جب خنزیروں نے آسمان پر تھوکا تھا..

… فرمایا … توبہ ہے حضور کہاں خنزیر اور کہاں حسن و نزاکت اور فصاحت و بلاغت ….گندگی کا جانور .. گندگی جس کا کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا …. گندگی جس کا رہن سہن، گندگی جس کا دین و مذہب اور گندگی ہی جس کی زندگی اور موت … گندگی کے نشے میں غرق رہنے کا عادی… ہم جنس پرستی کا دلدادہ…..incestuous relationship 133133میں عقیدہ رکھنے والا سماجی جانور….ڈارون کا پیا را اور فرائیڈ کا دلارا …..اسے ان اعلی ترین اقدار و افکار سے اب کیا لینا جسے روسو اور والٹیر نے متعارف کرایا تھا…. جسے خونی انقلاب سے کبھی اہل فرانس نے سینچا تھا ….
فرمایا …تیس چالیس لا کھ آزادئ اظہار رائے کے متوالے چارلی ہیبدو جریدے کی اخلاقی گراوٹ، مغربی تہذیب غلیظہ، جنس پرستی، مادیت پرستی اور جعلی جمہوریت کی حمایت و تائید میں جمع ہوگئے… اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریبا دو ہزار کروڑ مسلمان اپنے رسول کی حمایت میں احتجاجا متحد ہو کر سڑکوں پر نہیں آسکے… مختلف ملکوں میں احتجاج تو کروڑوں نے کیا اور خوب کیا .. لیکن اپنے رسول کی محبت میں انہیں متحد ہونا نہیں آیا……کیا کرتے بے چارے ان کے اتحاد کو دہشت گردی سے منسوب جو کر دیا گیا ہے اور اب یہ متحد ہونے سے دہشت زدہ ہیں ….. اچھے خاصے تعلیم یافتہ مسلمان، الله اور رسول کے ماننے والے بھی خود اپنی ہی شناخت کو لے کر الجھنوں کا شکار بنا دئے گئے .. یہی وہ وقت تھا جب باطل متحد ہو گیا تھا اور حق کے جھوٹے دعویدار جنکا تعلق کارخانہ حیات کے مخلتف شعبوں سے تھا، وہ بھی باطل کی حمایت میں احتجاج و مظاہرے میں متحد ہو کر کود پڑے…. بظاہر تو یہ تیس چالیس لاکھ افراد ملک فرانس کی آزادی اظہار رائے کی عقیدت میں دہشت گردی کے خلاف نکلے تھے…. لیکن فی الحقیقت دو ارب مسلمانوں کے عقائد اور ان کی عقیدتوں کے خلاف نکلے تھے ….جبکہ انہیں احساس تھا کہ ضلالت کی شروعات چارلی ہیبدو کے خنزیروں نے کی تھی … ہالینڈ اور دیگر مغربی ممالک کی پیروی میں کی تھی … کسی مسلمان نے کبھی چارلی ہیبدو کے کسی خنزیر پر بندوق کجا قلم بھی نہیں تانا تھا..کبھی کسی خنزیر کی برہنگی کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا…ایسے کسی بھی جانور کو کبھی چھیڑنا تو درکنار پسکارا بھی نہیں تھا…بلکہ اکثر ایسے جانور ہی مسلمانوں پر حملہ کرنے ، انہیں اکسانے، انہیں بھڑکانے، انہیں نفسیاتی طور پر الجھانے، اور احساس کمتری میں مبتلا خنزیر کی طرح ان پر گند اچھالتے آئے تھے …وہ اہل مغرب کی شدت پسند اکثریت ہی تھی جس نے تہذیب جدیدہ میں اندھے ہوکر مسلمانوں کے ہولو کاسٹ میں یہودیوں کی مدد کی…. اور مسلمانوں کے شہر کے شہر "فائر چیمبر” بنا دیے …. ہٹلر اور اسٹالن کوئی مسلمان نہیں تھے اور نہ ہی ہٹلر کو اپنے شاطرانہ رہن سہن سے قتل عام پر آمادہ کرنے والی قوم کوئی مسلمان قوم تھی ….لنکن، کینیڈی، گاندھی، اندرا، راجیو گاندھی کو قتل کرنے والے بھی کوئی مسلمان نہیں تھے …. اس مہذب و متمدن بیسویں صدی میں ہیرو شیما ناگا سا کی اور ویت نام میں انسانی لاشوں کا شہر بسانے والے بھی مسلمان نہیں تھے…..افغانستان نے روس یا امریکہ کو جنگ پر آمادہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی اور مسلم ملک نے……اس نام نہاد مہذب دور میں کبھی کسی مسلم ملک نے اسلام کے نام پر کسی ملک پر حملہ نہیں کیا تھا.. نہ کسی گروہ نے جنگ یا حملوں میں پہل کی تھی …… امریکہ اور اسکے رفقاء عراق، لیبیا، شام، اور ایسے ہی دیگر مسلم ممالک کے مقتدر اعلی کا قتل خلا ئی حملوں سے بہ آسانی کر سکتے تھے… اپنے ہم پپالہ و ہم نوالہ کو دوستی کا مزہ چکھا سکتے تھے یا اپنے انتقام و غرور کی پیاس بجھا سکتے تھے … اور ایسا انہوں نے ما ضی میں کر کے دکھایا بھی تھا…. لیکن حقیقت لاکھ چھپائے کہاں چھپتی ہے ….. مسلم ممالک کو نیست و نابود اور مسلمان نسلوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سازش رچی گئی تھی جسکے پس پردہ دین اسلام کے پر امن عروج کا خوف ہی تھا جو اہل مغرب اور خاصکر امریکہ و اسرائیل کی ملی بھگت کو منظر عام پر لے آیا…… ایسی سازش جس میں مسلمانان عالم کو اس طرح پھنسایا گیا کہ غیر تو غیر ٹہرے اپنے بھی پرائے ہو کر سازشوں میں شامل ہوتے چلے گئے…… ان سازشوں میں سیاست، معیشت، صنعت و حرفت، صارفیت و سرمایہ داری، تہذیب و تمدن، انسانی ترقی، علوم جدیدہ، سائینس اور ٹیکنا لوجی کو خوب اوزار بنایا گیا…اہل مغرب کے پاس ان اوزاروں کی کو ئی کمی بھی نہیں تھی ….لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اخلاقیات اور اصول کا شمار بھی تہذیب و تمدن کے اوزاروں میں ہوتا ہے اور انکے بغیر تہذیب و تمدن کا عروج عارضی ہوتا ہے…… ویسے بھی سازشوں میں اخلاقیات اور اصولوں کا کیا کام….. اسی طرز فکر و عمل کے پروردہ اہل مغرب، مسلمانان عالم کے خلاف متحد ہوگئے اور ہر ایک رد عمل کو دہشت گردی سے موسوم کر ٹی وی میڈیا کے کوٹھوں پر واویلا مچانے لگے…..جہاں جھوٹی خبریں اور افواہیں طوائفوں کی طرح گردش کرتی اور جہاں سرمایہ دار دولت مند دولت لٹاتے بھی اور کماتے بھی….یہ وہی دہشت گردی ہے جسے ایک سازش کے تحت مسلمانوں اور اسلام سے جوڑ دیا گیا ہے…. اس سازش کے تحت اول تو صیہونی ایجنڈے اور پلاننگ کو انجام دینا ہے اور دوم مغرب کی کھوکھلی معیشت کو عارضی استحکام دینا ہے …..اس سازش میں دین بیزار اور نام نہاد مسلم دانشوروں کو بھی شامل کرنا ہے جو رواداری کے نام پر منافقت کرتے ہیں…ان مسلمان غنڈوں کو بھی جو چند روپوں کے لئے، یا دنیوی منفعت کے لئے، یا اپنے احمقانہ جذبات کی تسکین کے لئے … اس سازش کا شکار ہونے بہ آسانی تیار ہوجاتے ہوں … جنہیں مسلمان بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سوچنے، بولنے، لکھنے، چال چلنے اور چلانے کا حسین و بے بہ بہا معاوضہ دیا جاتا ہے ….. وہ جو شہرت و عزت کے حصول کے لئے اپنے ٹوٹے پھوٹے بچے کچے ایمان سے بھی ہاتھ دھونے میں عار محسوس نہیں کرتے …..الغرض یہ سب احمق جو اسلا م کے خلاف سازش کرنے چلے ، کبھی پھونکوں سے چراغ بجھانے کی کوشش کرتے اور جن پر تاریخ مسکرایا کرتی…. اب یہ سورج کو پھونکو ں سے بجھانا چاہتے ہیں اور قدرت ان پر ہنس رہی ہے.. جب یہ کھلکھلا کر ہنسے گی تب مغرب میں موجود ان احمقوں کو سچا ئی کا پتہ چل جائیگا .. لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوگی …

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے