لیکن ایمانی ٹیکنالوجی سے بھرپور جذبہ جہاد سے معمور شوق شہادت سے مخمورر وہ قوم آج پھر ایک مرتبہ سرخروہے، اور شہداء کے خون سے پھر ایک بار انہوں نے اپنے گلشن کو سیراب کیاہے، اسلام کی کھیتی کو پھر ایک بار اپنے خون سے سینچاہے، آج سے تیرہ سال قبل امیر المؤمنین ملا محمد عمر کا ایک ہی موقف تھاکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور فتح ہماری ہوگی، آج بھی وہ اپنے اسی موقف پر قائم اپنی قوم کی رہنمائی اور امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
پچیس سال قبل روس جیسا سوپر پاور اپنے اسی غرورو تمکنت کے ساتھ افغانستان میں گھسا تھا، اس وقت بھی ٹیکنالوجی کے پجاری کہتے تھے، کہ روس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا، اب وہ ایمان نہیں ہے، اب وہ مجاہدین نہیں رہے جو وقت کے فرعونوں سے ٹکر لیتے تھے، محمد بن قاسم اورطارق بن زیاد اب پیدا نہیں ہوتے، صلاح الدین ایوبی کا دور ختم ہوچکا،لوگوں نے یہاں تک کہا کہ یہ تو امریکہ کا جہاد ہے، یہ تو بڑی بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ جنگ لڑی جارہی ہے، ورنہ روس جیسی سوپر پاورسے کون ٹکراسکتاہے، لیکن اللہ کے نام پر جان قربان کرنے والے ہر دور میں نئے روپ اور نئے انداز میں نمودار ہوتے ہیں، ہر دور کے صلاح الدین مختلف ہوتے ہیں، لیکن ہردور کے صلاح الدین کا مقصد ایک ہی ہوتاہے، اور وہ مقصد دین کی سرفرازی اورکلمۃ اللہ کی سربلندی ہے۔
روس کے خلاف سولہ لاکھ شہداء نے اپنا خون دے کر اس گلشن کو آزاد کرایاتھا، قدم قدم پر بارودی سرنگوں کے ڈھیر پر اپنے ساتھیوں کو قربان کرتے ہوئے ان کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد ہوتا تھا،کہ اس سرزمین پر اللہ کے کلمہ کو بلند کرناہے،وہ حق کے خاطرقربانیاں دیتے رہے ، اور دنیا ان کے جہاد کو امریکہ کا جہاد کہتی رہی، ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتی رہی، لیکن آخر کار ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور روس ایساتباہ حال ہوکر وہاں سے گیاکہ اپنے سوویت یونین ہونے کادعویٰ بھی برقرار نہ رکھ سکا۔
اس سے قبل برطانیہ نے وہاں پر قسمت آزمائی کی، اورچوالیسویں ڈویژن کے سترہ ہزار فوجی گنواکر وہاں سے اس حال میں لوٹا کہ اس داستان غم کو سنانے کے لیے ایک فوجی ڈاکٹر ڈرائیڈن بچ گیا تھا، جس نے آکر دنیا کے سامنے وہاں کی داستان بیان کی اور دنیا اس المیہ سے واقف ہوئی۔
آج ایک اور سوپر پاور وہاں کے جال میں پھنس کر اپنے غرور و تمکنت کے تاج پر غازہ مل کر وہاں سے نکلاہے،آج تو کوئی کہہ نہیں سکتا کہ یہ امریکہ کا جہاد ہے، یہ ایجنسیوں کا جہاد ہے، اس مرتبہ غیر تو غیر اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑا، اور دشمنوں کی صفوں میں قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اپنے ہوائی اڈوں کو بھی دشمنوں کے حوالہ کردیا تاکہ اپنوں کو مارنے میں یہ بھی اپنی خیرخواہی اور امریکہ نوازی کا ثبوت دیں، چودہ سال قبل ٹیکنالوجی کی پرستش کرنے والے کیا کیا عزائم لے کر وارد ہوئے تھے، ہر کوئی بلند آواز سے امریکی راگ الاپ رہاتھا، کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کو فتح ہوگئی، ٹیکنالوجی نے آخر کار اس افغان قوم پر فتح حاصل کرلی، اور طالبان کو دیکھوکہ کیسے بھگوڑے ہوگئے ہیں، کہ امریکی فوج کے سامنے ٹھہر نے کا نام نہیں لیتے، اب افغانستان میں ایسے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، اس کے بعد کے تیرہ سال آگ اور خون کے سال تھے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب جدیدٹیکنالوجی سے لیس ،خطرناک ترین ہتھیاروں سے مسلح ، دنیا کی سب سے طاقتور فوج یہاں موجود رہی، آسمان سے پہرہ دیتے سیٹلائٹ، بم پھینکنے والے ڈرون، آگ و بارود اگلتے طیارے جو روز بستیوں پر حملہ آور ہوکر معصوموں کو قبروں میں سلاتے، جنہوں نے شادیوں کے شادیانوں کو اور غموں کی المناکی کو بھی اپنے بم و آہن سے تاخت و تاراج کردیا، لیکن ان سب کے باوجود وہ ایک دن بھی یہ دعویٰ نہ کرسکے، کہ ان کا پورے افغانستان پر کنٹرول ہوگیاہے۔
آخری سال تو اس جنگ کے سالوں کا بدترین سال تھا، جس نے نیٹو اور امریکی افواج کی تباہی میں آخری کیل ٹھونک دی، خود ان کی رپورٹ کے مطابق اس سال ۹۱۶۷ افراد اس جنگ کا شکار ہوئے،یہ گنتی وہ ہے جس کو وہ لوگ خود مانتے ہیں، اور مجاہدین او ر آزاد ذرائع کے نزدیک اصل تعداد کئی گنا زیادہ ہے، سی آئی اے کے گیارہ اہم ترین ایجنٹ اس جنگ میں مارے گئے، جو اس سے پہلے کبھی کسی ملک میں اتنی تعداد میں نہیں مارے گئے، آخری میٹنگ میں نیٹو افواج کے کمانڈر جان ایف کیمپل نے کہا’’ ہم طالبان کے خلاف جنگ کا اپنا ایجنڈا ادھورا چھوڑ کر جارہے ہیں، لیکن ہم بھاگ نہیں رہے‘‘۔ قربان جایئے ان کی اس طفل تسلیوں پر ،یہ تسلی اس افغان حکومت کو دی جارہی ہے، جسے امریکیوں نے خود وہاں پر مسلط کیاہے، خود افغان حکومت کے ذمہ دار اس صورتحال سے پریشان و خائف یہ کہتے پھر رہے ہیں، کہ آپ ہمیں ایسے وقت میں چھوڑ کر جارہے ہیں جس وقت ہم انتہائی مشکلات میں ہیں، ہمیں کبھی بھی نیٹو افواج کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی کہ آج ہے، تیرہ سال سے ہم ایک ایسی جنگ کے عادی ہوچکے ہیں جو نیٹو کی تیکنیکی مدد کے بغیر لڑی ہی نہیں جاسکتی ، ہمیں ہوائی جہازوں کی بمباری اور آگ اگلتے ہوئے ٹینکوں کی یلغار کے سائے میں آگے بڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا، جب کہ ہمارے دشمن طالبان اس تمام تر ٹیکنالوجی سے بے نیاز جس طرف سے چاہتے ہیں ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
وہ فتح کرنے آئے تھے ، اپنے زخم چاٹتے ہوئے رخصت ہوئے، ٹیکنالوجی اور سوپر پاور کے سامنے ایک مرتبہ پھر ایمانی طاقت نے اپنا لوہا منوایا، ایک مرتبہ پھر جہاد کے میدانوں سے مجاہدین سرخرو ہوکر نکلے ہیں، ایک مرتبہ پھر مجاہدین نے ثابت کیاہے کہ اللہ کی مدد و نصرت کے وعدے سچے ہیں ، ایک مرتبہ پھر نصاریٰ کو ان کی صلیبی جنگ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑاہے، ٹکینالوجی کے بت مجاہدین کی یلغار کے سامنے بندھ نہیں باندھ سکتے، اللہ کے راستے میں جان دینے والے آج بھی اسی جذبہ سے معمور ہیں، اور مددو نصرت الہی سے اپنے دشمنوں پر غلبہ پارہے ہیں۔
یورپ کی مشینیں اور ابلیس پھر ایک بار پامردئی مومن کے سامنے شکست خوردہ ہوکر بھاگ رہے ہیں، پھر ایک بار نار نمرود اہل ایمان کے لیے گل گلزار کا نمونہ بن رہی ہے،دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں ، اہل بصیرت اس کو محسوس کررہے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ کون مجاہدین کے ساتھ ہے اور کون اللہ کے دشمنوں کے ساتھ، یہ جنگ امن اور دہشت گردی کی جنگ نہیں، بلکہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے، یہ جنگ اہل ایمان اور منافقین و کفار کی جنگ ہے، جس کا خاتمہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوگا ، یہ جنگ اس آخری جنگ کی ریہرسل ہے جو عنقریب اہل ایمان اور اہل کفر میں برپا ہوگی، اور احادیث رسول اللہ ﷺ کے مطابق ایک اہل یمان کا خیمہ ہوگا اور دوسرا منافقین و کفار کا خیمہ ہوگا، اس جنگ کا انتظار ہم اہل ایمان کو بھی ہے اور دنیا کی خبیث ترین قوم یہود کو بھی ۔
جواب دیں