مسلمان سوشل ورک کیوں نہیں کرتے؟

بھارت میں ایسے اداروں کی کمی نہیں جو بڑے پیمانے پر سماجی خدمات انجام دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کی سماجی خدمات کو تو عالمی طور پر سراہا جاتا ہے اور اعتراف کے طور پر اعزازات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ایسی شخصیات میں مدر ٹریسا کا نام سرفہرست آتا ہے جنھیں ان کی خدمات کے لئے نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ان کا ادارہ مشنریز آف چیریٹی سماج کے سب سے پسماندہ طبقے کے لئے آج بھی کام کررہا ہے۔ کوڑھ کے مریضوں،فٹ پاتھ پر رہنے والوں، لاوارث مریضوں، بوڑھوں اور یتیم ونادار بچوں کے لئے ان کے ادارے کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ عیسائی ادارے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر سماجی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ بائبل کے اندر بندگانِ خدا کی خدمت کو اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ مانا گیا ہے۔ بھارت کی سب سے پسماندہ آدیباسی ودلت بستیوں میں عیسائی مشنریز کے ارکان سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہاں اسکول کھولے جاتے ہیں، ہیلتھ سنٹر قائم کئے جاتے ہیں، طلبہ کو کتابیں فراہم کی جاتی ہیں، چھوٹے بچوں کے لئے دودھ کا انتظام کیا جاتا ہے اور دوسرے طریقوں سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔جرمنی میں عوام کو خدمت خلق کے لئے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جس کو ساری دنیا میں چرچ اور مشنریز کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے کاموں کے لئے فنڈ کی ضرورت ہے اور ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو اچھا کام کرنے والوں کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی خدمت خلق کے ادارے سرگرم ہیں۔ بھارت میں سکھوں کے گردوارے سماجی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں ایک بڑا کام یہ کیا جاتا ہے کہ لنگر کے نام پر کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں کھانے کے مد میں پیسے دینا، کھانا پکانے میں اپنی خدمات پیش کرنا باعث ثواب مانا جاتا
ہے۔ کھانا کھانے والوں میں غریبوں کے ساتھ امیر بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے کئی فوائد ہیں ایک تو یہ کہ امیر اگر تبرک سمجھ کر لنگر کھاتا ہے تو غریب ضرورت سمجھ کر کھاتا ہے اور اسے شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا۔ دوسرے امراء بھی اگر غرباء کے ساتھ بیٹھ کر کھائینگے تو مساوات کا سبق جائے گا اور خود ان کے اندر سے گھمنڈ اور احساسِ برتری جیسی اخلاقی برائی نکل جائیگی۔ بعض گردواروں میں مسافر خانے بھی بنے ہوتے ہیں جہاں بغیر کسی فیس کے ٹھہرنے کا انتظام ہوتا ہے۔ بعض مندروں میں بھی لنگر اور مسافر خانے کا انتظام ہوتا ہے۔دلی جیسے شہروں میں جہاں پانی آسانی سے نہیں ملتا اور خشک موسم کے سبب پیاس زیادہ لگتی ہے، ایسے میں جہاں تہاں پیاؤ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ کام اہل خیر حضرات اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ البتہ ایسا انتظام مسلم محلوں میں شاید ہی نظر آئے۔سماجی خدمات کے مختلف میدان ہیں اور اس کا ایک نمونہ ہم بھارت کے کئی شہروں میں دیکھتے ہیں جہاں شولبھ انٹرنیشنل نامی ادارے نے ’’شولبھ شوچالیہ‘‘ بنا رکھے ہیں۔ انسان کی بنیادی ضرورت جس طرح کھانا کھانا ہے، اسی طرح اس کا اخراج بھی ہے۔ ہمارے ہاں ٹوائلٹ کی کمی کے سبب مختلف مقامات پر غلاظت نظر آتی ہے جو بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہے۔ شولبھ انٹرنیشنل نے شہروں میں ٹائلٹ اور باتھ رومس کے انتظام کئے ہیں اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کی جانب دوسروں کی توجہ نہیں جاتی ہے۔اسی طرح ہمارے ملک میں سینکڑوں اسپتال، اسکول، کالج چل رہے ہیں جو غیر سرکاری ہیں اور اہل خیر حضرات چلا رہے ہیں۔ کچھ ادارے تو ایسے چل رہے ہیں جو جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں۔ یہ تمام سماجی خدمات کے لئے ہیں مگر کتنی عجیب بات ہے کہ اس میں مسلمانوں کا یوگدان بہت کم ہے۔ سماجی خدمات انجام دینے والے مسلم ادارے کم ہیں اور جو ہیں ،وہاں اس قدر غیر منظم طریقے سے کام ہوتا ہے کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیدا ہوتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا دوسرے مذاہب میں خدمت خلق کا حکم ہے اور اسلام نے اس کی تاکید نہیں کی ہے؟
اسلام میں خدمت خلق کا حکم
قرآن کریم میں جہاں جہاں نماز کا حکم آتا ہے ،عموماً وہاں وہاں زکوٰۃ کی تاکید بھی واردہے۔زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو ظاہر ہے کہ خدمت خلق کی ایک شکل ہے ۔قرآن واحادیث میں صدقہ کا حکم بھی ہے اور اس پر بار بار ابھارا گیا ہے۔اس کا مطلب بہت واضح ہے کہ جس طرح سے مومن کے لئے نماز کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح سماجی خدمت بھی لازم ہے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اہل بیت اور اصحاب اس میں پیش پیش رہتے تھے۔ اگر آپ کے پاس صبح کے وقت لاکھوں روپئے آجاتے تو شام ہوتے ہوتے وہ تقسیم ہوجاتے۔ ضرورت مندوں کی لائن لگی ہوتی اور آپ سب کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی طریقہ تھا۔ ایک بار آپ کے پاس بہت بڑی رقم آگئی اور شام تک سب صدقہ کردیا۔ افطار کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رکھا۔ خادمہ نے کہا کہ تھوڑا سا افطار کے لئے بچالیتیں تو بہتر ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے یاد دلاتیں تو ایسا ہی کرتی۔مدینہ میں قحط پڑا تو دامادِرسول حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کئی اونٹوں پر لدا ہوا مال تجارت خیرات کرڈالا۔ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے پورے سرمایے کا نصف لاکر بارگاہ رسالت میں حاضر کردیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا سرمایہ لاکر پیش کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اپنے بال بچوں کے لئے کیا چھوڑا ہے تو جواب دیا کہ ان کے لئے اللہ اور رسول کافی ہیں۔ حضرت حسن بن علی
رضی اللہ عنہ کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ آپ بہت سخی تھے ۔ ایسی مثالیں صحابہ کی زندگی میں بہت عام ہیں اور خدمت خلق کے فضائل سے اسلامی لٹریچر کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔یونہی عوام کے لئے کنویں کھدوانے کا دستور بھی عہد نبوی میں تھا۔یتیموں کی پرورش اور ضروت مندوں کی خبر گیری،مسافروں کی خدمت اور راہگیروں کی حاجت برآوری عہد نبوی اور صحابہ کے دور کی خصوصیات ہیں۔ اس کا چلن بعد کے دور میں بھی رہا اور مسلم حکمرانوں نے ہی نہیں بلکہ دوسرے اہل خیر حضرات نے بھی مسافر خانے ،سرائے، مدرسے قائم کئے اور کنویں کھدوائے۔ 
صوفیہ اور خدمت خلق
صوفیہ کرام کی تعلیمات کا بڑا حصہ خدمت خلق پر مشتمل ہے۔ بھارت میں ان کا اثر بہت زیادہ رہا ہے اورانھوں نے یہاں اسلام کی اشاعت کا کام بھی کیا جس کی وجہ سے ان کے تئیں مسلمان اپنے دلوں میں آج بھی اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ان کی خانقاہیں خدمت خلق کا مرکز ہوا کرتی تھیں اور ہزاروں افراد کو یہاں پناہ ملتی تھی۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ہزاروں افراد روزانہ اس کے لنگر سے کھانا پاتے تھے۔ کچھ ضرورت مند ایسے تھے جو یہاں نہیں آسکتے تھے تو ان کے گھر کھانا بھیج دیا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کو ماہانہ راشن بھیجا جاتا تھا۔ دلی کے باہر جنوبی ہند تک ضروت مندوں کو روپئے بھیجے جاتے تھے۔ طلبہ کو تعلیم کے لئے وظیفے دیئے جاتے تھے۔ کسی کو کپڑے تو کسی کو دوسرے ضرورت کے سازوسامان فراہم کئے جاتے تھے۔یہاں تک کہ جو لوگ جمنا سے پانی بھرنے آتے تھے اور ان کے مٹکے ٹوٹ جاتے انھیں خانقاہ کی طرف سے مٹی کے مٹکے فراہم کئے جاتے۔ خدمت خلق کے یہ طریقے اس سلسلے کے دوسرے صوفیہ کے ہاں بھی رائج تھے۔ آپ کی خانقاہ میں جو لوگ آتے انھیں وصیت کی جاتی کہ وہ خدمت خلق کریں اور اسی کا اثر تھا کہ اس دور میں بہت سی مسجدیں بنوائی گئیں، مسافر خانے تعمیر ہوئے، مدرسے بنے اور مالداروں نے غریبوں اور طلبہ کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ یہاں صدقہ کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔اس تعلق سے صوفیہ کے کیا خیالات تھے اس کا اندازہ درج ذیل عبارت سے لگا سکتے ہیں۔خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری کی کتاب آثار الاولیاء کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :
’’صدقہ ایک نور ہے ،صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے اور صدقہ اسی ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے جو پڑھی جائے۔ صدقہ دینے والے روزِ حشر عرش کے سائے میں ہونگے ۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہوگا وہ اللہ کی رحمت سے دور نہ ہوگا۔پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے ،جو صدقہ دیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ کا لنگر صبح سے رات گئے تک جاری رہتا ، جوکوئی آتا کھا نا کھا کر جاتا ۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر لنگر میں کچھ نہ ہوتو پانی سے تواضع کروکوئی خالی نہ جائے ۔
پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے ،جب وہ چلتا ہے تو نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔،،
انیس الارواح (ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی،مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی) 
کب تک ہم ہاتھ پھیلاتے رہیں گے؟

