شدت پسند وں کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجہ میں حکمراں اور فوج ان دہشت گردانہ حملوں کی انجام دہی کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپوں کے خلاف کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ حکمراں اور شدت پسند گروپوں کے درمیان ہونے والی کارروائیوں کے نتیجہ میں عام شہریوں کا شدید نقصان ہورہا ہے۔ کہیں پر ان کی جانیں تلف ہورہی ہیں تو کہیں پر معاشی نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ بعض ممالک میں مسالک کی بنیاد پر قتل و غارت گیری انجام دی جارہی ہے توبعض صرف اقتدار کے حصول کے لئے ہزاروں انسانوں کا ناحق خون بہارہے ہیں۔ اقتدار پر متمکن حکمرانوں کے دلوں میں بے قصور عوام کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ بعض ممالک بشمول شام میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں، کئی معصوم بچے یتیم و یسیر ہوئے ہیں تو کئی خواتین بیوائیں ہوچکی ہیں۔ حالات ہر روز بدتر ہوتے جارہے ہیں اس کے باوجود عالمِ اسلام کے حکمراں متحدہ طور پر مسلمانوں کے قتل و غارت گیری کو ختم کرنے کے لئے کوئی اہم اقدامات کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ گذشتہ سال عراق و شام کے سرحدی علاقوں ، قصبوں ا وربعض شہروں میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے ابو بکر البغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے خلافت کا اعلان کردیا اوراس اعلان کے بعد ان کے ظلم و ستم کی جو داستانیں منظرعام پر آرہی ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نام نہاد جہادی گروپ کا تعلق اصل میں اسلام سے نہ ہو یا کوئی اور طاقت جو ان شدت پسند گروپوں کے پیچھے کارفرما ہے جو اسلام کی شبیہ کو متاثرکرنے کی سعی کررہی ہے۔شام میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری ہے، صدرشام بشارالاسد کی حکومت اور فوج نے جس طرح عام شامی شہریوں کی زندگیوں کو برباد کردیا ہے اس کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد عالمی طاقتوں نے سوائے افسوس اور رنج و ملال کا اظہار کرنے کے اور کچھ نہیں کیا ،زیادہ سے زیادہ شام کو وارننگ دی گئی ۔ ایک طرف شامی فوج ہے تو دوسری جانب شدت پسند النصرہ و داعش گروپس ۔ شام میں کم و بیش تین لاکھ عوام بشمول معصوم بچے و خواتین ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں شامی عوام مختلف ممالک کی سرحدوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ انہیں سخت سردیوں کے موسم میں کئی مصائب سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے بھی اب شامی عوام سے دوری اختیار کرنے لگی ہے۔لبنان نے بھی اب شامی عوام کو پناہ دینے سے گریز کررہا ہے اور ویزا قوانین لاگو کردےئے ہیں۔ عراق ، افغانستان وغیرہ میں جس طرح امریکہ اور دیگر مغربی ویوروپی طاقتوں نے حملے کرکے دنیا کو بتادیا کہ اصل میں دہشت گردکون ہیں۔ لیکن شام میں لاکھوں افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باوجود عالمی ممالک سوائے بشارالاسد کووارننگ دینے کے اور کچھ کرنہیں پائے۔ اسی لئے تجزیہ نگار افغانستان اور عراق پر حملے کے کئی وجوہ بتاتے ہیں۔ افغانستان میں تقریباً تیرہ برس تک امریکہ کے زیر قیادت ناٹو فوج رہی اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک کو افغانستان میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ امریکہ اگر افغانستان میں اپنی کامیابی تصور کرتا ہے تو یہاں پر خودکش حملے، بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات نہ ہونا چاہیے تھا، ہر روز کسی نہ کسی مقام پر بم دھماکے ، خودکش حملے کی اطلاع ملتی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک افغانستان میں کامیابی حاصل نہ کرسکے اسی طرح عراق کا بھی یہی حال ہے۔
اسلام دشمن طاقتیں اپنے مفاد کے لئے جس طرح اسلامی ممالک میں دخل اندازی کرتے ہوئے فضائی حملے کررہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی سازش کے ذریعہ متحد ہونے نہ دیاجائے کیونکہ آج بیشتر اسلامی ممالک خصوصاً مشرقِ وسطیٰ معاشی طور پر مستحکم ہوچکے ہیں۔ اور انہیں ڈر ہے کہ ان ممالک کی معاشی خوشحالی دیگر مذاہب کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔اب تک مسالک کی بنیاد پر قتل و غارت گیری جاری تھی اور اب معاشی طور پر بھی ان ممالک کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جاری ہے۔ ان دنوں خام تیل نکالنے والے ممالک پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے۔ امریکہ اب چٹانی پتھر سے تیل نکالنے کے عمل میں ترقی کرچکا ہے ، امریکی تیل کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے۔مگر امریکی تیل کی پیداوار میں اضافہ اس وقت ہوا ہے جب عالمی منڈی میں تیل کی مانگ میں کافی کمی آچکی ہے۔اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ امریکی پالیسی یا سازش کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ایک طرف نام نہاد جہادی گروپس دہشت گردی کا ماحول بنائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ نے تیل نکالنے والے ممالک کی معیشت کو بُری طرح متاثر کرکے رکھدیا ہے۔ اور ان ممالک کے درمیان ہوسکتا ہے کہ پیداوار میں کمی یا زیادتی کے مسئلہ پر شدید اختلافات پیدا ہوجائیں گے ۔ ان اختلافات کا اصل ذمہ دار بھی تجزیہ نگارسوپر پاور امریکہ کو ہی گردانتے ہیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گذشتہ پانچ سالوں کی کم ترین سطح 52.27ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پہلے پیر کو قیمتوں میں 6فیصد کمی ہوئی تھی اور اس وقت مئی 2009کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یورپ کو فراہم کئے جانے والے تیل کی قیمت میں کٹوتی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نے ایشیائی ممالک کے لئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ منگل کے روز امریکی تیل 48.54ڈالر فی بیرل کی قیمت کے ساتھ 2009کے بعد پہلی بار 50ڈالر فی بیرل سے نیچے گرگیا تھا تاہم بعد میں تھوڑی سی بہتری آئی اور 52.27پر پہنچ گئی۔جبکہ 2014میں تیل کی قیمت فی بیرل 60ڈالر تک پہنچی تھی اور اس وقت تجزیہ نگار اسے بڑا اقتصادی جھٹکا سمجھ رہے تھے ۔ قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کئی ممالک خصوصاً روس اور ایران کی معیشت پر اثر پڑنے کے امکانات ہیں۔ تیل کی قیمت میں کمی سے یورپ سمیت دنیا بھر میں صارفین کو تو فائدہ ہورہا ہے لیکن تیل نکالنے والے ممالک کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی اوپیک کے کچھ ارکان کے لئے اہم مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ان ممالک کے سرکاری اخراجات کا بہت بڑا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری آمدنی کا 90فیصد تیل سے آتا ہے ، تاہم کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب قیمتوں میں کمی کو بہتر طریقہ سے برداشت کرسکتا ہے۔ لیکن ایران کے لئے قیمتوں میں کمی خاصا بڑا مسئلہ ہے ۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے اوپیک ممالک (تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم) اپنی یومیہ پیداوار میں کمی کرسکتے ہیں جس سے اگر قیمتوں میں اضافہ نہ بھی ہوا تو قیمتیں مزید گرنے سے رک جائیں گی۔ تیل کی عالمی پیداور کا 40فیصداوپیک ممالک پیدا کررہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپیک تیل کی پیداوار اور قیمتوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب تمام رکن ممالک اپنی پیداوار ی حدود سے تجاوز نہ کریں، ان ممالک میں اکثر اپنی اپنی پیداوری حد کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایران اور وینزویلا جو اوپیک کے رکن ممالک ہیں ان ممالک نے پیدوار میں کمی پر زور دیا ہے، دوسری جانب کویت اپنی پیداوار میں کمی کے امکان کو مسترد کرچکا ہے۔ سعودی عرب ماضی میں تیل کی عالمی قیمتوں میں ٹھہراؤ لانے کی غرض سے اکثر دیگر ممالک کی رہنمائی کرتا رہا ہے لیکن کبھی کبھار سعودی عرب ’’زخیرہ اندوز‘‘ کا رول بھی اداکرتا رہا ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے پیداوار کم یا زیادہ کردیتا تھا۔اس مرتبہ سعودی عرب کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے سے گریز کررہا ہے ، اس بارے میں تجزیہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ اس نے حال ہی میں اپنے کچھ خریداروں کو رعایتیں دی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب عالمی منڈی میں اپنا حصہ ہر صورت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی مانگ کے باوجود سعودی عرب اور دیگر ممالک نے اپنی پیداوار میں کمی نہیں کی جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ 2014کے وسط سے اب تک تیل کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی ہوچکی ہے۔سرمایہ کار فکر مند ہیں کہ مانگ میں کمی اور اضافی سپلائی قیمتوں میں مزید کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ ، روس اور دیگر تیل نکالنے والے ممالک کی معیشت کو متاثر کرنے کے لئے تیل کی قیمتوں میں کمی کا باعث بن رہا ہے ، اب امریکہ تیل نکالنے کا جو موقف رکھتا ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ عالم اسلام میں خام تیل کی نکاسی کے مسئلہ پر اختلافات پیدا کرکے ان حکمرانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ امریکی ڈالر کے مضبوط ہونے سے بھی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑا ہے۔ چونکہ تیل کی قیمت ڈالروں میں طے پاتی ہے اس لئے ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے کسی دوسری کرنسی میں تیل خریدنا مہنگا پڑتا ہے، جس سے تیل کی طلب میں مزید کمی ہوجاتی ہے ۔ اوپیک ممالک کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ کی مجموعی صورتحال حال کو مدّنظر رکھتے ہوئے خام تیل کی نکاسی کا عمل جاری رکھے ورنہ ہوسکتا ہے مستقبل میں ان قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو ۔ بعض تجزیہ نگارعالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کو سازش قرار دیتے ہیں ۔
جواب دیں