مولانا حبیب الرحمن ثانی کو قائد بناؤ

حضرت مولانا لدھیانوی کی لوگوں میں پنجابی خون تھا ان کا لباس بھی آخر تک پنجابی ہی رہا آواز کی کڑک بھی بجلی کی طرح تھی۔ اس نوٹس کو دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہوگئے اور سیدھے دہلی کے لئے روانہ ہوگئے۔ دہلی میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے پاس پہونچے انہوں نے احترام کا وہی رویہ اپنایا جو برسوں سے ان کا انداز تھا اور کہا کہ مولانا حکم فرمائیں کیسے تکلیف کی؟ حضرت مولانا نے وہ نوٹس پنڈت جی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا جواب میں تو دے نہیں پاؤں گا آپ گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھ کر مجھے دے دیجئے کہ میرے اور میرے اہل و عیال کے ویزے لندن کے لئے دے دیں تاکہ میں باقی عمر پورے برطانیہ میں گھوم گھوم کر انگریزوں سے معافی مانگ کر گذار دوں۔ ان سے کہوں کہ ہم نے ہندو کو سمجھا نہیں تھا اس لئے ان کا ساتھ دیا اور آپ سے جنگ کی۔ آپ ہمیں معاف فرما دیجئے۔
پنڈت نہرو کا رنگ بھی گورا تھا اور حضرت مولانا لدھیانوی بھی سرخ سفید تھے ان جملوں کے تبادلہ میں دونوں انگاروں کی طرح سرخ ہوگئے اور پنڈت جی نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار پرتاپ سنگھ کو ٹیلی فون کیا کہ مولانا اور ان کا خاندان لدھیانہ کے جس محلہ اور جس مکان میں ہیں وہیں رہیں گے ان کے جملہ کو پولیس چھاؤنی بھی اگر بنانا پڑے تو بنا دیجئے۔ لیکن مولانا پاکستان نہیں جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے پنجاب میں صرف ایک مسلمان خاندان تھا جو پاکستان نہیں گیا اور آج بھی اپنے اسی مکان میں ہے جہاں پہلے تھا۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے فرزند ارجمند مولانا حبیب الرحمن ثانی نے پنجاب میں بہت کام کیا ہے سیکڑوں مسجدیں جن میں پاکستان سے آئے پناہ گزیں قابض ہوگئے تھے ان سے بغیر لڑے جھگڑے وہ مسجدیں خالی کرالیں۔ اس کے علاوہ جو مسلمان پنجاب کے دیہاتوں میں چھپ گئے تھے انہیں بھی رفتہ رفتہ واپس بلا لیا اور اب مالیر کوٹلہ میں تو ہزاروں گھر مسلمانوں کے ہیں اور ان کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں قصائی، بڑھئی، تیلی جیسے پیشے کے کافی مسلمان آگئے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی تعصب نہیں ہے۔
مولانا حبیب الرحمن ثانی کا ایک بیان لکھیم پور سے آیا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ وہاں کس سلسلہ میں تشریف لانا ہوا۔ بہرحال مولانا نے فرمایا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ کوئی نئی قیادت لے کر سامنے آئیں۔ مولانا نے اُترپردیش کی حکومت پر بھی تبصرہ کیا اور اعظم خاں صاحب کے ذریعہ اُٹھائے ہوئے تاج محل کے مسئلہ پر بھی اظہار خیال کیا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کیا کہا ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ فی الحال اُترپردیش کے مسلمان مولانا کا دامن پکڑ لیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ مجلس احرار پنجاب سے لائیں اور ہر صوبہ میں اس کی جڑیں جمادیں۔ جہاں تک ہندوستان میں مسلمانوں کی قیادت کا مسئلہ ہے تو وہ یا تو پارٹیوں کی مٹھی میں ہے یا اتنی گرے ہوئے کردار کی ہے کہ بیڑی کے بھاؤ بک جاتی ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی کے بیٹے پوتے تھے اس قابل کہ قیادت ہاتھ میں لے لیتے لیکن مرحوم مولانا اسعد میاں نے ایسا بیج بو دیا کہ اب پورے خاندان کے اوپر سے اعتماد ختم ہوگیا اور رہی سہی کسر چچا بھتیجوں کے اختلاف نے پوری کردی جس کی بناء پر ان کے بہت اچھے اور تعمیری کاموں کے بعد بھی ان کی قیادت پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ کچھ جذباتی لوگ ہیں جو مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اور اکبرالدین کو دوسرے صوبوں میں لانا چاہتے ہیں۔ ان کی خوبی بظاہر اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہے کہ وہ حیدر آباد کے ہوتے ہوئے بھی رکشے والوں کی طرح بے تکلف گالی بکتے ہیں۔ وہ اسے بہادری سمجھتے ہیں کہ شری نریندر مودی کو کتا کہیں اور ان کی نسل کو کتوں کی نسل کہہ دیں۔ وہ مرحوم صلاح الدین اویسی کی یادگار ہیں لیکن حیدر آباد میں جتنا ان کے باپ کرگئے تھے اس سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ انہیں امت شاہ نے منھ مانگا خرچ دے کر مہاراشٹر میں لڑا دیا اور ان کی مداخلت سے کم از کم دس سیٹوں کا بی جے پی کو فائدہ ہوگیا۔ اب امت شاہ انہیں اُترپردیش اور بنگال میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خوب گالیاں بکیں جاہل اور جذباتی مسلمان انہیں بہادر سمجھیں ان کے فریب میں آکر مسلمانوں کو ووٹ ہٹوا دیں اور بی جے پی کا قبضہ ہوجائے۔
مولانا حبیب الرحمن ثانی جیسا کوئی اگر سامنے آجائے تو کم از کم مسلمانوں کو سیدھا راستہ تو دکھا سکے گا۔ انہیں یہ تو بتاسکے گا کہ ہندو کو کتا کہنا بہادری نہیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ اور یہ کھیل امت شاہ کا ہے کہ کسی مداری کو خریدکر کھڑا کردیا اور ووٹ تقسیم کرادیئے۔ ہر مسلمان کو مسجد میں ایک گھنٹہ سکون سے بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ اُترپردیش سے ایک بھی مسلمان پارلیمنٹ میں کیوں نہیں گیا؟ اگر مراد آباد، رام پور، میرٹھ، سہارن پور اور کئی سیٹوں پر خریدے ہوئے مسلمان اپنا ایمان فروخت نہ کرتے اور بہار کے کشن گنج سے لڑنے کے لئے اختر الایمان کی طرح ٹکٹ واپس کردیتے تو کیا دس مسلمان یوپی سے نہ پہونچتے؟ مسلمان کو مسلمان بن جانا چاہئے وہ بھی جب تک ہندو کی طرح دولت کو اپنا خدا سمجھے گا اور امت شاہ کی تھیلی کو عطیۂ خداوندی سمجھے گا اس وقت تک اسی طرح ذلیل ہوتا رہے گا۔ امت شاہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ جب ووٹ دو تو کمل کا بٹن اتنی زور سے دباؤ کہ اٹلی میں دھماکہ سنا جائے۔ ہم مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ مسلمان کو کامیاب بنانے کے لئے اتنی زور سے بٹن دباؤ کہ عشرت جہاں مرحومہ قبر سے نکل کر کھڑی ہوجائے اور انگلی اٹھاکر بتائے کہ مجھے قتل کرانے والا وہ ہے وہ۔

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے