تاریخی پارٹی کے تاریخ کا حصہ بننے کا خطرہ

کانگریس نے اپنی انتخابی مہم کمیٹی کا چیئر مین سابق مرکزی وزیر اجے ماکن کو بناکر اشارہ دے دیا کہ وہ اس کا چہرہ یعنی اکثریت ملنے کی صورت میں دہلی کے وزیر اعلیٰ ہوں گے اس طرح اب تینوں پارٹیوں کے وزیر اعلی کے چہرے سامنے آنے کے بعد دہلی کا دنگل دلچسپ ضرور ہوگیاہے۔
ابھی چند روز قبل چھاوؤنی بورڈوں کے جو الیکشن ہوئے تھے اس میں دہلی چھاؤنی بورڈ میں بی جے پی کو تقریباً12ہزار کانگریس کو ساڑھے دس ہزار اور عام آدمی پارٹی کو8ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے تھے یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ کانگریس کی پوزیشن اتنی خراب شاید نہیں ہے جتنی میڈیا میں دکھائی جارہی ہے ۔ ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں نام نہاد انتخابی جائزوں سب میں کانگریس کو اتنا پیچھے کیوں دکھایا جارہا ہے اور کیوں چھاؤنی بورڈ کے الیکشن کو بانگی کے طور پر نہیں دیکھا جارہاہے پتہ نہیں کانگریس کے ارباب حل وعقید میڈیا کے اس بے اعتنائی اور جانبداری پر غور و فکر کرتے ہیں یا نہیں ۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کانگریس کو لے کر عوام کا غصہ ابھی شاید اترانہ ہو لیکن بی جے پی کی 7ماہ کی حکومت میں بھی تو کچھ ایسا نہیں سامنے آیا ہے جو عوام کو مزید پانچ سال کے لئے اس سے اپنی قسمت وابستہ کرنے کا بھر وسہ دلاسکیں اسی طرح اروند کیجری وال کی49 روزہ حکومت ان کی قلابازیاں اور غیر ذمہ داررانہ رویہ بھی عوام کو کچھ سوچنے پر مجبور کیوں نہیں کر پارہاہے۔
اگر سچائی اور ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو خود کانگریس خصوصاً اس کا اعلا کمان پارٹی کی اس درد شا کا ذمہ دار ہے ۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل مدھیہ پردیش راجستھان اور چھتیس گڑھ میں شکست فاش پھر پارلیمانی الیکشن میں تاریخ کی سب سے شرمناک شکست اور اس کے بعد پیہم ناکامیوں کے باوجود ایسا لگتاہے کہ کچھ ہواہی نہیں شکست کے بعد جانچ کمیٹی اس کی رپورٹ میں لیپا پوتی اور پھر سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس پہلی بار ہاری ہوئی لیکن ایسا پہلی بار دکھائی پڑرہاہے کہ اس میں پلٹ کر وار کرنے اور گر کر اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ ختم ہوگیاہے۔ جھار کھنڈ اور جموں و کشمیر میں کانگریس کی خراب ترین کار کردگی کی اصل وجہ اس کا اتحاد توڑ دینا تھا۔ جھار کھنڈ میں بی جے پی نے آل جھار کھنڈ اسٹو ڈینس یو نین سے اتحاد کرلیا اور کانگریس نے جھار کھنڈ مکتی مورچہ سے اتحاد محض اس لئے توڑ دیا کہ اس کے کچھ طالع آزمالیڈران کا سیاسی نقصان ہورہا تھا اس طرح اگر یہ اتحاد برقرار ہوتا تو جھار کھنڈ کا سیاسی منظر نامہ بالکل مختلف ہوتا کیونکہ بی جے پی اور اس کے گٹھ جوڑ کا ووٹ تناسب کانگریس اور اس کے گٹھ جوڑ کے کم و بیش برابر ہے ۔ اسی طرح جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس سے اتحاد توڑنا بھی کوئی عقل مندی نہیں تھی ۔ وہاں کانگریس کو12اور نیشنل کانفرنس کو15 معہ دو باغی یعنی 17سیٹیں ملی ہیں جو بحیثیت مجموعی 29سیٹیں ہوتی ہیں اگر دونوں نے مل کر الیکشن لڑا ہوتا تو کہانی کچھ الگ ہی ہوتی اور شائد وہاں پھر کانگریس نیشنل کانفرنس اتحاد کی حکومت بن گئی ہوتی۔ مہاراشٹر میں اگر چہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے کانگریس کے سامنے نا قابل قبول شرائط رکھی تھیں اور وہاں اتحاد ٹوٹنے کی ذمہ داری دونوں پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ این سی پی پر کچھ زیادہ ہی ذمہ داری آتی ہے ۔ پھر بھی اگر اتحاد ہوتا تو مہاراشٹر کا سیاسی منظر نامہ ہی مختلف ہوتا بلکہ آج کانگریس کو جس طرح ہر کھیل سے باہر سمجھا جارہاہے وہ صورت حال نہ پیدا ہوتی۔ صاف ظاہر ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کانگریس کی بیوقوفیوں اور خراب حکمت عملی کا فائدہ اٹھارہی ہے۔
پارلیمانی الیکشن میں خراب کار کردگی کے بعد نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفا دے کر جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلی بنادیا لیکن اس سے ان کی سیاسی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا آج بھی جنتا دل یو جو کچھ ہے وہ نتیش کی ہی بدولت ہے ۔ یہی نہیں وہاں کے دونوں بڑے لیڈروں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے فرقہ پرستی کے خطرات کو بھانپتے ہوئے ایک وسیع سیاسی اتحاد قائم کرلیا اور کوئی سیاسی مبصر یہ نہیں کہہ رہاہے کہ اسی سال کے اواخر میں نریندر مودی اور بی جے پی کو اصل جھٹکا بہار سے ہی لگے گا سوال یہ اٹھتاہے کہ ایسا کوئی قدم کانگریس کے لیڈروں خصوصاً سونیا جی اور راہل گاندھی نے کیوں نہیں اٹھایا ۔اگر یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک مستعفی ہو کر کسی دوسرے کو کار گزار صدر بناکر خود عوام کے درمیان نکل پڑتا تو ان کی سیاسی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی پارٹی میں کسی عہدہ پر رہیں یا نہ رہیں ان کی نمبر ایک کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا وہ پارٹی کی روح تھے ہیں اور رہیں گے لیکن کبھی کبھی ڈرامائی اقدام میڈیا اور عوام کی توجہ مبذول کرانے اور مثبت بحث کا موضوع بنانے کے لئے ضروری ہوجاتے ہیں کیا یہ معمولی سیاسی لٹکے جھٹکے بھی کانگریس دھرندھروں کو نہیں آتے۔
آج کل بڑے زور و شور سے یہ مطالبہ اٹھ رہا ہے کہ راہل گاندھی کو کانگریس کا صدر بن جانا چاہئے کیا نائب صدر اور اس سے قبل جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ان کے اختیار صدر سے کم تھے جو انہیں صدر بن جانا چاہئے اور اس طرح پارٹی کا صدر بن کر کنبہ پرستی یا پریوار واد کا جوداغ کانگریس پر لگاہواہے وہ کیسے دھوئیں گے کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ کانگریس کے صدر کا باقاعدہ الیکشن ہو اور اس میں راہل گاندھی بھی ایک امیدوار ہوں اور اگر جیت جائیں تو پارٹی کا صدر بن جائیں جیسے سونیا جی نے کیا تھا وہ آنجہانی کنور جتندر پرساد کو ہرا کر پارٹی کی صدر بنی تھی اس طرح غیر آئینی طریقہ سے پارٹی کی صدارت پر قبضہ انہیں مزید کمزور کرے گا اور عوام و ذرائع ابلاغ میں نہ صرف منفی پیغام جائے گا بلکہ میڈیا میں ایسی چھی چھا لیدر ہوگی کہ کانگریس ترجمانوں کو جواب نہیں دیتے بن پڑے گا ۔ 
پارلیمنٹ میں آج تک کسی موضوع پر راہل جی نے کوئی تقریر کیوں نہیں کی اور مودی حکومت کی عوام مخالف اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں کے خلاف وہ عوام کے درمیان کیوں نہیں گئے ۔ تحویل آراضی قانون کی مخالفت کے لئے بھٹہ پرسول خود نہ جاکر جے رام رمیش کو بھیجنا چہ معنی دارد۔
اس وقت ملک کے سخت دور سے گذر رہاہے(1947)یعنی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت کیا حالات تھے یہ تو ہم جیسے لوگوں کو نہیں معلوم لیکن 90کی دہائی میں بی جے پی کی اجودھیا مہم نے جب فرقہ پرستی کو بام عروج پر پہنچادیا تو بھی ملک جذباتی طور سے اتنا منقسم نہیں تھا جتنا آج ہے سنگھ پریوار کی ہندو تو وادی فسطائیت بام عروج پر ہے آئین ہند کو درکنار کرکے ملک کو قانوناً نہیں تو عملاً ہندو راشٹر بنایا جارہا ہے پارلیمنٹ میں اس پر ہنگامہ تو ہوا لیکن کوئی عوامی تحریک نہیں شروع ہوسکی الٹے کانگریس کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اس کی امیج ہندو مخالف بن رہی ہے جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑرہاہے ۔ یہ درست ہے کہ اس بار سنگھ نے سیکولرازم، کانگریس اور مسلمان سب کو ایسا گڈ مڈ کر کے ایسی زور دار مہم چلائی کہ سیکولرازم کا لفظ ہی گالی بن گیا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے سوشلزم گالی بن چکاہے لیکن سیکولر ازم کے بغیر نہ کانگریس بچے گی اور نہ ملک اس لئے کانگریس کو ڈنکے کی چوٹ پر سیکولر ازم سے وابستگی ہی نہیں عملی مظاہرہ بھی کرنا ہوگا ۔ دہلی اسمبلی الیکشن میں اگر وہ ریاستی صدر اروند سنگھ لولی یا قانون ساز پارٹی کے لیڈر ہارون یوسف کو وزیر اعلیٰ کے طور پر پروجیکٹ کرتی تو15فیصدی مسلم اور 10فیصدی سکھ اور تقریباً اتنے ہی پنجابی ووٹر اس کی نیا پار لگا سکتے تھے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اجے ماکن دہلی یونیورسٹی طلبا یو نین کے صدر 3بار ممبر اسمبلی 2بار ممبر پارلیمنٹ اور دہلی ریاست و مرکز کے کامیاب وزیر تھے ان پر کوئی داغ بھی نہیں ہے لیکن ان کے ساتھ ہارون یوسف اور اروند سنگھ لولی جیسا کوئی ٹھوس ووٹ بینک ہے کیا؟
سابق پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی اور اس کی اتحاد ی پارٹیوں کو30فیصدی اور بقیہ پارٹیوں کو70فیصدی ووٹ ملے تھے سبھی آزاد سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سب سے زیادہ فرقہ وارانہ بنیاد پر لڑا گیا الیکشن تھا ۔ کانگریس کو انہیں70فیصدی سیکولر ووٹوں کو متحد کرکے بی جے پی کے خلاف مورچہ کھولنا چاہئے اس کے لئے اسے یوپی اے3کا ایک وسیع تر اتحاد بنانا ہوگا ظاہر سی بات ہے کہ بہت جگہ اسے اپنے مفاد بی قربان کرنا پڑیں گے۔
اس وقت کانگریس کو تنظیمی سطح پر انقلابی تبدیلیاں کرکے اسے1976-77 والی لڑاکو کانگرس بننا ہوگا بی جے پی کو صرف سیاسی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ نظریاتی سطح پر شکست دینا صروری ہے اس کے لئے کانگریس کو نہ صرف اپنے نظریات سے پختہ وابستگی کھل کر ظاہر کرنی پڑے گی بلکہ عملی طور سے نافذ کرکے دکھانا ہوگا اور عوام کو ان نظریات کی افادیت نیز سنگھ کے خطرناک نظریات سے بھی آگاہ کرنا پڑے گا آج کے ان نوجوانوں کو جنہیں روز گار ترقی ، شرح نمو میں اضافہ، وغیرہ کی باتیں زیادہ پر کشش لگتی ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ ملک میں امن و امان اور ذہنی ہم آہنگی کے بغیر کوئی ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ۔ کانگریس اپنا کھویا ہوا وقار ایک لمبی سیاسی اور نظریاتی جنگ لڑکرہی حاصل کر سکتی ہے ورنہ یہ تاریخی پارٹی تاریخ کا حصہ بن جائے گی جس کے لئے سنگھ پوری کوشش کررہاہے ۔جو اس لڑائی کی قیادت کر سکے اس کے ہاتھ میں کانگریس کی باگ ڈور ہونی چاہئے۔

«
»

۲۶جنوری :جمہوری مملکت ہونے کی خوشی اورغم آئین کے عدم نفاذ کا

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے