اکثریت واقلیت کی فرقہ پرستی کے مضمرات کو سمجھنے کی ضرورت

نوعیت وکیفیت کے اعتبار سے دونوں خطرناک ہیں لیکن اکثریت میں فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے اس لئے زیادہ قابل گرفت ہیں کہ وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہندو اکثریت کا دیش ہوتے ہوئے بھی یہ صرف ہندوؤں کا ملک نہیں بلکہ مختلف ذیلی قومیتوں کے اشتراک وتعاون سے بنا ہے جب تک باہم رہنے بسنے کا یہ جذبہ طاقتور رہے گا ہندوستان باقی رہے گا جس دن اس کو تبدیل کیا گیا تو ملک کی موجودہ ہیئت برقرار نہیں رہے گی۔
آزادی سے قبل کے اس رویہ کی دین محمد علی جناح ہیں جو تقسیم ہند کے موجب بنے، آزادی کے بعد اس طرح کے ردعمل نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈران والے کو جنم دیا، اگر ملک کی اکثریت نے ہندوستانی قومیت کی تشکیل کرنے والی ذیلی قومیتوں کے وجود کو عملاً تسلیم نہیں کیا یا ان کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے حق کو مسترد کردیا تو آنے والے دنوں میں محمد علی جناح اور سنت بھنڈران والے کن کن ناموں سے پیدا ہوتے رہیں گے اور قومی اتحاد واستحکام کو کس کس طرح چیلنج کرتے رہیں گے یہ کہنے سے زیادہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے، آج شمال مشرق کی ریاستوں میں عیسائیوں کا عدم اطمینان یا وادی کشمیر میں مسلمانوں کی بے چینی کو صحیح پس منظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ عیسائیوں اور کشمیری مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت کا جزو ہونے سے انکار نہیں البتہ اپنی پہچان کھو کر وہ ہندوستانی قومیت کا حصہ بنے رہنے کے خلاف ہیں اور اس کے لئے وہ ملک کی ہندو اکثریت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اس لئے ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ آج ہندوستان کا مستقبل عیسائیوں، سکھوں اور مسلمانوں سے زیادہ ہندو اکثریت کے رویہ پر منحصر ہے جس کو کم از کم مسلمانوں سے ہی سبق لینا چاہئے کہ وہ ہندوستان میں سات سو سال تک حکمراں رہے لیکن اس طویل مدت میں انہوں نے دوسروں کی پہچان ختم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ ملک کی اکثریت کا احترام کیا ان کو پھلنے پھولنے کی پوری آزادی فراہم کی ان کے لباس وتہذیب پرآنچ نہ آنے دی۔ انگریزوں کا معاملہ اس کے برخلاف تھا جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں سیاسی اقتدار کی جنگ جیتنے کے بعد ثقافتی اور سماجی محاذ پر بھی دست درازی شروع کردی اور اس حد تک اس میں کامیاب ہوئے کہ آج ہم ان سے آزادی حاصل کرنے کے ۶۷ برس بعد بھی ذہنی اور ثقافتی طور پر انگریزوں کے غلام نظر آتے ہیں، قوم کا بڑا حصہ انگریزوں کی زبان بولنے اور ان کے لباس کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے جبکہ مسلم دور میں نہ صرف ہر فرقہ کی شناخت کا تحفظ کیا گیا بلکہ اکثریت کی زبان تہذیب اور رسم ورواج کو بدلنے کے بجائے اس سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی گئی، اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان سے باہر یہاں کے مسلمان ’’ہندی مسلمان‘‘ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، اسی رواداری اور وسیع القلبی نے ہندوستان کو ماضی میں متحد کیا اور اتنا وسیع وعریض دیش بنادیا تھا کہ تاریخ میں اس سے بڑا ہندوستان نظر نہیں آتا، اسی طرح کی فراخ دلی آگے بھی ملک کو مستحکم رکھ سکے گی۔ اکثریت واقلیت کے سیکولر او ر صاف ذہن لوگوں کو جن کی دونوں فرقہ میں بڑ ی تعداد آج بھی موجود ہے تعصب وتنگ نظری کے خلاف متحد ہونا چاہئے اسی میں ملک، قوم اور عوام کا مفاد ہے اگر اس کام میں ڈھیل دکھائی گئی تو اس کا کڑوا پھل سبھی کو کھانا ہوگا اور ہندوستان موجودہ شکل میں باقی نہیں رہے گا۔

«
»

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے