شاہ کی گرفتاری ہوئی جو اس وقت گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ تھے۔۲۲ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو امت شاہ کے خلاف سی بی آئی نے چارج شیٹ داخل کردیااور وہ ملزم نمبر۱۶قرار پائے۔ اس پورے کیس میں کل ۱۸ ملزمان تھے۔حالانکہ چند مہینے بعد ہی ۲۹اکتوبر ۲۰۱۰ء کو انھیں ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم آگیا لیکن اس حکم کے ایک دن بعد ہی سپریم کورٹ نے انھیں گجرات سے تڑی پار کرنے کا حکم دیا اور ۲۷ستمبر ۲۰۱۲ء تک امت شاہ کے گجرات جانے پر پابندی رہی مگر جیسے ہی یہ کیس ممبئی منتقل کیا گیا ، ان کے گجرات داخلے پر سے روک ہٹ گئی۔
امت شاہ کے خلاف ثبوت کے طور پر جوسب سے اہم چیز پیش کی گئی تھی وہ ان کی ٹیلی فون ٹیپس تھیں، جسے سی بی آئی کورٹ نے ثبوت ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ثبوت نہیں ہے لہٰذا کورٹ کا کہنا ہے کہ امت شاہ کے خلاف معاملہ نہیں بنتا ہے۔ ان
کے وکیل صفائی نے اپنی بات رکھنے میں کئی دن لگائے مگر سی بی آئی کے وکیل نے اپنی بات صرف پندرہ منٹ میں رکھے جس سے یہ بات مزید کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس سی بی آئی نے انھیں ملزم بنایا تھا ،آج وہی ان کی رہائی چاہتی ہے، امت شاہ نے ملک کے بڑے بڑے وکیلوں کو اپنی حمایت میں کھڑا کیا مگر کورٹ میں معاملہ کو لے جانے والے رباب الدین شیخ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک دن کورٹ میں پیش ہونے کے لئے جو وکیل لاکھوں روپئے لیتے ہیں انھیں اپنے حق میں پیش کرسکے۔ ایسا ہی معاملہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں دیکھنے میں آرہا ہے۔
اس رہائی کا مطلب انصاف یا انصاف کا قتل؟
امت شاہ کی رہائی کے معاملے میں ایک بار پھر سی بی آئی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ جب تک مرکز میں کانگریس کی سرکار رہی اس پر الزام لگتا رہا کہ وہ کانگریس کے لیڈروں کے اشارے پر کام کر رہی ہے اور آج جب کہ مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے اس پر بی جے پی کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے سی بی آٗی کو جو سرکاری طوطا کہا ہے ، اب ایک بار پھر است دہرایا جارہا ہے۔ کانگریس وہی الزمات دہراہی ہے جو کبھی بی جے پی ،کانگریس کے ذریعے سی بی آئی کے غلط استعمال پر لگاتی تھی۔کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی کا کہنا ہے کہ پنجرے کے طوطے کی ماسٹر مائنڈ مرکزی سرکار پر بھی سنگیں سوال اٹھتے ہیں اور اسے ان کا جواب دینا پڑے گا۔ترنمول کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی امت شاہ کی رہائی کے لئے سی بی آئی کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے حالانکہ امت شاہ کی رہائی سے بی جے پی کے خیمے میں خوشی کی لہر ہے اور وہ اسے انصاف کی جیت مان رہے ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ امت شاہ کی رہائی خوشی کی بات ہے، انھیں سیاسی رنجش میں پھنسایا گیا تھا۔ اسی طرح بی جے پی کے ایک دوسرے لیڈر جی وی ایل نرسمہا کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کہ سچائی کی جیت ہوئی ہے۔ حالانکہ اس بیچ مقتول سہراب الدین شیخ کے بھائی رباب الدین کا کا کہنا ہے کہ وہ سی بی آئی کورٹ کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنچ کرے گا۔
امت شاہ کے خلاف ثبوت کس قدر پختہ ہیں ؟ اس سوال سے قطع نظر ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سی بی آئی کا غلط استعمال ہورہا ہے؟ کانگریس نے امت شاہ کے خلاف اس کا غلط استعمال کیا یا آج مرکزی سرکار اس کا غلط استعمال کرکے امت شاہ کو بچا رہی ہے؟امت شاہ کو کورٹ نے رہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ فون ٹیپس کا کافی ثبوت نہیں مانا جاسکتا تو اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ فون ٹیپس انھیں کی تھیں اور ان میں جو باتیں کہی گئی تھیں وہ انھوں نے ہی کہی تھیں مگر ایسے ملزم کو پارٹی صدر بناکر ایک بار پھر سنگھ پریوار بے نقاب ہوا ہے۔
جواب دیں