آج بڑا سوال یہ ہے کہ جس قوم کو صدقہ دینے کی تعلیم دی گئی تھی وہ عہدِ حاضر میں کیوں صدقوں پہ پلنے کی عادی ہوگئی ہے؟ جسے دوسروں کی پرورش کرنی تھی، وہ خود اپنی پرورش کے لئے دوسروں کی دست نگر کیوں ہے؟ جسے سماج سے بھیک مانگنے کی روایت ختم کرنی تھی اسی قوم کے لوگ آج خود ہاتھ پھیلائے کیوں کھڑے ہیں؟ ہمیں سماج کی خدمت کرنی تھی اور ہم خود کیوں اپنی خدمت کرارہے ہیں؟آج سب سے زیادہ بھکاری ہم میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں؟ انتہا یہ کہ ہمارے معزز علما ء خود اپنی کفالت کے لئے عوام کی جیب پر نظر رکھتے ہیں اور زیادہ ترقی یافتہ حضرات چندے کے نام پر شکم پروری کے لئے عرب ملکوں تک پہنچ جاتے ہیں، آخر کیوں؟ہمیں تو اللہ نے اپنے بندوں کی خدمت کے لئے بھیجا تھا اور ہم یہاں مخدوم بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلم معاشرے سے خدمت خلق کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے اور جس عبادت کے لئے ہمارے علماء عوام کو ابھارتے ہیں ،خود اس کا مستحق بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم ایک بار پھر اپنے ماضی کی طرف لوٹ جائیں ؟ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو دنیا اپنا رہی ہے مگر خود ہمارا معاشرہ ان سے دور ہوتا جارہا ہے۔ آخرہم فلاحی ادارے کیوں نہیں قائم کرتے؟ ہم اسکول، کالج اور اسپتال کیوں نہیں بناتے؟ ہم بھی آدیباسیوں، دلتوں اور سماج کے پسماندہ طبقات میں کیوں نہیں کام کرتے؟ ہم بھی شولبھ شوچالیہ جیسا کوئی انتظام کیوں نہیں کرتے؟ہمارے پاس اگر خدمت خلق کے لئے پیسے نہیں ہیں تو بھی جسمانی طور پرخدمت تو انجام دے ہی سکتے ہیں مگر وہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ 

«
»

۲۶جنوری :جمہوری مملکت ہونے کی خوشی اورغم آئین کے عدم نفاذ کا

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے